گندم کی کٹائی کے دنوں میں ہر کسان کے چہرے پر خوشی ہوتی ہے۔ اس کے گھر سال بھر کا اناج آتا ہے۔ اضافی فصل کی فروخت سے لاگت اور گھر کے دیگر اخراجات پورے کرنے کی امید ہوتی ہے لیکن حاجی اللہ دتہ گورائیہ ان دنوں بہت پریشان ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال انہی دنوں ان کی فصل سرکاری قیمت سے بھی زیادہ پر فروخت ہو رہی تھی، تب 12 اپریل کو ہی سرکاری خریداری سینٹروں سے باردانے کا اجرا ہو چکا تھا اور فوری طور پر سرکاری خریداری بھی شروع کر لی گئی تھی۔
پچھلے سال فصل کے اچھے دام ملنے کی وجہ سے انھوں نے اپنے ایک بیٹے کو روزگار کے سلسلے میں دوبئی بھجوایا تھا۔ رواں سال ان کا خیال تھا کہ وہ گندم فروخت کرنے کے بعد بیٹی کی شادی کریں گے۔
لیکن بقول ان کے شاید رب کو یہ منظور نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے ملک میں وافر مقدار میں گندم موجود ہونے کے باوجود درآمد کی اور دوسرا اب جب کسانوں نے فصل کاٹ لی ہے تو اسے خرید نہیں رہی ہے۔
اللہ دتہ گوجرانوالہ کے قریب قصبہ تتلے عالی کے زمیندار ہیں اور کے پاس 25 ایکڑ زرعی زمین ہے۔
یہ حالات صرف اللہ دتہ کے ہی نہیں ہیں بلکہ تتلے عالی ، نوشہرہ ورکاں اور اردگرد کے دیہات میں سب کسانوں کے ہیں کیوں کہ ان میں سے بیشتر نے تو 20 اپریل کو ہی اپنی فصل کی کٹائی شروع کر لی تھی۔
باحیثیت زمینداروں نے تو کسی حد تک فصل سٹاک کرلی ہے لیکن چھوٹے کسانوں کے پاس گندم کو سٹاک کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لیے وہ اونے پونے مڈل مین کو فروخت کر رہے ہیں یا پھر اپنے کھیتوں میں رکھ کر اچھی قیمت ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
حاجی اللہ دتہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس فصل غلہ منڈی لے جا کر فروخت کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔
"کل منڈی گیا بھی تھا وہاں گندم 28 سو روپے سے 32 سو روپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے بیچی جا رہی تھی۔ ایک آڑھتی سے مول تول ہوا جس نے گندم تین ہزار روپے من خریدنے کی آفر لگائی، کھیت سے منڈی تک گندم پہنچانے کا خرچہ اسی آڑھتی کے ذمے تھا، میں نے مجبوری کے عالم میں اس کو ہاں کر دی، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی حل میرے پاس نہ تھا۔"
پنجاب حکومت نے پچھلے سال کی طرح رواں سال بھی گندم کی سرکاری قیمت 39 سو روپے ہی مقرر کی ہے لیکن اللہ دتہ کی گندم سرکاری ریٹ سے 900 روپے کم پر فروخت ہوئی۔
رواں سال پاکستان میں گندم کی مارکیٹ میں اتنی مندی کیوں ہے اس کی کئی ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ پنجاب حکومت کی طرف سے اس کی خریداری میں عدم دلچسپی ہے۔
حکومت گندم خریداری سے فرار کیوں چاہتی ہے
معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کے محکمہ خوراک کے پاس پچھلے سال کا تقریبا 23 لاکھ میٹرک ٹن کا سٹاک ابھی تک گوداموں میں پڑا ہوا ہے۔
پنجاب حکومت نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ رواں سال 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گی جس کے لیے باردانہ اپلیکیشن کو 13 سے 17 اپریل تک اوپن کیا جائے گا۔
باردانہ ایپ کے ذریعے ایک ایکڑ سے چھ ایکڑ تک کے کسان فی ایکڑ 100 کلو گرام کے چھ اور 50 کلو گرام کے 12 بیگ لینے کے لیے آن لائن اپلائی کر سکتے تھے۔
اس کے بعد حکومت نے 19 اپریل کو باردانہ جاری کرنے اور 22 اپریل سے گندم خریدنے کا اعلان کیا تھا لیکن مئی کے ابتدائی دنوں تک گوجرانوالہ سمیت پنجاب میں سرکاری سینٹرز پر خریداری کا آغاز نہیں ہو سکا۔
حالانکہ پچھلے سالوں میں پنجاب حکومت 15 اپریل سے گندم کی خریداری شروع کرتی رہی ہے۔
