یوں تو کسی ضمنی انتخاب سے کوئی بڑا سیاسی نتیجہ اخذ کرنا دُور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے لیکن فی زمانہ سیاست میں'بیانیے' نے ٹھوس حقائق سے زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے اس لیے ہر انتخاب، ہر بیان اور ہر خبر میں پنہاں خفیف اشاروں میں مستقبل کی نوید ڈھونڈی جاتی ہے اور پھر اپنے اپنے میڈیا سیل کے ذریعے اس پر اپنی مرضی کی ایک تصوراتی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ اسی کو اب سیاسی عمل کہا جاتا ہے۔
سیاسی میدان میں بیانیے کی اہمیت کی تازہ ترین مثال حال ہی میں لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے-133 میں ہونے والا ضمنی انتخاب ہے۔
یہ حلقہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کی وفات کی وجہ سے خالی ہوا تھا جس کے باعث یہاں 5 دسمبر 2021 کو انتخاب کا انعقاد ہوا۔ مبصرین اسے پاکستان مسلم لیگ نواز کی "پکی" نشست گردانتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی صورتِ حال میں اس پارٹی کے لیے اسے دوبارہ جیتنا بہت اہم تھا تاکہ وہ اپنے اس بیانیے کو ثابت کر سکے کہ پنجاب بالعموم اور لاہور بالخصوص اب بھی اُس کا سیاسی گڑھ ہے اور یہ کہ ساڑھے تین سال حزبِ اختلاف میں رہنے کے باوجود ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس کی انتخابی حیثیت مسلمہ ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز نے 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے میں 90 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ گذشتہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد لگ بھگ 47 ہزار رہی ہے۔ یوں بظاہر اسے عام انتخابات کے مقابلے میں 43 ہزار ووٹ کم ملے ہیں۔ لیکن عام انتخابات میں اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 52 فی صد نے ووٹ ڈالے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں یہاں کے محض ساڑھے 18 فی صد ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان دو انتخابات کا براہِ راست موازنہ اتنا آسان نہیں۔
اگر ووٹر ٹرن آؤٹ میں اس واضح فرق کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو پاکستان مسلم لیگ نواز نے 2018 میں اس حلقے میں ڈالے گئے ہر ایک ہزار ووٹوں میں سے چار سو 65 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں اس کی امیدوار نے ڈالے جانے والے ہر ایک ہزار ووٹوں میں سے پانچ سو 72 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس لحاظ سے اس پارٹی نے حلقے میں ڈالے گئے کل ووٹوں میں اپنا حصہ 10.7 فی صد بڑھایا ہے جو اس کے بیانیے کی نہ صرف تصدیق کرتا ہے بلکہ اسے تقویت بھی دیتا ہے۔
لیکن بیانیے کی یہ جنگ یہیں ختم نہیں ہوتی۔
سہہ جہتی لڑائی
اس ضمنی انتخاب کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ گذشتہ دو انتخابات میں اپنے آپ کو پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی اصل حریف منوانے والی موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اس میں شامل ہی نہیں تھی کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کے نامزد امیدوار اور اس کی متبادل امیدوار دونوں کے کاغذاتِ نامزدگی تکنیکی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے تھے۔
اگر اس مسئلے سے صرفِ نظر بھی کر لیا جائے تو وفاق اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں جن کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کے مستقبل کے بارے میں ایک غیر یقینی کیفیت پائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ غیرجانب دار مبصرین میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ یہ جماعت نہ صرف سیاسی شعور سے عاری ہے بلکہ حکومت چلانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی۔
اس کا ایک ثبوت تو یہی دیا جاتا ہے کہ این اے-133 کے ضمنی انتخاب میں اس کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی ایک ایسی غلطی کے باعث نامنظور ہوئے جس کی توقع آپ کسی یونین کونسل کے امیدوار سے بھی نہیں رکھتے۔
پاکستان تحریک انصاف کی اس کمزوری سے پاکستان پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ وہ ضمنی انتخاب کو پنجاب میں اپنی سیاسی اور انتخابی واپسی کے لیے ایک روزن کے طور پر استعمال کر سکے۔
2018 میں اس کے امیدوار نے این اے-133 سے محض ساڑھے پانچ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جو تیسرے نمبر پر آنے والے تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار کے ووٹوں کا نصف بھی نہیں تھے۔ پنجاب کے دیگر حلقوں میں بھی اس کی کارکردگی زیادہ مختلف نہیں تھی جس کے نتیجے میں اس صوبے کی قومی اسمبلی کے نشستوں کے لیے ڈالے گئے کل ووٹوں کا صرف چھ فی صد اس کے حصے میں آیا تھا۔
