بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

postImg

سید زاہد جان

postImg

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

سید زاہد جان

پاکستان طویل عرصے سے توانائی کے سنگین بحران کا شکار چلا آ رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے بڑی تعداد میں پاور پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے جس میں کول پلانٹس، ونڈ ٹربائنز(پون چرخی)، سولر(شمسی توانائی)، بیگاس اور پن بجلی (ہائیڈل پاور) وغیرہ کے منصوبے شامل ہیں۔

ملک میں توانائی اور زرعی ضروریات پوری کرنے کے لیے دو بڑے آبی ذخائر یعنی منگلا اور تربیلا ڈیم 60ء اور 70 کی دہائی میں بنا لیے گئے تھے۔ تاہم بعدازاں بجلی کے لیے زیادہ تر زور کوئلے،تیل و گیس سے جلنے والے پاور پلانٹس پر رہا جو دنیا بھر میں ایندھن مہنگا ہونے کے سبب معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔

ماحولیاتی مسائل کے باعث اب دنیا بھر میں ونڈ، سولر جیسے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں بڑے ہائیڈل پاور ڈیموں کی تعمیر کا رحجان غالب نظر آتا ہے۔ 

صوبہ خیبرپختونخوا میں درجنوں ہائیڈل منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جن میں سے کئی چھوٹے پراجیکٹس کے ساتھ گومل زام ڈیم اور سکی کناری ہائیڈرو پاور مکمل ہو چکے ہیں۔ جبکہ دو بڑے منصوبوں مہمند اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر جاری ہے۔

ڈیمز کے منفی ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی اثرات کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے لوگ ان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض افراد تو سوال کرتے ہیں کہ کیا بڑے ہائیڈل پاور منصوبے 'قابل تجدید ذرائع' میں شامل ہیں بھی یا نہیں؟ 

تاہم بیشتر شہری ماحولیات کی بحث میں پڑے بغیر سستی توانائی کی دستیابی چاہتے ہیں۔

بڑے ڈیموں سے سستی بجلی حقیقت یا فسانہ؟ 

پاکستان میں فسانہ(myth) یہ ہے کہ بڑے ڈیموں سے بجلی سستی پڑتی ہے مگر تفصیلی جائزہ لینے سے حقائق کچھ اور نظر آتے  ہیں۔ 

ضلع دیر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ضیاء الحسن کہتے ہیں کہ حکومت توانائی کے بڑے بڑے پراجیکٹس شروع تو کر دیتی ہے مگر یہ سال ہا سال مکمل نہیں ہو پاتے۔

"زمین کے حصول، عدم ادائیگیوں پر اراضی مالکان کے احتجاج سے لے کر فنڈنگ اور ٹھیکوں تک بےجا وقت ضائع ہوتا ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں کی کٹائی اور مقامی آبادی کا ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے۔

ماہر ہائیڈرولوجی واٹر اینڈ ریسورسز ڈاکٹر حسن عباس طویل عرصے سے ہائیڈرولوجی پر کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہائیڈرو پاور بلاشبہ سولر اور ونڈ کی طرح توانائی کا قابل تجدید ذریعہ ہے۔ لیکن وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پن بجلی منصوبوں کے ساتھ بہت سارے مسائل، مشکلات و نقصانات جڑے ہیں۔

 "میگا منصوبے کی پلاننگ پر کئی برس لگتے ہیں۔ جب یہ منصوبہ شروع ہوتا ہے تو اخراجات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ دوران تعمیر اور آپریشنل ہونے کے مراحل میں مزید پیچیدگیاں سامنے آ جاتی ہیں۔"

 پیداواری صلاحیت بڑھانے کا منصوبہ(34-2024ء)

پاکستان نے بجلی کی پیداوار 2034ء تک بڑھا کر 56 گیکا واٹ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔

نیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی(این ٹی ڈی سی) کا تیار کردہ 'پیداواری صلاحیت کا توسیعی  منصوبہ(آئی جی سی ای پی) 34-2024ء' بتاتا ہے کہ ملک میں اس وقت بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت (انسٹالڈ کپیسیٹی) 43.7 گیکاواٹ(ہزار میگاواٹ) ہے۔
 پاور جنریشن کے لیے ملک میں سات کوئلے، تیل و گیس پر چلنے والے، سات نیوکلیئر، 14 چھوٹے(30 میگاواٹ سے کم صلاحیت والے)اور 22 بڑے ہائیڈرو، 12 سولر، 45 ونڈ اور 10 ویگاس پلانٹس موجود ہیں۔

سسٹین ایبل پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کہتا ہے کہ ملکی پیداواری صلاحیت (انسٹالڈ کیپیسٹی) میں فوصل فیول (کوئلہ، تیل یا گیس) سے بجلی کا حصہ 59.4 فیصد، ہائیڈل (پانی یا ڈیمز) کا 25.4 فیصد، نیوکلیئر پلانٹس کا 8.4 اور قابل تجدید ذرائع (ونڈ ، سولر، بیگاس) کا حصہ 6.8 فیصد ہے۔

(این ٹی ڈی سی) کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں اب تک بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 30 ہزار میگاواٹ سے کم رہی بلکہ گزشتہ سال تو 2022ء کی نسبت بھی کم ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود طلب مہنگے ایندھن کے باعث پوری نہیں ہو پا رہی۔

لیکن نئے منصوبے(آئی جی سی ای پی) میں مستقبل کی ممکنہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان 2034ء تک (بظاہر سستے ذرائع سے) اپنی بجلی کی پیداواری صلاحیت 43.7 گیکاواٹ سے 56 گیکا واٹ تک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔  

سرکاری تخمینے  ظاہر کرتے ہیں کہ ان اہداف کے حصول کے لیے 72 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی جن میں کپیسیٹی انسٹالیشن پر 62 سے 64 ارب ڈالر اور ٹرانسمشن نیٹ ورک کی توسیع پر8.7 ارب ڈالر الگ خرچ ہوں گے۔

قابل تجدید توانائی کو 60 فیصد تک لے جانے کے لیے پاکستان کو 2030ء تک مجموعی طور پر تقریباً 101 ارب ڈالر رقم چاہیے ہوگی۔

آئی جی سی ای پی 34-2024ء کے مجوزہ توانائی منصوبوں میں ساڑھے چار ہزار میگاواٹ کے دیا میر بھاشا ڈیم کی تقریباً 7.6 ارب ڈالر اور ایک ہزار 200 میگا واٹ کے چشمہ نیوکلیئر پاور-5 کی لگ بھگ 5.52 ارب ڈالر لاگت بھی شامل ہے۔
یعنی ان منصوبوں کی لاگت قابل تجدید ذرئع توانائی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

میگا ہائیڈرو منصوبے، فوائد بمقابلہ نقصانات

بڑےڈیموں کے حامی ماہرین، میگا ہائیڈرو پاور منصوبوں کے دس فوائد  گنواتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابتدائی مہنگا انفراسٹرکچر تیار ہونے کے بعد ان سے بجلی سستی پیدا ہوتی ہے۔ ان کو چلانے اور دیکھ بھال پر اخراجات کم آتے ہیں۔ یہ پلانٹس آلودگی سے پاک اور طویل العمر ہوتے ہیں۔

حالانکہ اس کے برعکس ہائڈرو پلانٹس کی مرمت و بحالی پر سالانہ کروڑوں اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں رینیوایبل انرجی کا انفراسٹرکچر کہیں سستا اور دیکھ بھال ومرمت کا خرچ نہ ہونے کے برابر ہے جن سے آلودگی تو ہوتی ہی صفر ہے۔

یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ بڑے ڈیمز میں پانی زیادہ ذخیرہ ہوتا ہے جس سے فلڈ کنٹرول کے ساتھ زیادہ توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہائیڈرو مشینری میں سادہ آلات اور لچک کے باعث غیریقینی، بریک ڈاؤن کے امکانات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔

ہائیڈرولوجیکل ماہرین یہ بھی کہتے ہیں پانی میں بجلی پیدا کرنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے جس سے ٹربائن جنریٹرز کو فوری چلاکر بجلی لائنز میں ڈالی جا سکتی ہے اور جب تک بہاؤ موجود رہے تب تک بجلی پیدا کرنا ممکن ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شمسی توانائی کے آلات پر سیلز ٹیکس کا نفاذ: 'ماحول دوست توانائی کا حصول بہت مہنگا ہو جائے گا'۔

فوائد یقیناً اپنی جگہ ان میگا منصوبوں کے نقصانات کی فہرست  زیادہ طویل ہے۔

ماہرین  کے مطابق ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی صلاحیت کا انحصار جگہ کے انتخاب پر ہوتا ہے۔ اگر مقام و ڈیزائن درست طریقے سے منتخب نہ کیا جائے تو پاور پلانٹ کے آپریشنل مرحلے کے دوران بہت زیادہ مضحکہ خیزی اور خرابیاں جنم لے سکتی ہیں۔(پاکستان میں نیلم جہلم پراجیکٹ  اسی تنقید کی زرد میں ہے)

تخمینوں سے دگنی لاگت کے باوجود کوئی ڈیم کبھی بروقت مکمل نہیں ہوا

ڈیمز بنانا  بہت مہنگا پڑتا ہے مگر بیشتر سیلاب پر قابو پانے یا آبپاشی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن میں آبی ذخیرے کے ساتھ تعمیرات کی لاگت بھی شامل ہو جاتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی  نے دنیا کے 65 ممالک میں 1934ء اور2007ء کے درمیان تعمیر ہونے والے 245 بڑے ہائیڈل پاور ڈیموں پر تحقیق کی تھی جس کی رپورٹ 2014ء میں سامنے آئی۔ اس تحقیق میں صرف ایسے ڈیموں کو شامل کیا گیا جو 15 میٹر (49 فٹ) سے اونچے تھے۔

 تحقیق کار بتاتے کہ منصوبہ ساز اور پالیسی ساز بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے درکار اخراجات اور مدت کا منظم طریقے سے غلط (کم) تخمینے لگاتے ہیں۔ ان منصوبوں پر لاگت کے تخمینوں سے اوسطاً 96 فیصد زیادہ رقم خرچ ہوئی اور ان کی تکمیل میں طے شدہ مدت سے 44 فیصد زیادہ عرصہ لگا۔"

ڈیموں اور ٹرانسمشن پر بھاری سرمایہ کاری، مہنگا سودا

ہائیڈل پاور میں سول ورکس اور برقی آلات پر بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ ٹرانسمشن لائنیں بچھانے پر بھی کثیر رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ آبادیوں، زرعی زمینوں اور جنگلات کے نقصانات الگ ہوتے ہیں۔ 

آکسفورڈ یونیورسٹی ماہرین کے بقول "اصل لاگت کو دیکھا جائے تو ہم نے بڑے ڈیموں کو بالکل بھی کفایت شعار(اکنامیکل) نہیں پایا بلکہ ترقی پذیر ملک مزید مقروض ہوئے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں صرف ایک تربیلا ڈیم  کی تعمیر سے 1968ء اور 1984ء کے درمیان ملکی بیرونی قرضوں میں 23 فیصد اضافہ ہوا۔"

پرائیڈ (پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویٹیبل ڈیویلپمنٹ)،آئی جی سی ای پی 34-2024ء پر اپنے تجزیے میں یہاں تک کہتا ہے کہ طلب میں کمی کے باعث ملک کو دیامر بھاشا اور چشمہ نیوکلیئر-5 جیسے مہنگے منصوبوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

