خیراللہ مالی مشکلات کے باعث اس قدر پریشان ہیں کہ کبھی کبھار ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ خود کُشی کر لیں۔
وہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے گاؤں ہمزونی میں رہتے ہیں جو ضلعی صدر مقام میران شاہ سے 15 کلومیٹر مغرب میں افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ روزگار کا کوئی مستقل وسیلہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر سڑک کے کنارے سبزیاں بیچ کر گزارا کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چند سال پہلے وہ بہت خوش حال تھے۔ اُس وقت وہ میران شاہ کی سبزی منڈی میں آڑھتی کے طور پر کام کرتے تھے اور روزانہ لاکھوں روپے کے پھل افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے منگا کر پاکستان کے مختلف حصوں میں بھیجتے تھے۔
لیکن جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں موجود مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف ضربِ عضب کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کیا گیا جس کے باعث ان کا کاروبار بند ہو گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں اس قدر عجلت میں اپنا گھر بار چھوڑ کر قریبی ضلع بنوں میں منتقل ہونا پڑا کہ ان کی تمام کاروباری دستاویزات ان کی دکان میں ہی رہ گئیں۔
تین سال بعد جب خیراللہ میران شاہ واپس آئے تو فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کے نتیجے میں سبزی منڈی سمیت شہر کا ایک بڑا حصہ ملیامیٹ ہو چکا تھا اور پانی کی ایک ٹینکی پرانے وقتوں کی واحد یادگار کے طور پر اس جگہ کھڑی ہے جہاں کبھی منڈی واقع تھی۔ ان کے مطابق ان کی دکان اس ٹینکی کے عین نیچے ہوا کرتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ دکان کی تباہی سے اس میں موجود ان کے "سارے کھاتے بھی ضائع ہو گئے ہیں"۔ چنانچہ انہیں زبانی یاد نہیں کہ انہوں نے کس سے کتنے پیسے لینے ہیں اور کس کو کتنا قرض واپس کرنا ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ مجموعی طور پر ان کے "لاکھوں روپے ڈوب گئے ہیں"۔ نتیجتاً ان کا کہنا ہے کہ "آج میرے پاس "اتنے پیسے بھی نہیں کہ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکوں جبکہ مجھے قرض دینے والے لوگ مسلسل اپنی رقم واپس مانگ رہے ہیں"۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مالی حالت صرف اسی صورت میں بہتر ہو سکتی ہے کہ حکومت انہیں ان کی دکان اور کاروبار کی تباہی کا عوضانہ دے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران تباہ ہونے والی سینکڑوں دیگر دکانوں کے مالکان بھی یہی چاہتے ہیں۔
ان میں شامل شاہ پھول خان میران شاہ بازار میں میک اپ کے سامان کی دکان چلاتے تھے لیکن فوجی آپریشن کے نتیجے میں دوسرے مقامی لوگوں کی طرح وہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بنوں چلے گئے۔ 2017 میں جب وہ اپنے شہر لوٹے تو ان کا گھر اور دکان دونوں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے۔
لہٰذا وہ اپنے خاندان سمیت دوبارہ بنوں چلے گئے۔ لیکن دو سال بعد وہ شمالی وزیرستان واپس آ گئے اور میران شاہ سے تقریباً 25 کلومیٹر مغرب میں واقع دیگان اڈہ نامی جگہ پر میک اپ کے سامان کی چھوٹی سی دکان کھول کر گزر بسر کرنے لگے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں ان کے تباہ شدہ کاروبار کا عوضانہ دے تاکہ وہ اس رقم کو استعمال کر کے اپنی دکان بڑی کر سکیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس مطالبے کو منوانے کے لئے انہیں شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں واقع سرکاری دفتروں کے اتنے چکر لگانے پڑ رہے ہیں کہ اس سے ان کے محدود مالی وسائل پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔
جرگے سے سپریم کورٹ تک
امشاد اللہ آٹھ سال پہلے میران شاہ کے مرکز میں واقع لاری اڈے میں گاڑیوں کے انجن اور پرزے بیچتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اُس وقت وہ روزانہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ لیکن، ان کے مطابق، فوجی آپریشن کی وجہ سے ان کا کام کاج ختم ہو گیا اور اب وہ بے روزگار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان کے دیگر تاجروں سے مل کر 2017 سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ان کی تباہ شدہ دکانوں اور کاروباروں کا معاوضہ دیا جائے۔ ان کے بقول شروع میں جب "ہم نے اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے سرکاری افسروں اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں تو ہماری بات پر کوئی توجہ نہ دی گئی"۔
