عبداللہ ضلع خیبر کے علاقے اکا خیل کے رہائشی ہیں۔ وہ پہلے کاشتکاری سے اپنے کنبے کی کفالت کرتے تھے مگر اب محنت مزدوری کرکے گزارہ کرتے ہیں۔
وہ بارہ ایکڑ اراضی کے مالک ہیں لیکن یہ ساری زمین بےآب و گیاہ پڑی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15 سال پہلے تک یہاں بھر پور فصلیں ہوتی تھیں اور یہ پورا علاقہ نہایت سرسبز و خوشحال ہوا کرتا تھا۔
"ہم گندم، گنا، مکئی، پھلوں اور سبزیوں کی آمدنی سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ اگلی فصل کے لیے بھی ادھار نہیں لینا پڑتا تھا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ یہاں نہروں میں پانی کم ہوتا چلا گیا اور زمینیں ویران ہو گئیں۔"
پشاور سے پندرہ کلومیٹر دور تحصیل باڑہ کے اس علاقے کی زمین ہموار اور انتہائی زرخیز ہے۔ مگر نہری پانی کی کمی نے یہاں کے کاشت کاروں کو شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ضلع خیبر میں باڑہ بازار سے 14کلومیٹر مغرب میں دریائے باڑہ پر ایک بند تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ 1965ء میں شروع ہوا اور 1975ء میں تکمیل کو پہنچا۔ آبپاشی کے لیے اس بند سے دو نہریں نکالی گئی تھیں جن میں تین سال بعد پانی چھوڑ ا گیا تھا۔
انجنیئر ایریگیشن حیدر حیات بتاتے ہیں کہ وادی تیراہ سے دریائے باڑہ اور اورکزئی سے دریائے مستورہ 'سپیرہ' کے مقام پر آپس میں ملتے ہیں۔ بند اسی سنگم پر بنا دیا گیا اور پانی کو روک کر نہروں میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی جھیل یا پانڈ نہیں ہے۔
"اگر دریا میں پانی کی مقدار زیادہ ہو تو کاشتکاروں کو زیادہ پانی ملے گا۔ بارشیں اور برف باری کم ہو تو پانی کی مقدار کم ہو جائے گی۔"
محکمہ آبپاشی ضلع خیبر کے مطابق سپیرہ بند پر پانی روکنے کےلیے دو دروازے لگائے گئے ہیں۔ جن کی مدد سے ٹنل کے ذریعے 279 کیوسک پانی کینال سسٹم میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ 36 کیوسک پانی دریائے باڑہ میں جانے دیا جاتا ہے۔
سپیرہ بند سے رائٹ بینک کینال کو 211 کیوسک پانی دیا جاتا تھا جو اکاخیل، سپاہ اور شلوبر کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔ لیفٹ بینک کینال کو 68 کیوسک پانی ملتا تھا جو ملک دین خیل، برقمبرخیل اور کوکی خیل میں فصلوں کی آبیاری کرتی ہے۔
ان دونوں نہروں سے تحصیل باڑہ اور تحصیل جمرود کی 104کلومیٹر طویل چھوٹی اور بڑی نہریں منسلک ہیں۔
اسی طرح دریائے باڑہ میں چھوڑے جانے والے 36 کیوسک پانی میں سے 16کیوسک پانی پشاور کے علاقے شیخان، 10 سنگو اور 10 کیوسک ائیر فورس کو پینے کے لیے مہیا کیا جاتا ہے۔
محکمہ آبپاشی خیبر کے مطابق 1978ء میں جب ان نہروں میں 278 کیوسک پانی کی ترسیل شروع ہوئی تو اس سے 44 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوتی تھی لیکن کئی برسوں سے پانی کی مقدار بتدریج کم ہوکر 120 کیوسک رہ گئی ہے۔
سرکار کہتی ہے کہ اب اس پانی سے لگ بھگ 18 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا ہے۔ تاہم مقامی آبادی ان اعداد وشمار سے اتفاق نہیں کرتی۔
عبداللہ کا کہنا ہے کہ 10 ہزار ایکٹر سے بھی کم زمین سیراب ہوتی ہے۔
شلوبر قمبر خیل کے کاشت کار علی مت خان بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پانچ ایکڑ زمین میں سے صرف ایک ایکڑ پر گندم اور سبزیاں کاشت کی ہیں۔ اس کا بھی پانی پورا نہیں ہوتا جبکہ تین سال پہلے یہاں 85 من فی ایکڑ تک گندم ہوتی تھی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ایک تو نہر میں کم پانی چھوڑا جاتا ہے۔ دوسرا لوگوں نے نہر میں جگہ جگہ غیر قانونی ناکے بنا رکھے ہیں۔ اس لیے فصلیں تو کیا بڑے بڑے درخت بھی سوکھ گئے ہیں۔
گل نظیر آفریدی باڑہ سماجی کارکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نہروں میں پانی کم ہونے کے بعد بعض زمینداروں نے ناکوں کے سائز بڑھا لیے ہیں یا غیر قانونی ناکے بنا لیتے ہیں۔ اس سے علاقائی تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔
باڑہ کے سب ڈویژنل افسر انہار حیدر حیات بتاتے ہیں کہ ابتدا میں سپیرہ بند پر چار سے پانچ سو کیوسک پانی آتا تھا۔ اب صرف ڈیڑھ سو کیوسک ہوتا ہے جس میں سے 120 کیوسک آبپاشی کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔
وہ تصدیق کرتے ہیں کہ قانونی ناکوں میں چھیڑ چھاڑ سے کاشتکاروں کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ان شکایات کے ازالے کے لیے باڑہ کے نہری نظام پر آٹھ ملازمین تعینات ہیں۔ تاہم طویل نہری نظام کی وجہ سے مسائل موجود ہیں۔
زیر زمین پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے
کچھ عرصہ قبل سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بتایا گیا تھا کہ پچھلے دس سال میں ملک بھر میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے۔ یہ سطح ضلع خیبر میں 74 فٹ بتائی گئی تھی جو خطرناک حد تک نیچے ہے۔
