درجنوں افغان کفن نما سفید لباس میں ملبوس 9 مئی 2022 کی تپتی دوپہر میں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کے کپڑوں پر انگریزی میں 'ہمیں مار دو' لکھا ہے۔
یہ مظاہرین پچھلے اپریل 18 سے احتجاج کرنے والے ان ایک ہزار کے لگ بھگ افغانوں میں شامل ہیں جو اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان آ گئے ہیں تاکہ یہاں سے کسی تیسرے ملک جا سکیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد دن رات نیشنل پریس کلب کے سامنے گزارتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ان میں سے بیشتر نے کپڑے سے عارضی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جبکہ کچھ کے پاس کینوس کے مضبوط خیمے اور مچھر دانیاں بھی ہیں۔
ان میں کابل سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ احمد زکریا فاروقی بھی موجود ہیں جو پچھلے سال 28 نومبر کو طور خم کی سرحد پار کر کے پاکستان پہنچے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں وہ 14 سال مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کرتے رہے جن میں امریکی امداد سے چلنے والی ایک ترقیاتی تنظیم بھی شامل تھی۔ بعدازاں، ان کے مطابق، اسی تنظیم کے توسط سے وہ ایک ایسی امریکی کمپنی کے ساتھ کام کرنے لگے جس کا کام عسکری خطرات کی نشان دہی کرنا اور ان پر قابو پانے کے انتظامات کرنا تھا۔
لیکن ان کے پاس ان کاموں کے حتمی اور تازہ ترین ثبوت موجود نہیں۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ 2019 میں اس تقریب میں شامل نہیں ہو سکے تھے جو اُس ترقیاتی تنظیم نے اپنے منصوبوں کے اختتام پر اپنے ملازمین کو اسناد دینے کے لیے کابل ائرپورٹ سے متصل ایک امریکی فوجی اڈے میں منعقد کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ "میں اڈے کے باہر گاڑی سے اترا ہی تھا کہ دو طالبان جنگجوؤں نے مجھ پر حملہ کر دیا اور مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مجھے کافی زخم آئے اور میں تقریب میں شرکت کرنے کی بجائے واپس گھر آ گیا"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد انہیں خدشہ پیدا ہو گیا کہ امریکہ کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے انہیں کہیں مار نہ دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا آبائی گھر چھوڑ دیا اور اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کو لے کر کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے تاکہ وہ خود کو طالبان سے محفوظ رکھ سکیں۔
ان کے مطابق اسی دوران انہوں نے پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لئے تگ و دو شروع کر دی جس میں انہیں تین ماہ لگ گئے۔ یوں 29 نومبر 2021 کی صبح تین بجے وہ اپنے خاندان سمیت ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر کابل سے پاک افغان سرحد کی جانب روانہ ہوئے اور بالآخر پاکستان پہنچ کر راولپنڈی کے علاقہ پیرودھائی میں کرائے کے گھر میں رہنے لگے۔
اگرچہ پاکستان نے انہیں ایک سال کا ویزہ دیا ہے لیکن مقامی قوانین کے مطابق ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر دو ماہ بعد افغانستان واپس جائیں اور وہاں سے دوبارہ پاکستان آئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "مجھے نہ صرف بار بار سفر کی کوفت اور اخراجات اٹھانا ہوں گے بلکہ اپنے ملک واپس جا کر اپنی موت کو بھی دعوت دینا ہو گی"۔
ان کی بیوی، 31 سالہ تمنا فاروقی، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی شراکت سے افغان بچیوں کی تعلیم و تربیت کیلئے شروع کئے گئے ایک منصوبے میں اداکارہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ سمجھتی ہیں ان کے کام کی نوعیت کی وجہ سے طالبان کے زیرِانتظام افغانستان میں ان کا آزادی اور سلامتی سے رہنا ناممکن ہے کیونکہ وہ اداکاری اور بچیوں کی تعلیم دونوں کے خلاف ہیں۔ اس لیے وہ بھی پاکستان چلی آئی ہیں تاکہ یہاں سے کسی ترقی یافتہ ملک میں جا سکیں۔
