چودھری عمر حیات ماڈل ٹاؤن لاہور کے رہائشی ہیں جنہوں نے 1992ء میں یہاں ایک کنال زمین خرید کر گھر بنایا اور فیملی سمیت اس میں منتقل ہو گئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ گاؤں سے اپنی اہلیہ، دو بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ شہر منتقل ہوئے تھے۔ اب ان کے تینوں بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ بیٹی تو اپنے گھر چلی گئی مگر بیٹوں نے اسی گھر کے دو الگ الگ پورشن بنا لیے ہیں۔ چند برس پہلے تک اس گھر میں جہاں لان ہوا کرتا تھا اب وہاں کمرے بن چکے ہیں۔
"ہم جب یہاں منتقل ہوئے تو گھر کے دونوں طرف جگہ خالی تھی لیکن آج کوئی بھی پلاٹ خالی دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ارد گرد زیادہ تر وہ لوگ رہائش پذیر ہیں جو دیہات یا چھوٹے شہروں سے یہاں منتقل ہوئے۔ پہلے اس علاقے میں ایک اور دو منزلہ عمارتیں تھیں مگر اب کثیرالمنزلہ اپارٹمنٹس بن رہے ہیں۔"
گلبرگ کے رہائشی میاں محمد ابراہیم بھی بیٹوں کی شادیوں کے بعد ان کے الگ گھروں کے لیے پریشان تھے لیکن پھر انہوں نے دس مرلے کے اپنے گھر کے اوپر دو منزلیں بنالیں۔ اب گراؤنڈ فلور پر وہ خود اپنی بیوی اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ دو بڑے بیٹے گھر کے دوسرے اور تیسرے فلور پر رہائش پذیر ہیں۔
شہر کاری (اربنائزیشن)کے اس رحجان میں اضافے کی وجہ سے جہاں بڑے شہروں میں رہائش، خوراک، انرجی، ٹرانسپورٹ کی کمی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں وہیں فضائی آلودگی اور سموگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
لاہور شہر اور واہگہ بارڈر کے درمیان سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ 15/20 برس قبل کینال روڈ پر ہربنس پورہ سے آگے سڑک ویران نظر آتی تھی اور لوگ شام کے بعد اس طرف جانے سے گریز کرتے تھے۔ جی ٹی روڈ پر رات دس بجے کے بعد دروغہ والا سے آگے مناواں، جلوموڑ، واہگہ بارڈر کے لیے ٹرانسپورٹ نہیں ملتی تھی۔
ملتان روڈ اور ٹھوکرنیاز بیگ کی طرف بھی آبادی کم تھی لیکن لاہور اب واہگہ بارڈر سے ٹھوکر نیاز بیگ، شاہدرہ سے کاہنہ تک پھیل چکا ہے اور درجنوں قصبات ہاؤسنگ سکیموں میں تبدیل ہو کر شہر کا حصہ بن چکے ہیں۔
ورلڈپاپولیشن ریویو کے مطابق لاہور دنیا کا 42 واں اور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی 2000ء میں 55 لاکھ 76 ہزار 372 افراد پرمشتمل تھی جو 2024ء میں ایک کروڑ 44 لاکھ سے زائد ہے۔
"گزشتہ 14 برسوں میں لاہور شہر آبادی کے لحاظ سے تقریباً دگنا ہو چکا ہے جہاں اب ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں چھ ہزار 300 لوگ آباد ہیں۔"
پنجاب میونسپل ڈیویلپمنٹ فنڈ کمپنی (پی ایم ڈی ایف سی ) کے مینجر کمیونیکشن ادریس حیدر بتاتے ہیں کہ شہری آبادی میں اضافے کے تین بنیادی عوامل ہوتے ہیں۔ ایک تو قدرتی اضافہ ہے جو شہروں میں پہلے سے آباد لوگوں کے خاندانوں میں وقت کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسرا نیم شہری علاقوں اور نواحی قصبات میں تیزی سے بنائی جانے والی ہاؤسنگ سکمیں ہیں جو شہر سے متصل ہونے کی وجہ سے اس کا حجم بڑھا رہی ہیں۔ شہری آبادی میں اضافے کا تیسرا بڑا عنصر دیہات اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش، زیادہ اجرت، تعلیم و صحت کی بہتر سہولتوں کی دستیابی لوگوں کو دیہات اور چھوٹے شہروں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس عمل سے شہری علاقوں میں خوراک، توانائی، ٹرانسپورٹ، رہائش و دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تحفظ ماحولیات لاہور علی اعجاز بتاتے ہیں کہ شہری آبادی بڑھنے سے دیگر مسائل کے ساتھ آب و ہوا بھی متاثر ہوتی ہے۔شہر میں گرین ایریاز ختم ہو رہے ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ میں اضافے اور سیوریج کی ناکافی سہولیات سے آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔
"زیادہ تر صنعتیں شہروں کے قریب ہیں جہاں استعمال ہونے والا ایندھن آلودگی پیدا کرتا ہے۔ آبادی بڑھتی ہے تو قابل کاشت شدہ رقبہ کم ہو جاتا ہے اور آبادی کی طلب پوری کرنے کے لیے ہائبرڈ بیج کاشت کیے جاتے ہیں جن کے لیے اضافی کھادوں اور دواؤں کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اربنائزیشن سے توانائی کے استعمال اور کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے جس سے شہری علاقوں میں ماحولیات کی تنزلی کا زیادہ خطرہ ہے۔