"اگر ان دونوں میگا پراجیکٹس کو توسیعی منصوبے میں زبردستی شامل رکھا گیا تو دیامر بھاشا (تخمنہ لاگت 7.6 ارب ڈالر)اور چشمہ نیوکلیئر-5 (5.52 ارب ڈالر) پر غیر ضروری اخراجات ہوں گے۔ یہ منصوبے لوگوں پر بوجھ ہوں گے اور قابل تجدید توانائی کے ممکنہ حصے میں کمی کا باعث بنیں گے۔"

پرائیڈ کی رپورٹ میں تجویز  دی گئی ہے کہ 2027ء تک کوئی نیا میگا پراجیکٹ شروع نہ کیا جائے۔ اس کی بجائے کم لاگت والے چھوٹے منصوبوں پر توجہ کے ساتھ سولرائزیشن اور نیٹ میٹرنگ کو تیز کیا جائے جس سے اربوں ڈالر کی بچت ہو گی۔ 
مگر اب بھاشا ڈیم  کی تعمیر کے لیے سول ورکس کا کام شروع ہو چکا ہے۔

تربیلا ڈیم سے بے گھر 96 ہزار لوگوں کی دوبارہ آباد کاری میں نصف صدی لگ گئی 

تربیلا ڈیم بنا تو 96 ہزار لوگوں کو علاقہ بدر ہونا پڑا تھا۔ 260 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط یہ ہائیڈروپاور  منصوبہ 1976ء میں مکمل ہوا جہاں 1977ء میں بجلی کی پیداوار کا آغاز ہوا تھا۔

پاکستان انجنیئرنگ کانگریس  کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 1968ء میں اس آبی ذخیرے کی تعمیر شروع ہوئی تو اندازہ لگایا گیا کہ اس سے خیبرپختونخوا کے تین اضلاع ہری پور، مانسہرہ اور صوابی کے 100 دیہات(گاؤں) کے 88 ہزار لوگ بے گھر ہوں گے۔
 مگر بعدازاں متاثرین 20 فیصد زیادہ نکلے یعنی 120 دیہات کے 96 ہزار افراد بے گھر ہو گئے۔

متاثرین کی آبادی کاری (ری سیٹلمنٹ) کےلیے فیصلہ ہوا کہ جن لوگوں کی زمین چار کنال (0.2 ہیکٹر) سے کم ہے انہیں معاوضہ ملے گا اور جن کی زمین اس سے زیادہ ہے ان کو متبادل اراضی دی جائے گی۔

 یہ مسئلہ عشروں  تک حل نہ ہو سکا اور متاثرین کے احتجاج پر حکومت کو 1998ء میں 'تربیلا کمیشن 'بنانا پڑا۔ پھر بھی مسائل حل ہوتے نصف صدی لگ گئی۔

دیامر بھاشا ڈیم میں 31 گاؤں ڈوب، جائیں گے، 29 ہزار لوگ بے گھر ہوں گے

اب دیامر بھاشا ڈیم کے اثرات کا جائزہ لیں تو اس کی ماحولیاتی و سماجی اسیسمنٹ رپورٹ (2010ء) بتاتی ہے کہ یہ منصوبہ 128 مربع کلومیٹر(واپڈا کے مطابق 151 مربع کلومیٹر) علاقے پر محیط ہو گا جس میں 94 کلومیٹر قراقرم ہائی وے، بجلی کی کئی ٹرانسمشن لائنیں، رابطہ سڑکیں، سات سسپنشن پل اور ضلع دیامر کے 31 گاؤں ڈوب جائیں گے۔

سن 2008ء کے سروے کے مطابق تقریباً 29 ہزار لوگ بے گھر ہوں گے۔ مجموعی طور پر پراجیکٹ ایریا میں 64 ہزار لوگ (226 گاؤں) آباد ہیں جو بالواسطہ متا ثر ہو سکتے ہیں۔ 