پنجاب میں گزشتہ سال یعنی 2023ء میں 42 لاکھ 73 ہزار میٹرک ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا تھا جو اس سے پچھلے سال یعنی 2022ء کے ہدف 38 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ تھا۔
تاہم پچھلے سال صوبائی حکومت نے ہدف کا 81 فیصد یعنی 36 لاکھ 36 ہزار میٹرک ٹن حاصل کرتے ہی گندم کی خریداری روک دی تھی۔
حال ہی میں جب پنجاب میں گندم خریداری مہم کے پلان کا باقاعدہ اعلان ہونے کے باوجود خریداری شروع نہیں کی گئی تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ نگران حکومت کے دور میں 35 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جا چکی ہے۔ چونکہ گوداموں میں پہلے سے وافر مقدار میں گندم موجود ہے اس لیے نئی گندم خریدنے میں حیل و حجت سے کام لیا جا رہا ہے۔
وفاقی یا صوبائی حکومت کی طرف سے اگرچہ درآمد کی گئی گندم کی تفصیلات اور پہلے سے گوداموں میں موجود گندم کے اعداد و شمار سے باضابطہ طور پر آگاہ تو نہیں کیا گیا تاہم محکمہ خوراک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب کے گوداموں میں اس وقت 22 سے 23 لاکھ میٹرک ٹن گندم پہلے سے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے رواں سال صرف 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ گزشتہ سال کے جاری کیے گئے ہدف سے 54 فیصد کم ہے۔
محکمہ خوراک کے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر عہدہ کے ایک آفیسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ نگران دور حکومت میں جو گندم امپورٹ کی گئی، اس کا محکمہ خوراک سے براہ راست کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
بیشتر مقدار پرائیویٹ سیکٹر نے درآمد کی کیونکہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت پاکستان سے کافی کم تھی۔
یہ درآمد شدہ گندم فلور ملوں والے 33 سو سے 35 سو روپے فی من میں خریدتے رہے جبکہ سرکاری ریٹ گزشتہ سال بھی 3900 روپے من تھا۔
"اوپن مارکیٹ میں سستی گندم وافر ہونے کی وجہ سے مل مالکان سرکاری گندم کی بجائے منڈیوں سے گندم خریدنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں جس وجہ سے محکمہ خوراک کے گوداموں میں نصف سے زیادہ گندم پڑی کی پڑی رہ گئی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اب پنجاب حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی حل نہیں تھا کہ وہ گندم کا ٹارگٹ کم کر دے یہی وجہ ہے اس سال 42 لاکھ میٹرک ٹن کی بجائے 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی جا رہی ہے۔
فوڈ کنٹرولر نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گوجرانوالہ ضلع میں محکمہ خوراک کے 155 گودام ہیں جہاں ایک لاکھ پانچ ہزار ٹن گندم رکھنے کی گنجائش ہے۔ اس وقت ان گوداموں میں 33 ہزار ٹن گندم موجود ہے۔ ضلع وزیر آباد میں محکمہ خوراک کے 45 گودام ہیں جہاں 14 ہزار ٹن گندم رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن یہاں سات ہزار 500 ٹن گندم پہلے سے موجود ہے۔
ایسی ہی صورتحال صوبے کے باقی اضلاع میں بھی درپیش ہے جہاں نصف گودام گندم سے بھرے ہوئے ہیں۔
"اگر پنجاب حکومت زیادہ گندم خرید لے گی تو اسے رکھے گی کہاں؟ گندم کو وافر مقدار میں ذخیرہ رکھنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔"
بارش اور تیز ہوائیں تیار فصل کے لیے نقصان دہ
حالیہ دنوں میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں بارش اور تیز ہوائیں و جھکڑ چلنے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس نے فصلوں کی کٹائی کو تیز کر دیا کیونکہ کاشتکار حکومت اور موسم دونوں سے ڈرا ہوا ہے۔
