وسطی پنجاب کے بیشتر کاشتکاروں کی طرح قمر الزماں بھی پریشان ہیں کہ اس سال وہ گندم کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات کس طرح پورے کر پائیں گے؟
قمر الزماں وسطی پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے رہائشی ہیں جوکہ 22 ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں ، یہ زمین انہیں اپنے والد کی وراثت میں سے ملی تھی۔
قمر الزماں کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں سے ان کی 22 میں سے لگ بھگ 10 ایکڑ زمین پر کاشت گندم بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اسی میں سے ان کا منافع تھا جوکہ شاید اب انہیں حاصل نہ ہوسکے گا۔
"باقی بارہ ایکڑ رقبہ سے جو گندم حاصل ہوگی اس سے تو وہ لاگت بھی پوری نہ ہوسکے گی جوکہ گندم کی کاشت پر آئی تھی"۔
اس سے ملتی جلتی داستان صہیب احمد کی بھی ہے جوکہ قصبہ کوٹ لدھا کے رہائشی ہیں اور ان کی خواہش تھی کہ گندم کی فصل سے جو آمدن ہوگی اس سے وہ اپنی بہن کے ہاتھ پیلے کریں گے لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
صہیب احمد 30 ایکڑ رقبہ کے مالک ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ 20 مارچ سے پہلے موسم کی صورتحال کچھ اور تھی اور امید تھی کہ اس سال سِٹہ مضبوط ہوگا اور پیداوار بھی اچھی ہوگی۔
"جب بارشیں شروع ہوئیں تو پھر ہر گھر سے دعائیں مانگی جانے لگیں کہ یا اللہ اس بارش کو روک دے ، تمام کسان ، ان کی بیوی بچے اور دیگر اہل خانہ دن رات دعائیں مانگتے نظر آئے لیکن شاید یہ ان کی دعاؤں کی قبولیت کا وقت نہیں تھا"۔
صہیب کا کہنا ہے کہ مینہ برسا اور کھل کر بارشیں ہوئیں، یہ بارشیں کسانوں کی ساری جمع پونجی اور آس امیدیں بھی بہا کر لے گئیں۔
میلہ بیساکھی کی رونقیں پھیکی پڑ گئیں
وسطی پنجاب میں گندم کی کٹائی 14 اپریل کے بعد شروع کی جاتی ہے جب یکم بیساکھ ہوتی ہے اور یہاں مختلف دیہات میں بیساکھی کے میلے لگائے جاتے ہیں جس کے بعد کسان گندم کی کٹائی شروع کرتے ہیں۔
بیساکھی کے میلوں میں خواتین اور بچے بھی ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں۔ پکوان پکائے جاتے ہیں، لڑکیاں چوڑیاں اور دیگر جیولری خریدتی ہیں، جانوروں کی خریداری ہوتی ہے، غرضیکہ دیہی زندگی کے تمام رنگ بیساکھی کے میلوں میں نظر آتے ہیں۔
اس سال 20 مارچ سے چھ اپریل تک ہونے والی بے موسمی بارشوں کے باعث جہاں کسانوں کی خوشیاں ماند پڑ چکی ہیں وہیں پنجاب کے روایتی بیساکھی کے میلے بھی اس جوش و خروش سے نہیں لگ رہے جوکہ یہاں کی دیہی ثقافت کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔
"بے موسمی بارشوں سے 25 ارب کی گندم تباہ ہوچکی ہے"
صوبہ پنجاب کے محکمہ زراعت کے حکام کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل میں ہونے والی بے موسمی بارشوں سے گندم کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا اور صوبے کے مختلف اضلاع سے جو رپورٹس موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق گندم کی لگ بھگ 25 ارب روپے مالیت کی فصل تباہ ہوچکی ہے۔
حالیہ شدید بارشوں اور ژالہ باری کے باعث ہونے والے نقصانات گندم کی مجموعی فصل کے چھ فیصد سے زیادہ ہیں۔
بارشوں اور آندھی نے پچھلے چار ہفتوں کے دوران وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں ان اضلاع میں کھڑی فصلوں کا تقریباً 50 فیصد حصہ فصلیں زمین پر گرنے کا باعث بنا ہے۔
محکمہ زراعت کی سروے ٹیم میں شامل ایک آفیسر نے لوک سجاک کو بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق 16 لاکھ ایکڑ گندم کے رقبے میں سے 10 لاکھ ایکڑ رقبہ کو جزوی اور 35 ہزار ایکڑ رقبے کو خراب موسم کی وجہ سے مکمل نقصان پہنچا ہے۔
پنجاب میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے اضلاع ہیں جہاں فصلوں کے نقصانات کا تخمینہ لگ بھگ 45 فیصد لگایا گیا ہے۔
اس کے بعد منڈی بہاوالدین ، حافظ آباد ، مظفر گڑھ ، ساہیوال ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، اوکاڑہ ، بھکر ، پاکپتن اور گوجرانوالہ کے اضلاع میں دس فیصد سے زائد نقصانات رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمہ زراعت کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مجموعی پیداوار کا نقصان دو لاکھ 50 ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے جس کی مالیت 25 ارب روپے ہوگی یعنی تین ہرار 900 روپے فی 40 کلو گرام کی شرح سے۔
کسانوں کو زیادہ نقصان پہنچا، حکومت اعدادوشمار چھپا رہی ہے، ناصر چیمہ
