شمال مشرقی خیبرپختونخوا کے تین اضلاع، اپرکوہستان، لوئرکوہستان اور کولئی پالس، میں 31 مارچ 2022 کو ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں صرف پانچ خواتین نے حصہ لیا اور وہ سب بلامقابلہ کامیاب ہو گئیں۔ ان میں سے دو خواتین اپرکوہستان، دو کولئی پالس اور ایک لوئرکوہستان سے کونسلر منتخب ہوئیں۔
تاہم ان تینوں اضلاع کی مقامی حکومتوں میں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی نشستوں کی کل تعداد ایک سو 62 ہے جن میں سے ایک سو 57 ابھی تک خالی ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ ان نشستوں پر عیدالفطر کے بعد ضمنی انتخاب ہوں گے لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے درکار خواتین امیدوار شاید ہی سامنے آئیں۔
ضلع اپرکوہستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہنا ہے کہ "اس علاقے میں اگر کوئی خاتون اپنے خاندان سے باہر کسی مرد سے بات بھی کر لے تو اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں"۔ اس تناظر میں درجنوں خواتین کا ایسے منتخب اداروں کا رکن بننا بہت مشکل نظر آتا ہے جہاں انہیں اجنبی مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔
ان اضلاع کی انتخابی تاریخ بھی یہی ظاہر کرتی ہے۔ 2001 اور 05-2004 میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں یہاں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی نشستوں پر کسی ایک امیدوار نے بھی کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔ (2015 میں کوہستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہو ہی نہیں سکے تھے کیونکہ اُس وقت پشاور ہائی کورٹ میں اسے تین ضلعوں میں تقسیم کرنے کا تنازعہ چل رہا تھا۔)
تاہم کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بار پانچ خواتین کا کونسلر منتخب ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ کوہستان کے لوگوں کی سوچ بالآخر تبدیل ہو رہی ہے۔ اپرکوہستان کی ولیج کونسل جیجال سے منتخب ہونے والی ایک خاتون کونسلر کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شاہ نذر نامی شخص کا کہنا ہے کہ "کوہستان اب بدل رہا ہے"۔ ان کے مطابق اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کے گاؤں سے ان کی رشتہ دار خاتون کے علاوہ دو اور خواتین بھی انتخابات میں حصہ لینا چاہتی تھیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے باہمی مشاورت سے صرف ایک امیدوار کو ہی انتخاب لڑنے کے لیے نامزد کیا۔
تمہارا ووٹ میری مرضی
اپرکوہستان، لوئرکوہستان اور کولئی پالس کے اضلاع ہزارہ ڈویژن کا حصہ ہیں۔ اس ڈویژن میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹا گرام اور تورغر کے اضلاع بھی شامل ہیں جن کی مقامی حکومتوں میں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی کل پانچ سو 33 نشستوں پر 31 مارچ 2022 کو مجموعی طور پر نو سو 86 امیدواروں نے انتخاب لڑا۔
ان اضلاع میں سے ایبٹ آباد میں خواتین امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ وہاں دو سو نو نشستوں پر چار سو 87 خواتین نے انتخاب میں حصہ لیا۔ دوسرے نمبر پر مانسہرہ تھا جہاں ایک سو 94 نشستوں کے لیے تین سو 91 خواتین امیدوار تھیں جبکہ تورغر میں 40 نشستوں پر صرف 25 خواتین نے انتخاب میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں وہاں متعدد نشستیں خالی رہ گئی ہیں۔
تاہم پورے ہزارہ ڈویژن میں تحصیل چیئرمین اور میئر کی 22 نشستوں پر انتخاب لڑنے والے دو سو12 امیدواروں میں ایک خاتون بھی شامل نہیں تھی۔ سیاسی اور انتخابی عمل میں مقامی خواتین کی عدم شمولیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اپرکوہستان، لوئرکوہستان اور کولئی پالس کے اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹروں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 76 ہزار آٹھ سو 92 ہے لیکن ان میں سے صرف 78 ہزار چھ سو 15 خواتین ہیں۔ یعنی ہر سو مقامی ووٹروں میں سے 56 مرد اور محض 44 عورتیں ہیں۔
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی رکن شکیلہ ربانی مقامی مردوں کو اس صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں کیونکہ "وہ سیاسی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کی حمایت نہیں کر تے"۔ ان کا کہنا ہے کہ اس "حمایت کی عدم موجودگی میں خواتین کے لیے انتخاب لڑنا تو کجا ووٹ ڈالنا بھی مشکل ہے"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو عورتیں ہمت کر کے کسی نہ کسی طرح سیاست میں آ جاتی ہیں انہیں ترقی کرنے کے لیے حوصلہ افزا ماحول نہیں ملتا۔ اپنی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ حالیہ انتخابات میں انہوں نے اپنی جماعت کو درخواست دی تھی کہ انہیں تحصیل چیئرمین کی نشست کے لیے امیدوار نامزد کیا جائےکیونکہ وہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں ضلع کونسل کی رکن منتخب ہو چکی ہیں۔ لیکن، ان کے مطابق، ان کے انتخابی تجربے کے باوجود انہیں نامزد نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں
خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔
مانسہرہ سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور سیاسی کارکن عنبرین سواتی بھی کہتی ہیں کہ ہزارہ ڈویژن میں بالعموم اور کوہستان میں بالخصوص خواتین کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے خاندان کے مرد سیاسی عمل میں ان کی شمولیت کو پسند نہیں کرتے۔ تاہم وہ سیاسی جماعتوں کی قائدین کو بھی اس صورتِ حال کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔
وہ 12 سال سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور اس کے خواتین ونگ سمیت مختلف شعبوں کی عہدیدار رہ چکی ہیں۔ اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مرد قائدین خواتین کو انتخابی امور میں محض ایک علامتی کردار کی ادائیگی تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018 کے انتخابات میں جب انہیں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 13 سے اپنا امیدوار نامزد کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی جماعت کو ان کی سیاسی اہلیت پر پورا بھروسہ تھا بلکہ، ان کے مطابق، ایسا صرف اس انتخابی شرط کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا جس کے تحت ہر جماعت کے امیدواروں میں کم از کم پانچ فیصد خواتین کی موجودگی ضروری ہے۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ان کی اپنی جماعت کے سینئر رہنما اعظم خان سواتی کی مبینہ مداخلت پر ان کی یہ نامزدگی بھی منسوخ کر دی گئی حالانکہ اس کی منظوری پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کی جماعت کے پارلیمانی بورڈ نے دی تھی۔
تاریخ اشاعت 5 اپریل 2022