سیف اللہ *کا پورا جسم سفید پٹیوں میں لپٹا ہے جن میں صرف ایک آنکھ دکھائی دے رہی ہے۔ ایک لرزاں، خوفزدہ اور مضطرب آنکھ۔
سیف اللہ ملتان میں اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ ایک خشک گرم دن وہ اپنے پانچ بچوں سے ملنے کے لیے وہاڑی چوک کے قریب ایک خستہ حال گلی میں جا رہے تھے۔ انہیں امید تھی کہ وہ اپنے خاندان کو اپنی دوسری بیوی کو قبول کرنے پر راضی کر لیں گے جن سے شادی کے لیے وہ کئی سال سے کوشش کر رہے تھے۔
اچانک ان کا چہرہ اور جسم ایک بدبودار سیال میں نہا گیا۔ انہوں نے جو آخری آواز سنی وہ ان کی اپنی ہی چیخ و پکار تھی۔ سیف اللہ پر تیزاب پھینکا گیا تھا اور پھینکنے والی ان کی پہلی بیوی تھی۔
یہ واقعہ 29 اگست 2020 کو قریباً ساڑھے پانچ بجے ہوا۔
51 سالہ سیف اللہ نشتر ہسپتال کے برن یونٹ میں زیر علاج ہیں جو ملتان میں سب سے بڑا سرکاری ہسپتال سمجھا جاتا ہے۔ ایک بے کل آنکھ کے علاوہ ان کے پورے چہرے اور دھڑ پر آبلے پڑ گئے ہیں۔ ان پر ہونے والے اس حملے کے بارے میں کوئی بھی بات کی جائے تو اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ برن یونٹ کے باہر ان کی دوسری بیوی اور پہلی بیوی سے پیدا ہونے والی چوبیس سالہ بیٹی ان کی زندگی کے لیے دعا مانگ رہی ہیں۔
ان کی بیٹی نے سجاگ کو بتایا کہ 'ہمیں یقین نہیں آتا کہ ہماری ماں کا غصہ اس انتہا تک بھی پہنچ سکتا تھا۔ میرے باپ کو دیکھیں، وہ اس قدر جل چکا ہے کہ جب ہسپتال کا عملہ اس کی پٹیاں تبدیل کرتا ہے تو اس کی ہڈیاں بھی صاف نظر آتی ہیں'۔
تیزاب کے نئے شکار
سیف اللہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیزاب بہت سے ایسے لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار بن گیا ہے جو کسی پُرتشدد جرم کا ارتکاب کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اس واقعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ عرصہ میں تیزاب سے کیے جانے والے حملوں کی نوعیت اور شدت بڑی حد تک تبدیل ہو گئی ہے۔ پہلے ان حملوں کو خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے جرائم کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا مگر اب یہ ہتھیار مردوں اور بچوں کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔
طبی اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں۔ نشتر ہسپتال کے برن یونٹ میں اب تک زیرعلاج رہنے والے 115 متاثرین میں 41 خواتین اور 59 مرد تھے۔ ذیل میں 2020 میں ہونے والے ان تیزاب حملوں کا ذکر ہے نشانہ بنے جنہیں دیکھ کر یہی تصویر سامنے آتی ہے۔
15 جولائی کو وسطی پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین میں چند نوجوانوں نے جائیداد کے تنازع پر اپنے چچا پر تیزاب پھینک دیا۔
اسی دن ضلع رحیم یار خان کے علاقے صادق آباد میں ایک مدرسے کے استاد قاری عثمان نے اپنے چار شاگردوں پر تیزاب پھینکا جنہوں نے اس پر جنسی بدسلوکی کا الزام لگایا تھا۔ تیزاب حملے میں یہ بچے بری طرح متاثر ہوئے اور اب تک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
جون میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے گاؤں شاہ صدر دین میں پانچ افراد نے گھریلو جھگڑے پر اپنی بھابی پر تیزاب پر پھینک دیا۔ یہ خاتون تشویش ناک حالت میں ہسپتال داخل ہے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل ملک خالد محمود، جو سیشن جج بھی رہ چکے ہیں، انتقامی حملے کا ایک ایسا ہی واقعہ سناتے ہیں جس میں ایک شخص کو تیزاب سے جلا دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں:
''جہاں آرا بی بی نامی خاتون نے اپنے دوست ریاض سے شادی کے لیے عدالت کے ذریعے طلاق لی مگر بعد میں ریاض نے اس کے ساتھ شادی کرنے اور ملنے جلنے سے انکار کر دیا۔ جہاں آرا کو اس بات کا شدید رنج تھا۔ اس نے ریاض سے آخری مرتبہ ملنے کو کہا۔ اگلی صبح جب ریاض نہا رہا تھا تو جہاں آرا نے تیزاب سے بھری بالٹی اس کے جسم پر انڈیل دی۔"
اس سے ریاض کا پورا جسم جل گیا اور چند ہی گھنٹوں میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ بعد میں جہاں آرا نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور اسے قتلِ عمد کا ارتکاب کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔
اسی طرح جنگ زدہ علاقوں میں تیزاب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر 4 اپریل 2017 کو شمال مغربی شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے میں درجنوں لوگ فاسفورک ایسڈ کے حملے میں ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ ان میں سے ایک متاثرہ شخص نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ 'تیزاب کا نشانہ بننے کے بعد میں حواس کھو بیٹھا۔ میرے لیے سانس لینا بھی مشکل تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میرے پھیپھڑے ختم ہو رہے ہوں'۔
زندہ لاشیں
سیف اللہ کی پہلی بیوی نے ان پر تیزاب پھینکنے کے فوری بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیا مگر وہ اب بھی یہ سمجھتی ہیں کہ بے وفائی کرنے پر ان کے شوہر کا انجام موت سے بھی بدتر ہونا چاہیے تھا۔ تاہم اپنے دشمن کے لیے ایسی خواہش رکھنے میں وہ تنہا نہیں۔
25 ستمبر 2020 کو شیعہ مخالف کالعدم جماعت لشکر جھنگوی نے پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی کے واقعات پر آواز اٹھانے والے اساتذہ، صحافیوں اور شیعہ مذہبی رہنماؤں کو دھمکی دی جو کچھ یوں تھی: 'ایسے کافروں کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے ان میں بعض پر تیزاب سے حملے کیے جانے چاہئیں۔ ہم انہیں زندہ لاشیں بنا دیں گے'۔
پاکستان میں تیزاب حملوں کے سب سے زیادہ کیس ملتان میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہاں 2020 میں ایسے حملوں کا نشانہ بننے والی سات خواتین، تین مرد اور ایک بچہ بھی تیزاب سے جلنے کے بعد خود کو زندہ لاش ہی محسوس کرتے ہیں۔
ملتان کے وسط میں ایک کچی آبادی میں رہنے والی فرحانہ بھی تیزاب گردی کے متاثرین میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں: 'موت فوراً آ جاتی ہے اور اتنی اذیت ناک نہیں ہوتی۔ یہ زندگی تو موت سے کہیں بدتر ہے۔'
فرحانہ کو ان کے شوہر نے بیٹی کے لیے ایک رشتہ قبول نہ کرنے کی پاداش میں تیزاب حملے کا نشانہ بنایا۔ ایک دن وہ گلی میں جا رہی تھیں کہ ان کے شوہر نے ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ اس حملے میں فرحانہ کا پورا چہرہ جل گیا اور ہونٹ، ناک اور ایک آنکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ بہت سے آپریشن کروانے کے بعد ان کے چہرے کا کچھ حصہ پہلی حالت میں بحال ہو گیا ہے مگر وہ ایک آنکھ سے مکمل طور پر محروم ہو چکی ہیں۔
فرحانہ نے سجاگ کو بتایا: 'میں اس علاقے میں پچیس سال سے رہ رہی ہوں مگر اب بھی لوگ مجھے دیکھ کر نظریں پھیر لیتے ہیں، خواتین مجھے سڑک پر آتا دیکھ کر اپنے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور گلی میں کھیلتے بچے میرا مذاق اڑاتے ہیں'۔
تیزاب کو ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آتشیں اسلحہ مہنگا ہوتا ہے اور سرکاری ضابطوں کے باعث اسے خریدنا ایک مشکل کام ہے۔ غیرقانونی ہتھیار حاصل کرنا بھی ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے اور انہیں جرم میں استعمال کرنے کے نتیجے میں ایسے شواہد باقی رہ جاتے ہیں جو مقدمے کے دوران ملزم کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔
تیزاب باآسانی دستیاب ہے
تیزاب کو ناصرف خریدنا آسان ہے بلکہ اس کا استعمال بھی کوئی مشکل کام نہیں اور اس کے 'نتائج' بھی انتہائی مہلک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سلفیورک ایسڈ، ہائیڈرو کلورک ایسڈ، کالا تیزاب حتیٰ کہ گٹر کھولنے والا محلول بھی نا صرف ہر جگہ با آسانی دستیاب ہے بلکہ اس سے 'ہدف' کو شدید نقصان بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ تیزاب حملے کے مجرموں کو سزائیں دینے کے قانون موجود ہیں مگر تیزاب کی خرید و فروخت کو قواعد و ضوابط کے ماتحت لانے کے لیے اب تک کوئی ٹھوس قانون سازی نہیں ہوئی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور پالیسی ایڈوائزر گل حسن جو لاہور میں پائیدار ترقی پر کام کرنے والی ایک تنظیم چلاتے ہیں کہتے ہیں کہ تیزاب کی با آسانی دستیابی اس کے جرائم میں استعمال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ان کا کہنا ہے: 'بڑے بڑے سٹوروں سے لے کر گلی کی نکڑ پر بنی دکانوں تک ہر جگہ تیزاب با آسانی ملتا ہے۔ لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ یہ کس قدر خطرناک چیز ہے۔ '