بعدازاں انہوں متعدد احتجاجی مظاہرے کیے جن کے نتیجے میں بالآخر وہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو اپنی "قابلِ رحم معاشی حالت" کی طرف متوجہ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ نتیجتاً 2018 کے شروع میں مقامی عمائدین، صحافیوں اور اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے ایک جرگا منعقد کیا جس نے ایک متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں ہونے والے تمام کاروباری نقصانات کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کا ازالہ کیا جائے۔
ان نقصانات سے متاثر ہونے والے تاجروں کے ایک وفد نے 20 اپریل 2018 کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کی انجمن تاجران اور حکومت کے درمیان اس ازالے کے طریقہِ کار پر ایک معاہدہ طے پا گیا۔ 22 اگست 2018 کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے قبائلی عمائدین اور تاجروں سے دوبارہ ملاقاتیں کیں جن کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس طریقہِ کار کے پہلے مرحلے میں مقامی اسسٹنٹ کمشنر اور فوجی حکام مل کر نقصانات کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کریں گے۔
چند ماہ بعد پیش کی جانے اس رپورٹ میں کہا گیا کہ شمالی وزیرستان میں مجموعی طور پر چھ ہزار نو سو 69 دکانیں تباہ ہوئیں جن کی کل مالیت 21 ارب روپے بنتی ہے۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں خیبرپختونخوا کی حکومت نے سرکاری افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کر کے اسے اختیار دیا کہ وہ تاجروں کے انفرادی نقصانات کی تصدیق کر کے انہیں زرِ تلافی دینا شروع کرے۔
اس کمیٹی کی سفارشات کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے سب سے بڑے قصبے میر علی میں تباہ ہونے والی تمام دکانوں اور پیٹرول پمپوں کے مالکان کے مالی نقصانات کا ازالہ کر دیا گیا۔ لیکن میران شاہ اور دیگر مقامات کے تاجروں کو زرِ تلافی کی ادائیگی میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی جس کے خلاف احتجاج کے طور پر انہوں نے مارچ 2019 میں اپنے ضلعے کے اندر اور بعدازاں جنوری-فروری 2020 میں پشاور میں کئی احتجاجی مظاہرے کیے۔
لیکن ان مظاہرین کی بات سننے کے بجائے شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر نے 19 جون 2020 کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے نقصانات کی تصدیق اور عوضانے کی ادائیگی کرنے والی خصوصی کمیٹی کو ختم کر دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تاجر اس کے سامنے غلط بیانی سے کام لے کر اپنی دکانوں کی تعداد اور مالیت زیادہ بتا رہے ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے سرکاری افسران پر مشتمل ایک نئی کمیٹی بنا کر اسے حکم دیا کہ وہ تصدیقی عمل کے دوران تاجروں سے حلف لے کہ وہ اپنی نقصانات بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کر رہے۔
لیکن امشاد اللہ کہتے ہیں کہ یہ نئی کمیٹی حلف کے علاوہ ایسے ثبوت بھی مانگ رہی ہے جن کی فراہمی ناممکن ہے۔ ان کے بقول 19-2018 میں تو لوگ بازار کے کھنڈرات دیکھ کر اپنی دکانوں کی نشان دہی کر سکتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ملبہ ہٹا کر پورے بازار کو ایک چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں پرانے آثار اتنے کم رہ گئے ہیں کہ اب ان کی مدد سے اکثر مقامی تاجر اپنی دکانوں کا محلِ وقوع متعین نہیں کر سکتے۔
ان کا یہ بھی موقف ہے کہ جب خصوصی کمیٹی کی سفارشات پر میرعلی کے تاجروں کو ادائیگی ہو چکی ہے "تو میران شاہ کے لیے الگ پیمانہ کیوں بنایا جا رہا ہے"۔