درحقیقت 2013 کے انتخاب میں ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پنجاب میں اصل انتخابی مقابلہ اب پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان ہو گا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حیثیت پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ایک تماشائی کی سی رہے گی۔
لیکن یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1988 اور اس کے بعد ہونے والے دو انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں 39 فی صد کے قریب ووٹ حاصل کر چکی ہے۔ اس صوبے میں اس کی انتخابی سیاست کو پہلا بڑا دھچکا 1997 میں لگا جب یہاں اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح محض 22 فی صد رہ گئی۔ اگرچہ اس کے بعد ہونے والے دو انتخابات (2002 اور 2008) میں اس شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا لیکن یہ کبھی بھی ماضی کی سطح تک نہیں پہنچ سکی۔
مستقبل کی جھلک
ان حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ محض سندھ میں قومی اسمبلی کی اکثر سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے وہ مرکز میں کبھی بھی اپنی حکومت نہیں بنا سکتی کیونکہ قومی اسمبلی کی دو سو 72 عام نشستوں میں سے ایک سو 41 صوبہ پنجاب میں ہیں جبکہ صوبہ سندھ میں ان کی تعداد صرف 61 ہے۔ ان میں سے بھی 21 کراچی میں اور تین حیدرآباد میں ہیں جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کی جیت کا امکان کم ہی رہتا ہے۔
اس لیے این اے-133 کے ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مطمع نظر یہی تھا کہ اس میں اچھی کارکردگی دکھا کر کم از کم اس بیانیے کو رد کیا جائے کہ پنجاب میں اس کا کوئی سیاسی اور انتخابی مستقبل نہیں۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ پنجاب میں موجود ووٹروں اور اپنے سیاسی حریفوں کو بتا سکے کہ اس کا صوبے میں زوال وقتی ہے۔
ضمنی انتخاب کے نتائج ظاہر کر تے ہیں کہ یہ پارٹی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے کیونکہ 2018 کے عام انتخابات میں اس کے امیدوار نے این اے-133 میں ڈالے گئے ہر ایک ہزار ووٹوں میں سے صرف 29 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ 5 دسمبر 2021 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس کے اُسی امیدوار نے ڈالے گئے ہر ایک ہزار ووٹوں میں سے تین سو 95 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے پاکستان تحریک انصاف کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے انتخابی خلا کو خوش اسلوبی سے پورا کیا ہے اگرچہ یہ کارکردگی اسے کامیابی دلانے کے لیے ناکافی رہی ہے۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی اگلے عام انتخابات میں یہ کارکردگی دہرا پائے گی؟
یہ بھی پڑھیں
خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔
ایک ضمنی انتخاب کے نتیجے کی بنیاد پر آنے والے پورے انتخابات کی پیش بینی کرنا قریب قریب ناممکن ہے کیونکہ ابھی تک یہی طے نہیں کہ اگلی انتخابی صف بندی کیا ہو گی اور کون سی پارٹی کس حلقے سے اور کس کے خلاف نبردآزما ہو گی؟ اس ضمن میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا پنجاب کے ہر حلقے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے مدِمقابل سب سے طاقت ور امیدوار صرف پاکستان پیپلز پارٹی کا ہی ہو گا اور کیا پنجاب کی انتخابی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف بالکل غیر اہم ہو جائے گی؟
البتہ این اے-133 کی حد تک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس میں مسیحی ووٹروں کی بڑی تعداد میں موجودگی پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے اگلے عام انتخابات میں ایک مثبت پہلو ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کا ہر دسواں ووٹر مسیحی ہے جن کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ تاریخی طور پر اس پارٹی سے وابستہ ہیں۔
اگرچہ گذشتہ دو انتخابات میں یہ ووٹر پاکستان تحریک انصاف کی جانب راغب ہو گئے تھے لیکن ضمنی انتخابات کی مہم میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مسیحی آبادیوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور بظاہر وہاں سے اچھے ووٹ لیے (تاہم اس بارے میں حتمی رائے پولنگ سٹیشن کی سطح کے نتائج کا مفصل تجزیہ کر کے ہی قائم کی جا سکتی ہے جو ابھی ممکن نہیں)۔
لہٰذا مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ضمنی انتخاب نے فی الحال اس پارٹی کو اپنے اس بیانیے کو بڑھاوا دینے کا جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ پنجاب کے انتخابی میدان میں محض تماشائی کی حیثیت نہیں رکھتی۔
تاریخ اشاعت 8 دسمبر 2021