ایوان زراعت پنجاب ، کسانوں کی بڑی تنظیم ہے جس کے ممبران کی بڑی تعداد کا تعلق وسطی پنجاب کے اضلاع سے ہے۔
ایوان زراعت پنجاب کے صدر اور سابق ایم پی اے چودھری ناصر چیمہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بارشوں سے کسانوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے جبکہ حکومتی اعداد و شمار کم نقصانات ظاہر کررہے ہیں۔
حالیہ شدید بارشوں اور ژالہ باری کے باعث ہونے والے نقصانات گندم کی مجموعی فصل کے چھ فیصد سے زیادہ ہیں
انہوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں ژالہ باری اور آندھی سے 70 فیصد فصل تباہ ہو گئی ہے اور فی ایکڑ پیداوار میں 15 من تک نقصان کا خدشہ ہے لیکن ان علاقوں میں صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ یا مجاز آفیسر ابھی تک نہیں پہنچا۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں گندم کی فصل کافی اچھی جا رہی تھی اور گزشتہ سال کے برعکس موسم سازگار تھا، جس سے اناج کی نشوونما میں مدد ملی۔
"مارچ کے اوائل میں ہلکی بارش نے ماحول سے پودوں کو نائٹروجن فراہم کرنے میں مدد دی، جس سے فاسفورس کھاد کم استعمال کرنا پڑی لیکن حالیہ بارشوں اور آندھیوں نے زمین کے وسیع حصے کو تباہ کر دیا ہے جس سے کاشتکار برادری کی اچھی فصل کاٹنے کی امیدوں پر پانی پھر گیا"۔
ناصر چیمہ نے کہا کہ اگر پودے زمین سے 30 ڈگری کے زاویے پر بھی زندہ رہیں تو پریشان ہونے کی بات نہیں لیکن اگر پودے گیلی زمین پر لیٹ جائیں تو وہ گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فصل کی کٹائی میں احتیاط نہ برتی گئی تو اس سے پیداوار میں مزید 10 فیصد نقصان ہوگا۔
ساڑھے سات لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ متاثر ہوا : ڈائریکٹر جنرل زراعت کی تصدیق
ڈائریکٹر جنرل زراعت پنجاب ڈاکٹر انجم علی نے تصدیق کی ہے کہ صوبے میں ساڑھے سات لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ حالیہ بارشوں سے متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ صوبے میں پہلے ہی ہدف سے پانچ لاکھ ایکڑ کم رقبہ پر گندم کاشت ہوئی، یعنی پنجاب میں ایک کروڑ 60 لاکھ ایکڑ رقبہ پر گندم کاشت کی گئی جبکہ ٹارگٹ ایک کروڑ 65 لاکھ تھا۔
"صوبائی محکمہ زراعت بے موسمی بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق پنجاب میں 20 مارچ سے چھ اپریل تک ہونے والی بارشوں کے باعث ساڑھے سات لاکھ ایکڑ رقبہ متاثر ہوا ہے جس میں دو لاکھ ٹن سے زیادہ فصل تو تباہ ہوچکی ہے۔ باقی فصل متاثر ہوئی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
گندم کی نئی فصل سندھ کو ایک نئے غذائی بحران کے دہانے پر لے آئی ہے؟ سات اہم باتیں
ڈائریکٹر جنرل زراعت نے کاشتکاروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی فصلوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں اور جب کٹائی کا وقت آئے تو احتیاط سے کٹائی کریں اور متاثرہ فصل کی کٹائی کے لیے ہارویسٹر کی بجائے درانتی کا استعمال کریں، کیونکہ ہارویسٹر سے گیلی یا کمزور گندم کا بچنا مشکل ہوگا جبکہ درانتی سے نقصان کا خدشہ نہیں۔
پاکستان کی 18 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ، نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کا اعتراف
وفاقی وزارت فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ پاکستان میں خوراک کی ترسیل کے لیے اقدامات بروئے کار لاتا ہے۔
اس ادارے کی ویب سائٹ پر جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں میں خوراک کی پیداوار میں نمایاں ترقی کی ہے۔ تاہم، آبادی میں اضافے، تیزی سے شہری کاری، کم قوت خرید، قیمتوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ، خوراک کی بے ترتیب پیداوار، اور خوراک کی تقسیم کے غیر موثر نظام کی وجہ سے غذائی تحفظ اب بھی ایک اہم چیلنج ہے۔
فوڈ سیکیورٹی اسسمنٹ سروے (FSA) 2016 کے مطابق پاکستان کی 18 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز (NIPS) کے مطابق غذائیت کے مسائل دیہی علاقوں 46 فیصد ہیں۔بعض علاقوں، جیسے سابق فاٹا میں 58 فیصد، گلگت بلتستان 51 فیصد اور بلوچستان میں52 فیصد افراد غذائی مسائل میں مبتلا ہیں۔
اسی طرح تقریباً نصف آبادی وٹامن اے اور آئرن کی غذائی ضرورت سے کم استعمال کر رہی ہے۔
پاکستان میں غذائی عدم تحفظ بنیادی طور پر غربت سے منسلک ہے۔ اس طبقے کے کمزور اقتصادی حالات انہیں دوسروں کی نسبت غیر محفوظ بناتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 14 اپریل 2023