واپڈا کا دعویٰ  ہے کہ چار ہزار 228 متاثرہ خاندانوں کی دوبارہ آباد کاری کے لیے اسی ضلعے کے علاقوں ٹھک داس، ہرپن داس اور کینو داس میں تین ماڈل ولیج بنائے جائیں گے جہاں ہر متاثرہ گھرانے کو ایک کنال کا رہائشی پلاٹ مفت دیا جائے گا۔ 
سرکاری سائٹ کے مطابق ہرپن داس ویلج کا کام شروع ہو چکا ہے۔ تاہم یہ بیل کب منڈھے چڑھتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

تہذیبی و ثقافتی تباہی، دیامر ڈیم کی جھیل پانچ ہزار 200 منقش پتھر اور چٹانیں کھا جائے گی 

ماہرین کہتے ہیں کہ ہائیڈرو پاور پلانٹس سے بعض اوقات ماحولیات، لوگوں اور سماجی سرگرمیاں پر ناقابل قبول اثرات ہو سکتے ہیں۔ ڈاؤن سٹریم میں پانی کا معیار اور مقدار تبدیل ہونے سے نباتات اور جنگلات پر واضح منفی اثرات پڑتے ہیں۔ 

بھاشا ڈیم کی ماحولیاتی و سماجی اسیسمنٹ رپورٹ کے مطابق زیر آب آنے والے علاقے میں پانچ ہزار 200 پتھروں اور چٹانوں پر 31 ہزار سے زائد کندہ نقش و نگار اور نوشتہ جات موجود ہیں جو کئی ہزار سال پرانے ہیں۔

ان آثار قدیمہ کا تعلق جنوبی اور وسطی ایشیا کے تہذیبی و ثقافتی ورثے بدھ مت اور ہندوازم ( برہمن ازم) سے جوڑا جا تا ہے اور یہ گلگت بلتستان کا قومی ثقافتی اثاثہ ہیں۔

اس ڈیم کی جھیل میں ناصرف منقش چٹانیں ڈوب جائیں گی بلکہ نقل مکانی کے باعث یہاں رہنے والی 'شین، یشکون اور کریم' کمیونیٹیز(برادریوں) کی قدیم ثقافتی روایات ساتھ ہی تباہ ہو جائیں گی۔

ماحولیاتی نقصان، دیامر سے کالا زیرہ اور ایفیڈرا جیسی جڑی بوٹیاں ناپید ہو جائیں گی 

دیامر ضلع، کچھ طبی جڑی بوٹیوں (میڈیسینل پلانٹس ) کے لیے مشہور ہے جہاں کالا زیرہ (مصالحے میں استعمال ہونے والا) بہت پیدا ہوتا ہے۔ اس علاقے میں ایک خاص قسم کی کھمبی (مشروم مقامی نام گھوچی ) ہوتی ہے جو دواؤں میں استعمال ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ: مالی بےضابطگیوں اور بدعنوانی کی 21 سالہ طویل داستان۔

ڈیم کے ایریا میں ایفیڈرا(ایفیڈرین کا منبع) اور آرٹیمیسیا (اس سے معدے کی تکالیف سمیت کئی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے) جیسے پودے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ جڑی بوٹیاں آج کل مقامی مارکیٹ میں لگ بھگ 10 ہزار روپے کلو بکتی ہیں۔
بھاشا ڈیم کی تعمیر سے یہ علاقہ ان جڑی بوٹیوں کے علاوہ کئی اقسام کی نباتات اور جنگلی حیات سے محروم ہو جائے گا۔

ڈاکٹر حسن تصدیق کرتے ہیں کہ ہائیڈرو پاورز سے ماحولیاتی نظام(ایکو سسٹم) پر بڑے پیمانے پر منفی اثرات کے خدشات درست ہیں۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے قدرتی بہاؤ میں تبدیلی مچھلیوں کی کئی اقسام کو ختم کر دیتی ہے۔
ایسے پراجیکٹس سے پانی کے درجہ حرارت میں اضافے اور سپل ویز پر پانی میں اضافی نائٹروجن داخل ہونے کی وجہ سے مچھلیوں و دیگر آبی حیات کی صحت اور آمدورفت متاثر ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ سے زیرزمین پانی کی سطح برقرار رہتی ہے جبکہ راستوں میں آبی ذخائر کی تعمیروتنصیب سے ایسا نہیں ہوتا۔ پانی میں سلٹیشن (گاد) کی شرح بدل جاتی ہے جس سے ڈاؤن سٹریم میں زمینوں کی زرخیزی کم ہو جاتی ہے جیسا کہ دریائے سندھ کے معاملے میں انڈس ڈیلٹا  کے ساتھ ہوا۔