ایسی ہی شکایات کو بنیاد بنا کر میران شاہ کے تاجروں نے نئی کمیٹی کے قیام کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے بنوں بنچ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی جس کے ججوں، جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس محمد نعیم انور، نے 21 اکتوبر 2021 کو نہ صرف ڈپٹی کمشنر کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ اس کے اجرا سے پہلے کام کرنے والی خصوصی کمیٹی کے تمام اختیارات اور سفارشات بھی بحال کر دیں۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ "پٹیشن دائر کرنے والے لوگوں نے بہت بڑا مالی نقصان برداشت کیا ہے اس لیے بہت ہی اچھا ہو گا اگر صوبائی حکومت تین ماہ کے اندر اندر اس کا زالہ کرنے کے لیے مختص کی گئی رقم کی تقسیم میں گہری دلچسپی لے"۔
یہ بھی پڑھیں
افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔
لیکن امشاد اللہ کا کہنا ہے کہ اس واضح حکم کے باوجود ابھی تک حکومت نے میران شاہ کے تاجروں کو کوئی زرِتلافی ادا نہیں کی۔ اس کے برعکس صوبائی انتظامیہ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جس نے اس پر عمل درآمد تاحال روک رکھا ہے۔
تاجروں کے دعووں پر حکومتی اعتراضات
شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان کہتے ہیں کہ دکانوں کی ملکیت کی دوبارہ تصدیق کرانا ان کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ وہ ایسا خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ کی ہدایت پر کر رہے ہیں "جس نے طے کیا ہے کہ دکان داروں کو کوئی بھی ادائیگی مکمل تصدیق کے بغیر نہیں کی جا سکتی"۔
اس تصدیقی عمل کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میران شاہ کے بہت سے تاجروں نے دکانوں کی ملکیت کے بارے میں جعلی دعوے کر رکھے ہیں۔ ایسے دعووں کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "کچھ لوگ افغان مہاجرین کی دکانوں کو بھی اپنی ملکیت ظاہر کر رہے ہیں جبکہ انجمن تاجران کے صدر کی اصل ملکیت دو دکانیں تھیں لیکن اس نے 18 مزید دکانوں کی ملکیت کا دعویٰ بھی کر رکھا ہے"۔
اسی طرح، ان کے بقول، مقامی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سو 34 خاکروب بھی دکانوں کی ملکیت کے دعوے دار ہیں جبکہ "یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ میران شاہ میں ان کی ایک دکان بھی نہیں تھی"۔
شاہد علی خان کی نظر میں متاثرہ تاجروں کے کئی مطالبات بھی ناجائز ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ کئی تاجر چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی ایک مرلے (دو سو 72 مربع فٹ) پر مشتمل دکان کا عوضانہ 15 لاکھ روپے سے بڑھا کر 45 لاکھ روپے کرے۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ "جن لوگوں نے دکانیں کرائے پر لے رکھی تھیں وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تین لاکھ روپے فی دکان کے حساب سے زرِ تلافی دینے کے بجائے تین ہزار پانچ سو روپے فی مربع فٹ کے حساب سے ادائیگی کی جائے"۔
وہ میر علی کے تاجروں کو خصوصی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کی گئی ادائیگیوں پر بھی خوش نہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں ہونے والی "کئی بے قاعدگیاں اب سامنے آ رہی ہیں" جن کی تحقیقات قومی احتساب بیورو (نیب) نے شروع کر دی ہیں۔ ان کے بقول "وہاں کچھ ایسے لوگوں کو بھی دکانوں کی تباہی کا عوضانہ دیا گیا ہے جو دکان دار نہیں بلکہ طالب علم تھے"۔
تاہم میران شاہ سے تعلق رکھنے والے تاجر خونامیر خان کہتے ہیں کہ اگر کچھ لوگوں نے جعلی دعوے اور ناجائز مطالبات کر رکھے ہیں "تو حکومت ان کی وجہ سے اصلی دعوے داروں کو سزا تو نہ دے"۔ وہ جون 2014 سے پہلے میران شاہ کے محلے ظفر ٹاؤن میں ایک گودام چلاتے تھے جہاں سے، ان کے مطابق، وہ مقامی دکانداروں کو روزانہ لاکھوں روپے کا آٹا اور چینی بیچا کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار کی مالیت کی تصدیق ان مِلوں سے کی جا سکتی ہیں جہاں سے وہ آٹا اور چینی خریدتے تھے۔ لیکن، اس کے برعکس، "حکومت مجھے جو معاوضہ دینا چاہتی ہے وہ میرے نقصان کا ایک فیصد بھی نہیں"۔
اس کے باوجود وہ کوئی بھی عوضانہ قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ اس کی ادائیگی میں مزید تاخیر نہ کی جائے کیونکہ، ان کے بقول، "اب تو مجھے اپنے گھر کے لیے درکار آٹا خریدنے کے لیے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے"۔
تاریخ اشاعت 7 فروری 2022