میانوالی کی خٹک بیلٹ کے رہنے والے سیکڑوں لوگ ہر جمعے کے دن یونین کونسل چاپری کے ریڑھی چوک میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ علاقے میں نامکمل واٹر سپلائی سکیم پر جلد دوبارہ کام شروع کیا جائے تاکہ انہیں صاف پانی میسر آ سکے۔
اس احتجاج کی قیادت کرنے والے مولانا محمد امین اللہ کہتے ہیں کہ یہ علاقے کے لئے 'زندگی اور موت کا مسئلہ' ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر سے بھی ملاقات کی ہے جنہوں نے وعدہ کیا کہ فنڈ بحال ہوتے ہی ان کا مسئلہ حل کر دیا جائے گا لیکن علاقے کے لوگوں کو کئی خدشات لاحق ہیں چنانچہ اہل علاقہ نے دباؤ برقرار رکھنے کے لئے متواتر احتجاج کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔
خٹک بیلٹ میانوالی سے 65 کلومیٹر دور شمال کی جانب تحصیل عیسیٰ خیل میں پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں خٹک قوم آباد ہے، جن کی مادری زبان پشتو ہے، اس لیے اس علاقے کو خٹک بیلٹ کہا جاتا ہے۔
یہ علاقہ آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے جن میں 87 دیہات آتے ہیں۔اس علاقے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ چونکہ یہاں زیرزمین پانی کھارا ہونے کے باعث قابل استعمال نہیں ہے اس لئے لوگ بارش کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔
چاپری کی پچپن سالہ عالم خاتون روزانہ خچر پر قریباً 10کلومیٹر دور ایک تالاب سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ گرمی ہو یا سردی ان کا یہی معمول ہے۔ اس تالاب میں برساتی نالوں کا مٹیالا پانی جمع رہتا ہے اور اسی سے وہ اپنے گھرانے کی تمام ضروریات پوری کرتی ہیں۔
یونین کونسل ونجاری سے تعلق رکھنے والے اڑتالیس سالہ شاہ فرمان بھی ایسے ہی ایک تالاب سے پانی بھرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے باپ دادا کو اسی طرح خچروں پر پانی بھر کر لاتا دیکھتے رہے ہیں۔
خٹک بیلٹ میں بیشتر دیہات کے قریب تالاب ضرور ہوتا ہے جہاں بارشوں کا پانی ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پانی صاف نہیں ہوتا لیکن اس علاقے میں انسانوں اور حیوانوں کے لئے پانی کے حصول کا یہی واحد ذریعہ ہے۔
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ریسرچ آفیسر محمد فہیم بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں زیرزمین پانی 600 فٹ گہرائی پر ہے جو کڑوا ہے اور اسے پیا نہیں جا سکتا۔ علاقے میں لوگ بارش کا جو پانی استعمال کرتے ہیں وہ آلودہ ہوتا ہے جسے عالمی ادارہ صحت بھی ناقابل استعمال قرار دے چکا ہے۔
چاپری میں واقع بنیادی مرکز صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہاں آنے والے زیادہ تر مریض ہیضے، ٹائیفائیڈ اور یرقان میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان بیماریوں کا آلودہ پانی سے براہ راست تعلق ہے۔
2018ء میں حکومت نے چھ ارب روپے سے اس علاقے میں صاف پانی مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں خٹک بیلٹ کی آٹھوں یونین کونسلوں میں پانی کے پائپ بچھائے گئے جن کا 90 فیصد کام بروقت مکمل کر لیا گیا۔
دوسرے مرحلے میں گھر گھر پانی کی ڈسٹری بیوٹری لائن بچھائی جانا تھی جس پر جاری کام 2022ء میں بند ہو گیا جو تاحال شروع نہیں ہو سکا۔
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ایکسیئن شعیب ہاشمی کے مطابق پنجاب میں نگران حکومت آنے کے بعد اس منصوبے پر کام معطل کر دیا گیا اور اس کے لئے مختص باقی ماندہ فنڈ واپس لے لئے گئے۔ چونکہ محکمے کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لئے کام آگے نہیں بڑھ سکا۔
احتجاج کی قیادت کرنے والے امین اللہ بتاتے ہیں کہ سکیم میں پہلے تو ایسے متعدد علاقوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا جو اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہیں۔ جب لوگوں نے احتجاج کیا تو اس منصوبے کو تمام یونین کونسلوں تک پھیلا دیا گیا۔ پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد تجرباتی بنیادوں پر تین یونین کونسلوں میں پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ لیکن فنڈ واپس لئے جانے کے بعد خدشہ ہے کہ نئی حکومت کہیں یہ منصوبہ سرے سے ہی بند نہ کر دے۔
اس منصوبے کے تحت چاپری کے قریب ایک بند بھی تعمیر کیا گیا ہے جہاں پانی ذخیرہ کر کے گھر گھر پہنچایا جانا تھا۔ لیکن ہر سال ہونے والی بارشوں کے باعث مٹی بھر جانے اور صفائی نہ ہونے سے اس کی گنجائش بھی کم رہ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
اسی آلودہ پانی میں عمر بہتی جا رہی ہے: نارووال کے شہری آلودہ پانی کے استعمال سے ہسپتالوں کا رخ کرنے لگے
حکومت نے یہ بھی طے نہیں کیا کہ اس منصوبے کو کیسے چلایا جائے گا۔ عیسیٰ خیل میں پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایس ڈی او اشرف سہیل نے بتایا کہ ان کے محکمے نے منصوبے کی تکمیل کے بعد اسے چلانے کے لئے 'خٹک بیلٹ واٹر اتھارٹی' قائم کرنے کی تجویز دی تھی لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
خٹک بیلٹ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر عزیز اللہ خان بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں کسی کو پینےکا پانی دینا بہت بڑا احسان سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں پانی ایک نایاب چیز ہے۔ چاپری ڈیم کی تعمیر اور علاقے میں واٹر سپلائی سکیم شروع ہونے سے انہیں امید ہوئی تھی کہ اب علاقے کا یہ دہائیوں پرانا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اس منصوبے پر کام معطل ہونے سے وہ ایک مرتبہ پھر مایوسی کا شکار ہیں۔
تاریخ اشاعت 12 جون 2023