چار دن کی چاندنی اور پھر: 'میں نے سونے کا تمغہ بیچ کر سائیکل مرمت کرنے کا سامان خرید لیا'

postImg

راشد لغاری

postImg

چار دن کی چاندنی اور پھر: 'میں نے سونے کا تمغہ بیچ کر سائیکل مرمت کرنے کا سامان خرید لیا'

راشد لغاری

ٹنڈو محمد خان کی سول ہسپتال روڈ پر سائیکلوں کی مرمت اور پنکچر لگانے کی دکان ہے جہاں اکا دکا گاہک دکھائی دیتے ہیں۔ چھوٹی سی اس دکان میں خراب سائیکلوں اور ان کے پرزوں کا ڈھیر پڑا رہتا ہے جس کے بیچوں بیچ بمشکل چند لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔

یہ دکان 58 سالہ تن ساز محمد فرید شیدی کی ہے جنہوں نے 1992ء میں بھارت کے شہر بنگلور میں ہونے والی انڈو پاک تن سازی (باڈی بلڈنگ) چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

تن سازی میں ان کی کامیابیوں کی لمبی فہرست کے ساتھ ان کی غربت کا دورانیہ بھی طویل ہے۔

وہ بنگلور میں ملنے والی کامیابی کے بعد عوامی پذیرائی کو سراہتے ہیں تاہم انہیں حکومت اور انتظامیہ سے گلہ ہے۔

"جب میں بنگلور سے واپس ٹنڈو محمد خان پہنچا تو پورے شہر نے میرا زبردست استقبال کیا اور عوام نے بہت عزت افزائی کی۔ مگر حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ہاتھ ملانے بھی نہ آیا۔"

فرید کے مطابق 1991ء میں انہوں ںے کراچی ریلوے اسپورٹس ہال میں پاکستان ریلویز کے تعاون سے ہونے والے آل پاکستان مقابلے میں جونیئر مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیتا تھا۔ اس سے پہلے 1987ء میں وہ مسٹر ٹنڈو محمد خان بن چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں ںے مسٹر حیدرآباد ڈویژن اور مسٹر سندھ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

کھیل کے میدان میں ملنے والی کامیابیوں کے باوجود انہیں متواتر معاشی مشکلات کا سامنا رہا۔

<p>انڈو پاک چیمپئن شپ کے علاوہ محمد فرید نے مسٹر حیدرآباد ڈویژن اور مسٹر سندھ کا اعزاز بھی حاصل کیا<br></p>

انڈو پاک چیمپئن شپ کے علاوہ محمد فرید نے مسٹر حیدرآباد ڈویژن اور مسٹر سندھ کا اعزاز بھی حاصل کیا

فرید نے بتایا کہ انہوں نے غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر بنگلور میں ملنے والا سونے کا تمغہ 1997 میں 27 ہزار روپے میں بیچ دیا تھا۔ اس رقم سے انہوں نے سائیکل مرمت کرنے والے اوزار خریدے اور یہ دکان کھول لی۔ آج بھی یہی دکان ان کا واحد ذریعہ معاش ہے جس میں وہ اکیلے ہی سائیکل مرمت کرتے ہیں اور اس کام سے روزانہ پانچ سے سات سو روپے تک کما لیتے ہیں۔

فرید شیدی کہتے ہیں کہ اگر حکومت کرکٹ کی طرح تن سازی کے لیے فنڈ یا وظیفہ مقرر کرتی اور اس کھیل اور کھلاڑیوں کو اسپانسر ملتے تو انہیں اپنا میڈل بیچنا نہ پڑتا۔

وہ میڈل کے ساتھ ملنے والی اعزازی شیلڈ بھی بیچ چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کے خدشات کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو باڈی بلڈنگ کی طرف نہیں لائے البتہ بہت سے لوگ ان کے شاگرد اور مداح ہیں۔

ٹنڈو محمد خان کے مصطفیٰ نے بھی فرید شیدی سے باڈی بلڈنگ کا فن سیکھا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ فرید شیدی کئی کلبوں کے کوچ بھی رہے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ کئی بڑے اعزازات ملنے کے باوجود وہ سائیکلیں مرمت کر کے روزی کمانے پر مجبور ہیں۔

حیدر آباد میں کام کرنے والے سینئر صحافی نیاز بالم بتاتے ہیں کہ اب باڈی بلڈنگ کے لیے مہنگی مشینیں آ گئی ہیں اور جِم کی فیس بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ حیدر آباد میں کم فیس لینے والے دو ہی کلب ہیں۔ اب لوگ اپنا جسم بہتر بنانے کے لیے تو تن سازی کرتے ہیں مگر اسے بطور کھیل اپنانے کا رحجان کم ہو گیا ہے۔ تاہم کسی طرح کی سرکاری سرپرستی کے بغیر اب بھی شہر میں تن سازی کی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔

<p>باڈی بلڈنگ کے علاوہ دیگر 35 رجسٹرڈ کھیلوں میں کسی کو بھی سندھ حکومت فنڈز نہیں دیتی<br></p>

باڈی بلڈنگ کے علاوہ دیگر 35 رجسٹرڈ کھیلوں میں کسی کو بھی سندھ حکومت فنڈز نہیں دیتی

اسی سلسلے میں رواں برس 20 مارچ کو حیدر آباد کے ہیلتھ اینڈ ویلتھ باڈی بلڈنگ کلب نے تن ساز نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مہران آرٹ کونسل میں ایک مقابلہ منعقد کیا تھا جس میں حیدر آباد، میرپور خاص، کراچی اور دیگر شہروں سے نوجوان تن سازوں نے حصہ لیا۔

اس کلب کے سی ای او مدثر عیسانی نے بتایا کہ بہت سے لوگ تن سازی کا شوق رکھتے ہیں مگر محکمہ کھیل کی طرف سے انہیں کوئی مدد نہیں دی جاتی۔ اگر حکومت کرکٹ کے طرح باڈی بلڈنگ کا کوئی بورڈ بنائے یا وظیفہ مقرر کرے تو پاکستان کے نوجوان اس میدان میں پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اولمپکس مقابلے: جذبہ جواں، صلاحیت بھرپور لیکن پھر بھی جیت ابھی تک ایک خواب۔

حیدر آباد کی ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسر مریم کیریو کے مطابق کچھ عرصہ پہلے سندھ میں باڈی بلڈنگ کی ترویج کے لیے فنڈ مختص کیے جاتے تھے۔ اب باڈی بلڈنگ کی بہت سی تنظیمیں اور فیڈریشنیں بن گئی ہیں جن کےآپس میں جھگڑے بھی رہتے ہیں۔ اپنی تنظیم یا فیڈریشن کو اصلی اور دوسری کو جعلی بتانا عام ہے۔ اسی چپقلش کی وجہ سے کسی کو بھی فنڈ نہیں دیے جاتے۔

سندھ اولمپک ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری احمد علی راجپوت کا کہنا ہے کہ ایسوسی ایشن کے پاس باڈی بلڈنگ سمیت 36 کھیل رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں کسی بھی کھیل کو حکومت فنڈز نہیں دیتی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تن سازی اور دیگر کھیلوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم زیادہ تر نوجوانوں کے لیے اس کھیل کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لیے انہیں تن سازی کی جدید سہولیات اور مالی وسائل درکار ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

تاریخ اشاعت 17 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

راشد لغاری حيدرآباد سنده سے تعلق رکھتے ہیں. بطور رپورٹر صحافی. ماحولیات, انسانی حقوق اور سماج کے پسے طبقے کے مسائل کے لیے رپورٹنگ کرتے رہیں ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.