رحیم اللہ اور شفیع اللہ کراچی میں گتا، لوہا اور کاغذ خرید یا چن کر فروخت کرتے تھے۔ 26 ستمبر کی صبح دونوں کو کراچی کے ضلع ملیر کی پولیس نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہری قرار دے کر گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی۔
سعید رسول کا کہنا ہے کہ نادرا کا افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہونے کے باوجود میرے 23 سالہ کزن شفیع اللہ کو پولیس نے گرفتار کیا۔ 2021ء میں جاری ہونے والےاس کارڈ کے مطابق شفیع اللہ کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندوز سے ہے۔
ہاتھوں میں عدالتی کاغذات لیے سعید رسول بتاتے ہیں کہ شفیع اللہ اور رحیم اللہ کی ضمانت کے لیے ملیر کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں وکلا نے دو بار کوشش کی لیکن ان کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ اب (21 اکتوبر تک) ملیر جیل میں انہیں 25 دن ہو چکے ہیں۔
ملیر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کے باہر رحیم اللہ کے بھائی بشیر احمد نے کہا "وکیل کا کہنا ہے کہ اب سندھ ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست جمع کروائیں گے۔"
بشیر احمد نے بتایا کہ میرے بھائی کے پاس 2021ء میں جاری کردہ اے سی سی کارڈ تھا۔ کارڈ دکھانے پر پولیس والوں نے اسے پھاڑ کر پھینک دیا اور ایف آئی آر کاٹی۔
عدالت کے حکم پر ماں، باپ اور تمام بھائی بہنوں کی نادرا ریکارڈ سے فیملی ٹری منگوائی گئی۔ تقریباً 17 دنوں بعد نادرا اسلام آباد نے اسے عدالت کو مہیا کیا۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ بھائی رجسٹرڈ اور قانونی طریقے سے پاکستان میں مقیم ہے مگر عدالت نے ضمانت کی درخواست قبول نہیں کی۔
بشیر کے مطابق "کہا جا رہا ہے کہ نادرا کے جاری کردہ کارڈ کی مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو گئی ہے، کارڈ کی مدت بڑھانا نادرا اور حکومت کا کام ہے، ہم تو نہیں بڑھا سکتے۔"
انہوں نے بتایا کہ میں کراچی کے علاقے کورنگی میں پیدا ہوا اور ہم 40 برسوں سے پاکستان میں رہتے ہیں۔ ان کا بھائی تین ماہ ہوئے کوئٹہ سے کراچی آیا تھا۔ یہاں وہ روزانہ 12 سو سے 15 سو روپے کما لیتا تھا۔
"ہم کچرا چن کر اس میں سے گتا، کاغذ اور لوہا بیچتے ہیں۔ وکلا اور عدالتوں کا خرچہ کہاں سے لائیں؟ مزدوری کریں یا عدالتوں اور تھانوں کے چکر لگائیں؟"
30 سالہ وکیل منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں سٹی، ملیر اور جنوبی کی کورٹس اور سندھ ہائی کورٹ میں متعدد افغان پناہ گزینوں کے مقدمات مفت لڑ رہی ہیں۔ ان میں 10 سے 13 سال کی عمر کے تقریباً 50 بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی اکثریت کراچی کی سنٹرل جیل کے ریمانڈ ہوم جوئنل جیل میں قید ہے۔
ان کے مطابق "کراچی پولیس نے اب تک ایک ہزار سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو گرفتار کیا ہے۔ قید کیے جانے والے زیادہ تر کراچی کے سہراب گوٹھ میں قائم افغان کیمپ کے رہنے والے ہیں۔"
منیزہ کہتی ہیں کہ پولیس والے رشوت نہ دینے والے افغان پناہ گزینوں کے کارڈ پھاڑ بھی دیتے ہیں۔ پولیس حکومتی پالیسی کا کہہ کر سب کو گرفتار کر کے فارنر ایکٹ 1946ء کی دفعہ 14(2) کے تحت ایف آئی آر کاٹ رہی ہے۔ نچلی عدالتوں میں رجسٹرڈ اور نادرا کے تصدیق یافتہ افغان پناہ گزینوں کو ضمانتیں نہیں مل رہیں، ہمیں ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔
“افغان سٹیزن کارڈ کی تصدیق کے لیے نادرا اسلام آباد ریکارڈ جاتا ہے جس میں 15 سے 25 دن لگ جاتے ہیں اور ملزم قید ہی رہتا ہے۔"
انہوں مزید نے کہا کہ نادرا کی طرف سے دیے گئے جس نمبر پر ایس ایم ایس کرنے سے کارڈ کی تصدیق ہوتی ہے اس کی سروس چار اکتوبر سے 18 اکتوبر تک معطل رہی۔ سندھ پولیس نے افغان پناہ گزینوں کو اس دوران بھی گرفتار کیا۔