بڑے آبی ذخائر کا جنون، کیا پانی کے مسائل کا یہی حل ہے؟

ڈیموں کے حامی دلائل دیتے ہیں کہ زراعت ، فوڈ سکیورٹی اور شہروں کو پورا سال پانی کی فراہمی کے لیے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر ضروری ہے۔تاہم امریکا کی مساچوسٹس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اور تحقیق کار عثمان فاروقی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ 
وہ 'دی ڈپلومیٹ' میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں ناقص واٹر منیجمنٹ کے باعث دریائی پانی کا ایک بڑا حصہ نہروں اور کھالوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔

"قانونی اور فارم کی سطح پر اصلاحات کے بغیر بھاشا جیسے ڈیمز ملکی مسائل حل نہیں کر سکتے جن کی وجہ سے سندھ بلوچستان (لوئر ریپیریئن) خشک سالی کا شکار ہیں۔ کنگز کالج لندن کے پروفیسر دانش مصطفیٰ کے بقول ڈیمز 'پنجابی جنون' ہے جن کا پانی گنے، چاول اور کپاس میں جا رہا ہے۔"

چین میں ڈیم ٹوٹنے سے تباہ کاریاں 

چین کے صوبہ ہیوان  میں بانقیاؤ ڈیم تقریباً 14 ماہ کی مدت میں 1952ء میں مکمل ہوا  جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 49 کروڑ 20 لاکھ مکعب میٹر تھی۔

 تاہم 1975ء میں یہ ڈیم سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں ہیومن رائٹس واچ  کے مطابق دو لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک (چینی حکومت نے 86 ہزار ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی) اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ 

یہ ہائیڈرولوجیکل پراجیکٹ کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔تازہ ترین ڈیم حادثہ 1993ء میں صوبہ شنگھائی میں پیش آیا جہاں 300 سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

ان سانحات کے بعد دنیا بھر میں بڑے ڈیموں کی مخالفت کی جانے لگی تھی لیکن یہاں اس جنون میں کمی نہیں آئی۔ کبھی کالاباغ، بھاشا تو کبھی بونجی ڈیم کا شور مچتا رہا۔ 

پروموٹر جھوٹے، ماہرین احمق؟

آکسفورڈ یونیورسٹی  کی تحقیق میں ان میگا منصوبوں کی بے پناہ لاگت اور مدت تکمیل کی طوالت کی دو وجوہات بتائی گئی ہیں۔

اول یہ کہ فیصلے کے وقت ماہرین اور عوام دونوں اخراجات اور فوائد کے بارے میں بہت زیادہ پرامید ہوتے ہیں۔ دوئم، فیصلہ ساز اور منصوبے کے پروموٹر عوام کو غلط بیانیوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔

 اس رپورٹ کے ایک شریک مصنف پروفیسر بینٹ فلائیبجرگ نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ڈیموں کی لاگت انتہائی غلط بتاتے والے ماہرین کو 'احمقوں اور جھوٹوں' کے گروپوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

"احمق وہ لاپروا رجائیت پسند ہیں جو حقائق اور غیر یقینی صورت حال کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور کامیابی کے انتہائی کم امکان کے باوجود خاندان کی چاندی کو جوئے میں لگا دیتے ہیں۔ جھوٹے، ذاتی فائدے کے لیے مالیاتی یا سیاسی سرمایہ کاری کے غیرمعمولی فوائد بتا کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ بڑے ڈیموں کے منظم و مسلسل خراب نتائج بتاتے ہیں کہ احمق اور جھوٹے ان منصوبوں پر مسلط رہے ہیں۔"