پنجابی کی مشہور کہاوت ہے کہ بیساکھ کے مہینے میں تو کسان سونے کی بارش کو بھی پسند نہیں کرتا، بیساکھ کا مہینہ 14 اپریل سے شروع ہو چکا ہے۔
بیساکھ میں بارش ہونے سے فصل گر جاتی ہے، اس کا رنگ گولڈن سے کالا پڑ جاتا ہے اور سٹہ مضبوط نہیں رہتا۔
پنجاب اسمبلی کے رکن اور ایوان زراعت پنجاب کے صدر چودھری ناصر چیمہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس دفعہ " بمپر کراپ " کا چرچا تو کیا جا رہا ہے لیکن کسانوں کو دوہری مصیبت جھیلنا پڑ رہی ہے جس کی کوئی بات نہیں کر رہا۔
ایک سرکاری خریداری میں تاخیر اور دوسرا بے موسمی بارشیں اور ژالہ باری۔
" حالیہ کٹائی کے دوران پنجاب کے مختلف اضلاع میں دو دفعہ ژالہ باری ہو چکی ہے، لیکن مجال ہے کسی حکومتی عہدیدار نے اس پر آواز اٹھائی ہو ، اسمبلیوں میں زمیندار ارکان اسمبلی بھی بیٹھے ہیں لیکن وہ چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتے ۔"
ناصر چیمہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں گندم کی کٹائی تقریباً مکمل ہوچکی ہے جبکہ وسطی پنجاب میں پچاس فیصد تک کٹائی ہو چکی ہے۔
اب کی بارشوں کا نقصان گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، حافظ آباد، شیخوپورہ، نارووال، وزیر آباد، منڈی بہائوالدین، قصور اور فیصل آباد کے اضلاع کو اٹھانا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں
سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور
"رواں سال پنجاب میں ایک کروڑ 74 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل اگائی گئی ہے جو گزشتہ سال سے 12 لاکھ ایکڑ زیادہ ہے۔ لیکن اگر حکومت کی گندم خریداری پالیسی یہی رہی اور کاشت کاروں کا یونہی استحصال کیا جاتا رہا تو پنجاب کا کسان آئندہ برس گندم کاشت نہیں کرے گا اور صوبائی حکومت کسانوں سے گندم خریدنے کے لیے منتیں کرتی نظر آئے گی۔"
چھ ایکڑ والے کاشتکاروں سے گندم خریدیں گے: محکمہ خوراک پنجاب
محکمہ خوراک پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سال خریداری ضرور ہو گی مگر گزشتہ سال سے آدھی گندم خریدی جائے گی۔
"جن کسانوں سے درخواستیں موصول ہوں گی ان سے گندم ضرور خریدیں گے، ساری گندم خریدنا ممکن نہیں، اس سے حکومت کو تین سے پانچ سو ارب روپے تک نقصان ہو گا۔ پالیسی کے مطابق صرف چھ ایکڑ والے کاشتکار حکومت کو 3900 روپے فی چالیس کلو گرام کے ریٹ سے گندم فروخت کر سکیں گے، چھ ایکڑ کے مالک کسان کو فی ایکڑ چھ بیگ کے حساب سے 36 تھیلے باردانے کے فراہم کیے جائیں گے۔"
محکمہ خوراک کے ترجمان نے بتایا کہ اضلاع کی سطح پر گندم کی خریداری کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں۔
"صوبہ بھر میں 393 گندم خریداری مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ گندم کی سرکاری قیمت کے علاوہ ہر کاشتکار کو 30 روپے فی 100 کلوگرام ڈلیوری چارجز ادا کیے جائیں گے۔"
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی ادارے پاسکو کو کسانوں سے گندم کی خریداری کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب روانگی سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے گندم کی فوری خریداری کا حکم جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کا گندم خریداری کا 1.4 ملین میٹرک ٹن کا ہدف بڑھا کر 1.8 ملین میٹرک ٹن کر دیا ہے۔
مگر کسان چار لاکھ میٹرک ٹن کی اضافی خرید کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے رہے ہیں۔
حاجی اللہ دتہ کہتے ہیں کہ ان کا اپنی بیٹی بیاہنے کا پروگرام ادھورا رہ گیا۔
" اب بیٹی کے سسرال والوں کو کیا بتاؤں گا کہ شادی ملتوی کرنے کی وجہ کیا ہے؟"
تاریخ اشاعت 4 مئی 2024