نادرا پاکستان کی ترجمان ردا قاضی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ایس ایم ایس سروس معطل نہیں رہی اور رجسٹریشن کارڈ میں توسیع حکومتی پالیسی سے مشروط ہے۔
وزارت برائے ریاستی اور سرحدی امور (سیفران) نے متعلقہ اداروں کو کہا ہے کہ رجسٹرڈ یا قانونی طور پر رہنے والے افغان مہاجرین یا پناہ گزینوں کو کسی شکل میں ہراساں نہ کیا جائے۔ وزارت کے 10 اکتوبر کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق اے سی سی اور پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ کے حامل افغان شہری پاکستان میں عارضی طور مقیم ہیں جن کی واپسی رضاکارانہ ہو گی۔
منیزہ کاکڑ کے مطابق "گرفتاری سے بڑی ہراسانی کیا ہو گی؟ سندھ پولیس نے قانونی اور غیر قانونی پناہ گزین کا فرق ختم کر دیا ہے۔"
سندھ پولیس سے ملنے والے ریکارڈ کے مطابق پولیس نے نو ستمبر سے تین اکتوبر 2023ء تک 782 افغان پناہ گزینوں کو کراچی میں گرفتار کیا ہے۔ ملیر سے 135، کورنگی سے 114، شرقی سے 204 افغان شہری گرفتار کیے گئے ہیں۔ ضلع غربی سے 58، وسطی سے 90، کیماڑی سے 126، سٹی سے 35 اور ضلع جنوبی سے 20 افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ سندھ حکومت کے سیکشن آفیسر عبدالرحیم قریشی کی جانب سے سندھ کے چھ ڈویژنوں کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، بینظیر آباد، سکھر اور لاڑکانہ کے کمشنروں کو 13 اکتوبر کو لکھے گئے محکمانہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ضلعی سطح پر موجود غیر ملکیوں کے یکم نومبر تک کامیاب انخلا کے لیے اپنے منصوبہ اور اخراجات سے آگاہ کریں۔
اس میں انہوں نے سندھ کے ہر ضلع میں موجود غیر ملکیوں کے اعداد و شمار بھی شامل کیے ہیں جنہیں 2023ء کی ڈیجیٹل آدم شماری سے لیا گیا ہے۔ محکمہ شماریات کے ان اعداد و شمار کے مطابق:
حیدرآباد ڈویژن میں کل ایک لاکھ 86 ہزار 74 غیر ملکی رہائش پذیر ہیں جن میں افغان ایک لاکھ 25 ہزار 6 سو 75 ہیں۔
کراچی ڈویژن میں ایک لاکھ 64 ہزار 9 سو 48 غیر ملکی رہائش پذیر ہیں جن میں افغان ایک لاکھ 18 ہزار 6 سو 38 ہیں۔
لاڑکانہ ڈویژن میں چار ہزار 58 غیر ملکی ہیں جن میں ایک ہزار 567 افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔
میرپور خاص ڈویژن میں کل غیر ملکی دو ہزار 438 ہیں جن میں 708 افغان پناہ گزین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بلوچستان میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی سے رجسٹرد افغان مہاجرین کے لیے مسائل کھڑے ہو گئے
شہید بینظیر آباد ڈویژن میں کل غیر ملکی چار ہزار 639 ہیں جن میں افغان پناہ گزین کی تعداد ایک ہزار دو ہے۔
سکھر ڈویژن میں غیر ملکیوں کی تعداد دو ہزار 879 ہے جن میں افغان پناہ گزین ایک ہزار 151 ہیں۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے اسلام آباد میں ہائی کمشنر کے ترجمان قیصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان دہائیوں سے پناہ گزینوں کا اچھا میزبان رہا ہے جس کو دنیا بھر میں مانا اور سراہا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی پناہ گزین کا انخلا یا واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیے زبردستی نہیں۔
انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس راجہ رفعت مختار اور سندھ پولیس کے ترجمان سہیل جوکھیو سے سندھ پولیس کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی گرفتاریوں اور مبینہ ہراسانی پر مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا اور انہیں سوالات لکھ کر بھیجے گئے مگر دو دن تک کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
تاریخ اشاعت 26 اکتوبر 2023