"فضائی آلودگی سے لاہور میں سموگ بڑھ رہی ہے اور شہری آنکھوں کے انفیکشن، جلدی و سانس کی بیماریوں کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے لاہور میں رہنے والوں کی اوسط عمر میں چھ سال تک کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔"
دی اربن یونٹ کی سیکٹرل ایمیشن انونٹری آف لاہور سے متعلق رپورٹ 2023ء میں کہا گیا ہے کہ 2011ء سے 2021ء تک لاہور کی ائر کوالٹی خراب اور انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر سطح پر رہی۔ یہاں بارشوں کی مجموعی شرح میں 15 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ درجہ حرارت میں اضافے کا ٹرینڈ رہا۔
"گزشتہ 30 برسوں میں لاہور کے گرین ایریاز میں 392.78 مربع کلومیٹر کی کمی ہوئی جبکہ تعمیر شدہ رقبے میں 113.85 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔"
اس رپورٹ کے مطابق یہاں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹ ہے جو اس میں 83.15 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ آلودگی میں 9.07 فیصد کا ذمہ دار انڈسٹری میں استعمال ہونے والا غیر معیاری ایندھن ہے جبکہ 3.9 فیصد آلودگی زراعت، 3.6 فیصد کچرا جلانے، 0.14 فیصد کمرشل اور 0.11 فیصد گھریلو سرگرمیوں سے پیدا ہوتی ہے۔
"اربنائزیشن سے ٹرانسپورٹ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2011ء میں لاہور میں رجسٹرڈ چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تعداد 23 لاکھ 90 ہزار تھی جو 2021ء میں بڑھ کر 62 لاکھ 90 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اب اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔"
ادریس حیدر کہتے ہیں کہ شہروں میں منتقل ہونے والے لوگوں کو واپس بھیجنا تو ممکن نہیں ہے لیکن یہاں مزید رقبے پر تعمیرات کے پھیلاؤ کو ضرور روکا جاسکتا ہے۔اس کے لیے افقی رہائش گاہیں بنانے کی بجائے عمودی (ہائی رائز) عمارتوں کو فروغ دینا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں
الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال سے فضائی آلودگی میں کتنی کمی آئے گی؟
"دور تک پھیلے افقی شہروں میں سکول، کالج، دفاتر، ہسپتال اور شاپنگ سنٹرز میں جانے کے لیے زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے جس پر زیادہ ایندھن صرف ہوتا ہے۔ عمودی اربنائزیشن کی حکمت عملی اختیار کرنے سے بلند عمارتوں میں اپارٹمنٹس کے ذریعے رہائشی ضروریات اور سہولتوں کی فراہمی آسان ہو جائے گی اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی کم ہو گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ڈی ایف سی کی کوشش ہے کہ بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کو روکا جائے۔ اس مقصد کے لیے 11 چھوٹے شہروں میں انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ ان میں وزیرآباد، حافظ آباد، جھنگ، گوجرہ، جڑانوالہ، کمالیہ، اکاڑہ، خانیوال، بہاولنگر، بورے والا اور کوٹ ادو شامل ہیں۔
"ان شہروں میں انفراسٹرکچر خاص طور پر سڑکوں کی تعمیر اور سیوریج سسٹم کے لیے ایسی تکنیک استعمال کی جا رہی ہے جس سے آلودگی کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔"
معروف اربن پلانر ثانی زہرہ بھی اتفاق کرتی ہیں کہ شہروں کا پھیلاؤ روکنے اور توانائی کی بچت کے لیے کثیرالمنزلہ عمارتیں بنانا ضروری ہے جہاں چھوٹے گھروں میں تمام سہولتیں یعنی کچن، ڈرائنگ روم، بیڈروم اور واش رومز میسر ہوں۔
"عمارتوں کا سٹرکچر اس طرح بنایا جائے کہ اس کے ہر حصے میں قدرتی روشنی اور ہوا پہنچ سکے جبکہ ہر پورشن پر پلانٹیشن لازمی قرار دی جانی چاہیے۔"
وہ کہتی ہیں کہ ٹرانسپورٹ کے مسائل سے نپٹنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ لوگ ذاتی گاڑیوں کے بجائے میٹرو ٹرین یا بس میں سفر کریں۔ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں گرین ایریاز کی موجودگی بنیادی شرط قرار دیا جائے۔
تاریخ اشاعت 29 جولائی 2024