ڈاکٹر منیب خٹک خیبر پختونخوا میں پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی وسائل کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہاں زیر زمین پانی سالانہ چار سے پانچ فٹ نیچے جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں میں کم ہو رہی ہیں اور پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ذخائر بنانے کا کام بھی نہیں ہو رہا جبکہ شہروں، فیکٹریوں، سروس سٹیشنز اور کھیتوں میں پانی کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ خیبر میں برساتی نالوں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر یہاں کی صور ت حال کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
محکمہ زراعت توسیع خیبر کے ڈائریکٹر ضیاء الاسلام داوڑ بتاتے ہیں کہ ضلع خیبر 24 ہزار 518 ہیکٹر (60ہزار 585 ایکڑ) رقبہ زیر کاشت ہے۔ جبکہ دو ہزار 80 ہیکٹرز پر جنگلات ہیں۔ یہاں پانی کی کمی کی وجہ سے زمینوں کی پیدواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ضلع خیبر کے تمام مسائل کا حل باڑہ ڈیم اور اس کے ساتھ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف زرعی زمینوں کو پانی میسر ہوگا بلکہ زیر کاشت رقبے میں اضافہ ہوگا اور یہاں پینے کے پانی کا مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔
سمال ڈیمز، محکمہ آبپاشی خیبر پختونخوا کا ذیلی ادارہ ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد باڑہ ڈیم سمیت تمام مجوزہ ڈیمز کے معاملات اسی ادارے کے حوالے کیے گئے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ باڑہ ڈیم کی فیزیبلٹی سٹڈی پر کام جاری ہے۔ یہ سٹڈی گورنر سیکرٹریٹ فاٹا نے نیسپاک کے ذریعے 2006ء سے 2008ء تک مکمل کی تھی۔
ابتدائی رپورٹ میں باڑہ ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ تقریباً گیارہ ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن اب یہ لاگت 45 ارب روپے بتائی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس منصوبے کو ایکسیلریٹڈ امپلی منٹیشن پروگرام (اے آئی پی) میں شامل کر رکھا ہے۔
مشاورتی انجنیئرز برائے فیزیبلٹی سٹڈی اور تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کی مشترکہ ٹیم نے مارچ 2022ء میں منصوبے پر سروے شروع کیا تھا اور یہ ٹیم اپنی جائزہ و نظرثانی رپورٹ محکمے کو جمع کرا چکی ہے۔
سمال ڈیمز کی دستاویزات کے مطابق مجوزہ ڈیم دریائے باڑہ اور دریائے مستورہ کے سنگم پر سپیرہ بند سے 7.3 کلومیٹر مغرب میں تعمیر کیا جائے گا۔ ڈیم سےکل 42 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہو گی۔ اس میں سے 36 ہزار 420 ایکڑ رقبہ باڑہ کینال سسٹم اور پانچ ہزار 309 ایکڑ سول ایریگیشن سسٹم سے سیراب ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی میں نمل ڈیم کی جھیل سوکھنے لگی، زرخیز زمینیں بنجر ہونے کا خدشہ
یہ رپورٹ کہتی ہے کہ مجوزہ ڈیم کی اونچائی 92 میٹر ہو گی اور اس میں پانی کی ذخیرہ کی گنجائش 85 ہزار 363 ہیکٹر فٹ ہو گی جس میں سے 62 ہزار 434 ہیکٹر فٹ پانی زیر استعمال لایا جائے گا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ڈیم سے چھ میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔
باڑہ ڈیم کب تعمیر ہو گا؟
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست میں باڑہ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کے سوال پر سمال ڈیمز کے حکام نے بتایا کہ علاقے میں سکیورٹی صورتحال اور فنڈز کی عدم دستیابی کے ایشوز ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت فنڈز کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
اس منصوبے سے علاقے میں ایک مڈل سکول، ایک بنیادی مرکز صحت، خیبر اور اورکزئی کے درمیان تین کلومیٹر سڑک، ایک قبرستان اور کچھ گھر متاثر ہوں گے۔ تاہم قانون کے مطابق زمین کے حصول کو پی سی ون کا حصہ بنایا جائے گا۔ یہ ڈیم سیلاب روکنے اور زیر زمین پانی کے مسئلے میں کافی مدد گار ثابت ہو گا۔
خیبر سے سابق رکن قومی اسمبلی محمد اقبال آفریدی بتاتے ہیں کہ وفاقی محکمہ پلاننگ اور صوبائی ادارے باڑہ ڈیم کی منظوری دے چکے ہیں۔ ڈیم کے ڈیزائین کے لیے 46 کروڑ روپے پی ٹی آئی دور میں مختص کیے گئے تھے اور شیخ محمد جلال کو پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا چکا ہے۔ تاہم صوبائی حکومت نے کوئی پیشرفت نہیں دکھائی۔
اقبال آفریدی نے منتخب ہونے کے بعد باڑہ ڈیم کے لیے چندہ مہم شروع کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سولہ لاکھ روپے چندہ جمع ہوا تھا۔ یہ رقم تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما کے پاس رکھی گئی تھی۔ لیکن بعد میں لوگوں کے مطالبے پر اس رقم سے تیراہ اور نوشہرہ کے سیلاب متاثرین کے لیے خوردنی اشیاء خرید لی گئی تھیں۔
تاریخ اشاعت 2 دسمبر 2023