جہاں آرا کے واقعے پر بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ خالد محمود نے بھی اس حقیقت کی تائید کی۔ وہ کہتے ہیں: 'جہاں آرا نے حملے کے لیے تیزاب کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ کسی ہتھیار کے بجائے تیزاب حاصل کرنا بہت آسان ہے'۔
سچ تو یہ ہے کاروں کی بیٹریوں میں استعمال ہونے والے انتہائی کاٹ دار تیزاب کی ایک بوتل لاہور میں دو موریہ پل کے قریب تیزاب مارکیٹ میں 50 روپے میں مل جاتی ہے۔ اس مارکیٹ میں داخل ہوں تو بہت سے تیزابوں سے نکلنے والی ایک شدید اور تیکھی بدبو ناک میں گھس جاتی ہے۔ یہاں یہ تیزاب پلاسٹک کے نیلے رنگ کے بڑے بڑے پیپوں میں بھر کر رکھے جاتے ہیں۔ اس جگہ تیزاب کو لانے، لے جانے یا ذخیرہ کرنے کے لیے کسی طرح کی احتیاطی تدابیر پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
یہ ایشیا میں تیزاب کی خرید و فروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ کہلاتی ہے۔ یہاں سینکڑوں مزدور اس خطرناک اور زہریلے سیال کو سنبھالتے ہیں۔ یہ مزدور ماسک، دستانوں یا کسی بھی طرح کے حفاظتی سامان کے بغیر کام کرتے ہیں۔ یہاں کا ماحول انسانی صحت کے لیے واضح طور پر مضر ہے۔
یہاں ہر طرح کے تیزاب آزادانہ طور پر بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
جنوبی پنجاب میں عورتوں کے خلاف تیزاب گردی: بے خدوخال چہروں اور بے حال زندگیوں کی داستان
سجاگ کی ٹیم نے اس مارکیٹ میں ایک دکاندار سے سلفیورک ایسڈ طلب کیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ تیزاب صرف صنعتی استعمال کے لیے ہے اسی لیے اس کے خریدنے والے کو اپنے شناختی کارڈ کی کاپی جمع کرانا ہو گی۔ تاہم فوراً ہی اس نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر کسی کو کم مقدار میں تیزاب درکار ہو تو وہ اس میں پانی ملا کر مہیا کر سکتا ہے اور اس کے لیے شناختی کارڈ کی بھی ضرورت نہیں۔
یہ پانی ملا تیزاب بھی کپڑے جلانے اور انسانی جسم کو گلانے کے لیے کافی ہے۔
اس مارکیٹ میں دوسری بہت سی اقسام کے تیزاب بھی ملتے ہیں۔ ان میں سب سے عام تیزاب وہ ہیں جو گٹر کھولنے کے کام آتے ہیں اور کاروں کی بیٹریوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ مناسب ضوابط کی عدم موجودگی میں انہیں کوئی بھی خرید سکتا ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں ایسے خطرناک کیمیائی مادوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے سرے سے ہی کوئی قانون موجود نہیں۔ پنجاب میں خطرناک مادوں سے متعلق 2018 میں بنائے گئے ضوابط میں تیزاب کی نقل و حمل اور اس کو ذخیرہ کرنے کے بارے میں سخت ہدایات درج ہیں۔ مثال کے طور پر ہر طرح کے تیزاب کے ڈرم یا گیلن وغیرہ پر اس کے بارے میں مکمل تفصیلات واضح طور پر لکھی ہونا ضروری ہیں اور انہیں ڈھکی ہوئی جگہ پر رکھا جانا لازم ہے۔
تاہم ان قوانین پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جیسا کہ گل حسن کہتے ہیں: 'اگرچہ کیمیائی مادے فروخت کرنے والے دکاندار سرکاری لائسنس کے بغیر یہ کام کرنے کے مجاز نہیں ہیں مگر ان پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ کسے یہ چیزیں بیچ سکتے ہیں اور کسے نہیں۔ اسی لیے ہر قسم کا تیزاب کھلے عام فروخت ہوتا ہے اور یہی لوگوں پر تیزاب سے کیے جانے والے بہت سے حملوں کا بنیادی سبب ہے۔'
دوسرے ممالک میں تیزابوں کو ایک خطرناک شے قرار دیتے ہوئے اور متشدد حملوں میں ان کے ممکنہ استعمال کو مدنظر رکھ کر واضح قانون سازی کی گئی ہے۔ جیسا کہ برطانیہ جہاں تیزاب حملوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں وہاں اسے قانونی طور محض ایک خطرناک مادہ نہیں بلکہ ایک مہلک ہتھیار سمجھا اور جانا جاتا ہے۔
٭ فرضی نام
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 6 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 17 فروری 2022