معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

postImg

نعیم احمد

postImg

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

نعیم احمد

فیصل آباد میں جیو نیوز سے وابستہ سینئر صحافی حماد احمد نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ڈپٹی کمشنر کو 13 ستمبر 2023 کو ایک درخواست دی تھی جس میں عاشورہ محرم کے دوران سکیورٹی انتظامات کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور ان پر آنے والے اخراجات کی تفصیل مانگی گئی تھی۔

تاہم پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 میں دی گئی 14 دن کی مقررہ مدت میں انہیں یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں جس پر انہوں نے چار اکتوبر 2023 کو پنجاب انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کر دی۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں پوری امید تھی کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن مذکورہ قانون کے تحت دی گئی 60 دن کی مدت میں انہیں درکار معلومات کی فراہمی یقینی بنائے گا لیکن یہاں بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

"اس بارے میں پی آئی سی کے متعلقہ سٹاف سے بار بار رابطہ کرنے پر مجھے یکم جنوری 2024ء کو ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ایک صفحے کا خط بھجوا دیا گیا جس میں پوچھ گئی معلومات کی مکمل تفصیل درج نہیں تھی۔"

انہوں نے اس حوالے سے پی آئی سی میں دوبارہ اپیل فائل کی لیکن سات فروری 2024ء کو ان کا کیس انہیں معلومات کی فراہمی یا اطلاع دیئے بغیر ڈسپوز آف (ختم)  کر دیا گیا۔

حماد احمد بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں یہ پہلی آر ٹی آئی فائل کی تھی جس کا تجربہ اتنا مایوس کن رہا کہ سرکاری حکام سے معلومات کے حصول کے لیے شاید اب وہ دوبارہ کبھی اس قانون کا سہارا نہ لیں۔

"یہ قانون سرکاری محکموں میں شفافیت اور احتساب کا موثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر نہ سرکاری محکمے اس قانون پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی پنجاب انفارمیشن کمیشن اس حوالے سے سنجیدہ نظر آتا ہے۔"

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن "عوام" نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں ان چیلنجز کی نشاندہی کی ہے جن کا سامنا شہریوں کو سرکاری محکموں سے معلومات کے حصول میں کرنا پڑتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سرکاری محکموں کی طرف سے پبلک انفارمیشن آفیسرز مقرر نہ کرنے، ویب سائٹس کو اپ ڈیٹ نہ رکھنے، سرکاری حکام کی طرف سے معلومات کی فراہمی میں ہچکچاہٹ، پیچیدہ افسر شاہی کا نظام اور قانون سے متعلق کم علمی کے باعث معلومات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد میں شہریوں کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء کے تحت پنجاب انفارمیشن کمیشن کے قیام کا بنیادی مقصد شہریوں کو معلومات کی فراہمی میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا تھا لیکن اب یہ ادارہ بظاہر خود سرکاری افسران کی طرف سے شہریوں کو معلومات کی عدم فراہمی میں سہولت کار بن چکا ہے۔

لوک سجاگ کی جانب سے فیصل آباد میں میں پنجاب انفارمیشن کمیشن میں فائل کی گئی 35 اپیلیں بھی بغیر کوئی وجہ بتائے یا معلومات فراہم کیے بغیر ڈسپوز آف کی جا چکی ہیں۔

سجاگ  کی طرف سے پنجاب انفارمیشن کمیشن میں فائل کی گئی اس آر ٹی آئی کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران کتنی اپیلیں، اپیل کنندگان کو کوئی وجہ بتائے بغیر ڈسپوز آف کی گئی ہیں۔

شہریوں کو معلومات کی فراہمی میں عدم دلچسپی کا یہ سلسلہ صرف پنجاب انفارمیشن کمیشن تک محدود نہیں بلکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن سے متعلق بھی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔

کراچی کے نعیم صادق سٹیزن کمیشن فار ایکوالٹی اینڈ ہیومن رائٹس کے رکن اور معروف آر ٹی آئی ایکٹوسٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن ان کی 11 اپیلیں بغیر کوئی اطلاع دیئے ڈسپوز آف کر چکا ہے اور متعدد یاد دہانیوں کے باوجود انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔

انہوں نے اپیل کنندگان کو اطلاع دیئے بغیر ڈسپوز آف کی گئی اپیلوں کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو ایک درخواست بھی دی تھی لیکن اس پر بھی انہیں تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔

"میں نے انہیں تحریری طور پر آگاہ کیا کہ متعلقہ محکموں کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات نامکمل اور غیر تسلی بخش ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کیسز بند کر دیئے گئے۔"

ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن کمیشنز کی جانب سے بغیر بتائے کیسز ڈسپوز آف کرنے کا بنیادی مقصد سرکاری افسران کو خوش کرنا اور حل شدہ کیسز کی تعداد کو زیادہ ظاہر کرنا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ انفارمیشن کمیشن بہت اچھا کام کر رہے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔

"اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ انفارمیشن کمیشنز خود ایک پبلک باڈی ہیں جو قانون میں دی گئی مقررہ مدت میں شہریوں کو معلومات فراہم کرنے کی پابند ہیں لیکن آپ انہیں جب بھی کوئی آر ٹی آئی فائل کریں گے اس پر آپ کو جواب نہیں دیا جائے گا۔"

انہوں نے بتایا کہ انفارمیشن کمیشنز کے پاس کوئی کمیونکیشن سسٹم نہیں ہے، یہ شہریوں کی طرف سے فائل کی گئی اپیلیں گم کر دیتے ہیں اور ان کے پاس ریکارڈ محفوظ رکھنے کا کوئی قابل اعتماد نظام بھی موجود نہیں۔

"میں نے حال ہی میں ایک کیس میں یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کا عملہ ذاتی ای میل ایڈریس سے آفیشل خط وکتابت کیوں کرتا ہے، اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟"

انہوں نے بتایا کہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ کے انفارمیشن کمیشن بھی اپنے اپنے متعلقہ قانون کے مطابق مقررہ مدت میں اپیلوں کا فیصلہ نہیں کرتے اور ان کے پاس بھی اپیل کنندگان سے رابطے کا کوئی باضابطہ طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

"میں وزیر اعظم سے مطالبہ کروں گا کہ انفارمیشن کمیشنز کو بند کر دیا جائے کیونکہ ان پر آنے والے اخراجات ان کی طرف سے شہریوں کو فراہم کی جانے والی خدمات سے کہیں زیادہ ہیں۔"

پشاور سے تعلق رکھنے والے فرنٹیر پوسٹ کے رپورٹر انیس ٹکر بھی مختلف محکموں سے معلومات کی عدم فراہمی پر خیبر پختونخواہ انفارمیشن کمیشن میں دائر اپنی 11 سے زائد اپیلوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود نہ انہیں معلومات فراہم کی گئی ہیں اور نہ ہی ان کی اپیلوں پر کسی سرکاری افسر یا محکمے کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔

"اگر کوئی محکمہ معلومات فراہم کرتا بھی ہے تو سوال گندم اور جواب چنا والی بات ہوتی ہے لیکن انفارمیشن کمیشن نے اس پر کبھی کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔"

سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ کی طرف سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں خبیر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں مقیم شہریوں کی جانب سے فائل کی گئی 527 آر ٹی آئی درخواستوں کے جائزے سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ ان میں سے 122 درخواستوں پر معلومات فراہم کی گئیں جبکہ 405 درخواستوں پر کمیشنز میں اپیل کے باوجود معلومات نہیں مل سکیں۔

فریڈرک نومین فاونڈیشن پاکستان کے پروگرام منیجر و آر ٹی آئی ایکسپرٹ رضا علی شاہ کہتے ہیں  کہ عملی طور پر اس وقت وفاق سمیت تین صوبوں میں انفارمیشن کمیشن نامکمل ہیں جبکہ بلوچستان میں معلومات تک رسائی کا قانون ہونے کے باوجود تاحال انفارمیشن کمیشن موجود نہیں ہے۔

"پاکستان انفارمیشن کمیشن میں ایک انفارمیشن کمشنر کا عہدہ خالی ہے، پنجاب میں چیف انفارمیشن کمشنر کا عہدے پر کوئی نہیں، خیبر پختونخوا میں چیف انفارمیشن کمشنر اور ایک انفارمیشن کمشنر کی سیٹ خالی پڑی ہے جبکہ سندھ میں بھی صائمہ آغا کے رکن صوبائی اسمبلی بننے سے، ایک انفارمیشن کمشنر کا عہدہ خالی ہے جس پر ابھی تک تعیناتی نہیں ہوئی۔"

"پروایکٹو ڈس کلوزر پر زیادہ موثر طریقے سے عمل درآمد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو سرکاری محکموں سے متعلق زیادہ تر معلومات ان کی ویب سائٹس سے دستیاب ہوں۔"

پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء کے تحت متعلقہ محکمے کو سیکشن 10 (7) کے تحت 14 دن میں مطلوبہ معلومات کی فراہمی کا پابند بنایا گیا ہے۔

معلومات کی عدم فراہمی یا نامکمل معلومات کی فراہمی پر شہری صوبائی انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس پر کمیشن کو سیکشن 6 (2) کے تحت 30 سے 60 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

خیبر پختونخوا رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے  سیکشن 11 کے تحت اگر کوئی ادارہ کسی شہری کی درخواست پر دس سے بیس دنوں میں معلومات فراہم نہیں کرتا تو اس محکمے کے خلاف انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کی جا سکتی ہے۔