ان کے خاوند سمیت نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کے لیے موجود افغانوں کا پہلا مطالبہ ہے کہ پاکستان انہیں یہ ضمانت دے کہ انہیں اور ان کے گھر والوں کو واپس افغانستان نہیں بھیجا جائے گا۔ ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد کسی مغربی ملک میں بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔
ان مظاہرین کے ترجمان مصطفیٰ خیبر کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف اسلام آباد میں 14 سو کے قریب افغان خاندان موجود ہیں جو آٹھ ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل ہیں جبکہ پشاور، کوئٹہ، کراچی اور راولپنڈی میں بھی سینکڑوں ایسے افغان گھرانے موجود ہیں جو یورپ یا امریکہ جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
مہاجر یا مسافر؟
یونس قاری زادہ بھی نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاج میں اس امید پر شامل ہیں کہ جلد یا بدیر وہ کسی یورپی ملک میں منتقل ہو سکیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے شمالی صوبے سمنگان سے ہے جہاں وہ ایک مقامی یونیورسٹی میں ایم اے صحافت کر رہے تھے۔ ان کی عمر 24 سال ہے اور وہ پیدائشی طور پر چلنے سے معذور ہیں۔
طالبان نے ان کے صوبے پر 9 اگست 2022 کو قبضہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قبضے کے چند روز بعد جب وہ بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہوئے یونیورسٹی گئے تو اس کے مرکزی دروازے پر کھڑے ایک سولہ سترہ سالہ طالب نے خلافِ شرع داڑھی رکھنے پر انہیں تھپڑ دے مارے۔ ان کے بقول انہوں نے اسی لمحے فیصلہ کر لیا کہ وہ افغانستان میں نہیں رہیں گے بلکہ کہیں اور منتقل ہو جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ شروع میں انہوں نے کابل میں موجود پاکستانی سفارتخانے میں ویزہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی لیکن چار ماہ کے لاحاصل انتظار کے بعد انہوں نے ویزے کے بغیر ہی پاکستان میں داخل ہونے کی ٹھان لی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر شدید سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پانچ دن اور چھ راتیں گزارنے کے بعد وہ 28 دسمبر 2021 کو کسی نہ کسی طرح سرحد کے اِس پار آ ہی گئے۔
پاکستان آنے کے بعد وہ تین ماہ تک اسلام آباد میں مختلف جگہوں پر مقیم رہے لیکن پیسے ختم ہونے کے بعد "میں نے رات کو سونے کے لئے ایک مچھر دانی خریدی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کھلے آسمان تلے آ بیٹھا"۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یورپ منتقل ہونے میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اُن کی مدد نہیں کر رہا جس کے باعث "میں کئی ماہ خوار ہونے کے بعد اس احتجاجی دھرنے میں شامل ہونے پر مجبور ہو گیا ہوں"۔
دوسری طرف اگرچہ یو این ایچ سی آر نے گزشتہ سال اگست کے بعد پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لئے انہیں ایک خصوصی شناختی کارڈ جاری کر رکھا ہے لیکن احمد زکریا فاروقی کے بقول "یہ کسی کام کا نہیں ہے کیونکہ پولیس والے اسے بالکل نہیں مانتے اور ہمیں پاکستان میں غیرقانونی قیام کرنے کے الزام میں پکڑ لیتے ہیں"۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں "اکثر رشوت دے کر پولیس سے جان چھڑانا پڑتی ہے"۔
ایسا ہی ایک واقعہ 28 مئی 2022 کو پیش آیا جب چار افغان موسیقاروں کو پشاور پولیس نے تہکال کے علاقہ سے گرفتار کر لیا کیونکہ وہ بغیر اجازت پاکستان میں مقیم تھے۔ تاہم پشاور کی ایک عدالت نے ایک روز بعد ہی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی رہائی کا حکم دے دیا حالانکہ انہیں جس قانون کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اس میں ضمانت کی گنجائش موجود نہیں تھی۔