کیا چھوٹے ہائیڈرو پاور منصوبے بنانے چاہئیں؟  

ڈاکٹر حسن کا کہنا ہے کہ ہائیڈرو پاور کی پیداوار کا انحصار ہی پانی پر ہوتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد دریا میں پانی کم ہوجائے تو پلانٹ کی صلاحیت میں بھی کمی آ جاتی ہے۔

 تربیلہ اور منگلا بڑے کثیر المقاصد ڈیمز ہیں مگر سلٹ(گاد) کی وجہ سے ان میں پانی ذخیر کرنے کی گنجائش پہلے کی نسبت بہت کم ہو گئی ہے۔ چھوٹے ڈیموں میں اس طرح کے مسائل بہت زیادہ ہیں

 "اگر حکومت ملک میں توانائی کی کمی پوری کرنا چاہتی ہے تو اسے سولر اور ونڈ انرجی جیسے کم خرچ اور قابل تجدید ذرائع کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ ونڈ انرجی کے لیے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے بہترین ہیں۔ جبکہ سولز کے لیے پورا ملک ہی موزوں ہے۔

ضیاءالحسن کا کہنا ہے کہ سوات، بونیر، اپر دیر اور اپر ولوئر چترال و دیگر اضلاع میں حکومت اور نجی اداروں کےعلاوہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی چھوٹے پن بجلی گھر لگائے تھے۔ 

 "کچھ(چھوٹے ہائیڈل پاور) تواتر  سے سستی بجلی فراہم کر رہے ہیں لیکن بیشتر پانی کی کمی اور سیلابوں میں جنریٹرز بہہ جانے کے باعث بند ہو چکے ہیں۔ اب لوگ سولر پر منتقل ہورہے ہیں۔"

ضلع اپر دیر کی تحصیل کلکوٹ کے رہائشی حسیب اللہ بتاتے ہیں کہ بعض علاقوں میں اب بھی غیرسرکاری تنظیموں اور صوبائی حکومتی ادارے پیڈو کے تعاون سے چھوٹے ہائیڈرو پاور بن رہے ہیں۔ لیکن ان کو بنتے بنتے برسوں لگ جاتے ہیں۔ 
"جومکمل ہو گئے تو ہمارے لیے ان کی مرمت اور دیکھ بھال بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔"

شمسی توانائی۔ ایک نعمت 

جرمنی میں سال بھر کے دوران اوسطاً روزانہ لگ بھگ ساڑھے چار گھنٹے دھوپ(سن شائن آورز) نکلتی ہے۔ مگر عالمی ویب سائٹ ایمبر (EMBER) کے مطابق وہاں(جرمنی میں) قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار 59 فیصد تک پہنچ چکی جس میں ونڈ اور سولر کا حصہ 45 فیصد ہے۔
اس کے مقابلے پاکستان میں سال کے دوران اوسطاً روزانہ آٹھ گھنٹے دھوپ دستیاب ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہاں پچھلے مارچ تک بجلی کی مجموعی پیداوار میں سولر اور ونڈ کا حصہ صرف چھ سے سات فیصد تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پنجاب کے کسان اپنے ٹیوب ویل شمسی توانائی پر کیوں منتقل کر رہے ہیں؟

اپر دیر  ہی کی تحصیل براول کے رہائشی صاحبزادہ خان کہتے ہیں کہ ان کے علاقے 'جبہ بالا ' میں لوگ سرکاری بجلی کی فراہمی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

"تاہم اب ہم پہاڑوں پر بیٹھے لوگ خدا کے فضل اور غیرملکی ٹیکنالوجی کی بدولت شمسی توانائی سے اپنے گھروں کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں سرکار کی بجلی نہیں چاہیے، اگر ممکن ہو تو حکومت سولر پینلز اور متعلقہ سامان کی قیمت میں کمی کرے۔"

تاریخ اشاعت 2 مارچ 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.