انفارمیشن کمیشن کو اس طرح کی شکایات پر سیکشن 23 (3) کے تحت 60 دنوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس میں متعلقہ ادارے سے معلومات لے کر شہری کو فراہم کرنا اور محکمے پر قانون کی مطابق جرمانہ عائد کرنا ہے۔

وفاق میں نافذ رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے سکیشن 14 میں سرکاری محکموں کو دس دنوں میں معلومات کی فراہمی کا پابند بنایا گیا ہے اور معلومات کی عدم فراہمی پر پاکستان انفارمیشن کمیشن کو 60 دن میں شکایت پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016ء کے تحت سرکاری محکموں کو درخواست گزار شہریوں کو معلومات کی فراہمی کے لیے 15 سے 25 دنوں کا وقت دیا گیا ہے۔ معلومات کی عدم فراہمی پر شہری کو مذکورہ قانون کے تحت مذکورہ محکمے کے سربراہ کو انٹرنل ریویو اور پھر 30 دن انتظار کے بعد سندھ انفارمیشن کمیشن میں اپیل فائل کرنا ہوتی ہے جس پر کمیشن کو 45 دن میں فیصلہ دینا لازم ہے۔

تاہم پاکستان میں رائج معلومات تک رسائی کے قوانین میں بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر کسی شہری کی درخواست پر کسی انفارمیشن کمیشن کی طرف سے متعلقہ محکمے کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی یا کارروائی سے درخواست گزار کی شکایت دور نہیں ہوتی تو ایسا کوئی فورم نہیں ہے جہاں انفارمیشن کمیشن کے خلاف اپیل کی جا سکے۔

اسلام آباد کے سینئر صحافی ندیم تنولی نے بتایا ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کے لیے تین بل زیر غور ہیں۔

یہ ترامیمی بل سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور، سینیٹر سجاد حسین طوری، سینیٹر ولید اقبال، سینیٹر محمد علی خان آصف، سینیٹر منظور احمد، سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی طرف سے جمع کروائے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ترامیمی بلز میں زیادہ تر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کن حالات میں کوئی محکمہ شہریوں کو معلومات کی فراہمی سے انکار کرنے کا مجاز ہو گا۔

"اگرچہ ان ترامیمی بلز میں ان ترامیم کا بنیادی مقصد معلومات تک رسائی کے قانون کو آسان بنانا بتایا گیا ہے لیکن عملی طور پر یہ ترامیم اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کی منظوری کی صورت میں شہریوں کو معلومات تک رسائی میں مزید پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنے بہت سے فیصلوں میں از خود بعض سرکاری محکموں کو یہ معلومات نہ فراہم کرنے کی ہدایت دے کر ایک طرح سے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گلگت بلتستان میں سرکاری محکموں کے افسر 'معلومات کے خزانے' پر نگران بن کر بیٹھ گئے

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز میں ایس ڈی جی 16.10.2 معلومات تک عوامی رسائی سے متعلق ہے جس میں پاکستان کا شمار کم ترین کارکردگی والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں شہریوں کو معلومات تک رسائی میں درپیش رکاوٹوں کی وجہ سے قانون پر عمل درآمد مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔

شہریوں کی اپیلیں بغیر وجہ بتائے ڈسپوز آف کرنے پر انفارمیشن کمیشنز کا موقف جاننے کے لیے لوک سجاگ نے وفاق کے علاوہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کے انفارمیشن کمیشنز کے پبلک انفارمیشن آفیسرز کے ذاتی موبائل نمبروں اور دفتر کے فون نمبروں پر متعدد مرتبہ رابطہ کیا لیکن کوئی عہدیدار موقف کے لیے دستیاب نہیں ہوا۔

تاہم سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ کے تحت 25 ستمبر کو ہونے والی نیشنل فورم آف انفارمیشن کمشنر کی چھٹی سالانہ میٹنگ میں شریک پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر شعیب احمد صدیقی، پنجاب انفارمیشن کمیشن کے انفارمیشن کمشنر شوکت علی، سندھ انفارمیشن کمیشن کے انفارمیشن کمشنر شاہد جتوئی اور خیبر پختوانخوا انفارمیشن کمیشن کی چیف انفارمیشن کمشنر فرح حامد نے لوک سجاگ کو  یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ شہریوں کو معلومات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام یقینی بنائیں گے اور شہریوں کو اطلاع دییے بغیر اپیل ڈسپوز آف کرنے کی شکایات کا جلد از جلد ازالہ کیا جائے گا۔

میٹنگ میں شریک صوبائی سیکرٹری انفارمیشن بلوچستان، عمران خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بلوچستان انفارمشین کمیشن کے قیام کے لیے چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنرز کی سلیکشن کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ جلد ہی صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد ان کی تعیناتی کر دی جائے گی۔

تاریخ اشاعت 28 ستمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.