موسیقاروں کے وکیل طارق افغان کا کہنا ہے کہ "یہ غیر معمولی نوعیت کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ پاکستانی قانون کی خلاف ورزی کی سزا کے طور پر ان فنکاروں کو افغانستان واپس بھیجنا انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہوتا"۔
یہ بھی پڑھیں
'ان افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے'۔
افغان تارکینِ وطن کو درپیش اسی قسم کی مشکلات کی وجہ سے پچھلے مہینے کی 12 تاریخ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ پاکستان میں پھنسے ہوئے تمام افغانوں کو ٹرانزٹ ویزا جاری کیا جائے گا تاکہ کسی تیسرے ملک میں منتقل ہونے تک وہ آزادانہ طور پر یہاں رہ سکیں۔ تاہم پاکستانی حکومت انہیں 'مہاجر' یا 'ریفیوجی' کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ سینیٹ کی متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ہلال الرحمان اس صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ان لوگوں کو پاکستان میں مہاجرین کے طور پر ٹھہرانے کے حوالے سے ہم نے اقوامِ متحدہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا"۔
وطن بدری سے دربدری
مصطفیٰ خیبر کہتے ہیں کہ افغان تارکین وطن کے مظاہرے اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر واقع پاکستانی وزارتِ خارجہ کے دفتر کے سامنے شروع ہوئے تھے لیکن غیرملکی سفارت خانے قریب ہونے کی وجہ سے انہیں کہا گیا کہ وہ کہیں اور منتقل ہو جائیں۔ لہٰذا "ہم نے نیشنل پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاجی کیمپ لگا لیا"۔
اس احتجاج کے نتیجے میں یو این ایچ سی آر کے مقامی نمائندے بھی ان سے ملنے کے لیے آئے لیکن وہ الزام لگاتے ہیں کہ ان نمائندوں نے ان کی بات سننے کے بجائے انہیں تضحیک آمیز لہجے میں دھمکایا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں ورنہ انہیں افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا۔ ان کے بقول اسی دھمکی کے ردِعمل میں کچھ مظاہرین نے اپنے لباس پر 'ہمیں مار دو' تحریر کر لیا ہے۔
تادہم اسلام آباد میں مقیم یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ پاکستان میں رہنے والے افغانوں کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور ان کے حل کے لئے حکومت پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ تاہم 15 اگست 2021 کے بعد یہاں آنے والے افغانوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ "وہ ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے پورا کرنا یو این ایچ سی آر کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ ممالک خود طے کرتے ہیں کہ وہ کتنے افغانوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دیں گے"۔
ان کے مطابق ان کا ادارہ اِن افغانوں کے صرف انٹرویو کرتا ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ ان میں سے کون سے لوگوں کی زندگی کو دوسروں کی نسبتاً زیادہ خطرہ ہے تاکہ انہیں فوری طور پر کسی محفوظ ملک میں منتقل کیا جا سکے۔ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ "ایسے انٹرویو بسا اوقات تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا مفصل ہونا ہے"۔
دوسری طرف بیلجیئم کے شہر برسلز میں موجود یورپین کمیشن کے ایک اہلکار کہتے ہیں کہ خطرات میں گِھرے بے گھر افغانوں کو تحفظ فراہم کرنا ان کے ادارے کی اولین ترجیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر 2021 کو ہونے والے اِس کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک نے 2022 کے اختتام تک 37 ہزار افغانوں کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس اہل کار کا کہنا ہے کہ اس وعدے کے نتیجے میں اپریل 2022 تک تقریباً 28 ہزار افغان باشندوں کو یورپی ممالک میں منتقل کیا جا چکا ہے اور باقیوں کو منتقل کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 4 جولائی 2022