کوئٹہ کے علاقے ہنہ اوڑک میں ایک ایسی یونیورسٹی بنائی گئی ہے جس کی عمارت مٹی، گھاس پھوس اور ٹین کی چادروں سے بنی ہے۔ اس میں بجلی کی فراہمی کے لیے ونڈ ٹربائن اور شمسی توانائی سے کام لیا جاتا ہے۔ پانی کی ضرورت بارشوں سے پوری ہوتی ہے اور اس میں کمرے کسی مشینی مدد کے بغیر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔
یہ مکمل طور پر ماحول دوست ' کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونیورسٹی' ہے جسے ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات صفدر حسین نے مکمل کیا ہے۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا مگر ان کا رحجان تحفظ ماحول کی جانب تھا اور وہ پچھلی ڈیڑھ دہائی سے اسی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس طرح کی یونیورسٹی بنانے کا بنیادی مقصد دیہات اور شہر کے لوگوں کو ماحول دوست تعمیرات، توانائی اور پانی کے متبادل ذرائع کی طرف راغب کرنا ہے۔
"اس تصور کی تکمیل میں غیر سرکاری ادارے 'انسٹیٹوٹ فار ڈویلپمنٹ سٹڈیز اینڈ پریکٹس' (آئی ڈی ایس پی)نے تعاون کیا۔حکومت نے ایک سیاحتی مقام پر چار ایکڑ اراضی دی۔ مقامی لوگوں کی معلومات اور صلاحیتیں استعمال ہوئی اور تب یہ یونیورسٹی مکمل ہوئی۔"
وہ کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کاایک اور بڑا مقصد آئیڈیاز اور ٹیلنٹ کو بہتر پلیٹ فارم دینا ہے۔بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ زندگی میں کسی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔اگر کوئی کسی کے پاس کوئی نیا تصور لے کر آتا ہے تو اسے یہ سمجھ کر موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ نا تجربہ کار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً سات ہزار نوجوان اس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس میں طلبہ کو سکھایا جاتا ہے کہ پہلے خود کو تبدیل کریں اور اپنے اس تصور کو آگے بڑھائیں۔ ان کا کام کمیونیٹیز کے ساتھ ہے۔ یہاں پڑھنے والوں کو ڈگری نہیں دی جاتی بلکہ ان کی مالی اور انتظامی تربیت کی جاتی ہے۔
گزشتہ سال سیلاب میں صوبہ بلوچستان بھی بری طرح متاثر ہوا۔ یہاں تقریباً دو لاکھ سے زیادہ مکانات تباہ اور تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر ابراہیم خلجی نے بتاتے ہیں کہ سیلاب کی زیادہ تر تباہ کاریوں کی وجہ پانی کے قدرتی راستوں پر ہونے والی تعمیرات اور ماحول مخالف سرگرمیاں تھیں۔اسی طرح سیلاب کے بعد کوئٹہ سمیت کئی اضلاع ہفتوں گیس اور بجلی سے بھی محروم رہے۔
صفدر حسین سمجھتے ہیں کہ توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کم پڑ جاتی ہے۔ یونیورسٹی یہ ضروریات ونڈ ٹربائن اور سولر سے پوری کرتی ہے۔یہاں تقریباً آٹھ کلو میگا واٹ بجلی پیدا جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں چولہے مقامی طرز پر بنائے گئے ہیں ۔یہ کم لکڑی میں زیادہ حرارت دیتے ہیں۔ گوبر کے ذریعے گیس بھی پیدا کی جا رہی ہے۔یونیورسٹی میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا ہے۔ پرنالوں کا پانی بھی زیر زمین ٹینکوں میں جاتا ہےاور یہ آسانی سے یونیورسٹی کی ضرورت پوری کر رہا ہے۔
صفدر حسین نے بتایا کہ اسی قدرتی پانی کو وہ یونیورسٹی میں سبزیوں کی کاشت کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ یونیورسٹی میں 35 سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔ یہاں بھیڑ بکریاں مرغیاں بھی پالی گئی ہیں۔
ماڈل یونیورسٹی میں کمپیہوٹر لیب ،کلاس رومز ،ہال اور ایک لائبریری کے علاوہ گرلز ہاسٹل اور ایڈمن بلاک بھی بنایا گیا ہے۔ مگر یہ زیادہ کھلے کمرے نہیں ہیں۔
اس ماڈل کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں نو کلچر اور نو زبانیں ہیں۔یہاں بڑے بڑے کمرے بنائے جا سکتے تھے مگر انہوں نے اس کمیونٹی کے تعمیراتی ماڈل کو منتخب کیا جو یہاں کی فطرت یا 'مقامیت' کے قریب ہے۔
ماہر ماحولیات صفدر حسین نے بتایا کہ مختلف یونیورسٹیوں سے تعمیرات اور ماحولیات کے طالب علم اس ماحول دوست یونیورسٹی ماڈل کا دورہ کر رہے ہیں۔ سرکاری لوگ بھی یہاں آچکے ہیں اور بنیادی مراکز صحت اور سرکاری سکولوں کو اسی طرز پر بنانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی حکومتی ادارہ یا مقامی لوگ ماحول دوست ماڈل اپنانا چاہتے ہیں تو وہ اس سلسلے میں مکمل معاونت کو تیار ہیں۔وہ چاہتے ہیں بلوچستان میں تعمیرات مکمل ماحول دوست ہوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کامقابلہ کر سکیں۔
''کئی لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ جدید زمانے میں شیشے اور سیمنٹ کے گھروں میں رہنے والے کیسے مٹی گارے کے جھومپڑے میں رہیں گے۔ تو ہم انہیں بتاتے ہیں کہ مستقبل میں یہی تعمیرات موسمیاتی خطرات کا مقابلہ کریں گی۔''
یہ بھی پڑھیں
چکوال میں سیمنٹ فیکٹریوں کا قیام: قدرتی ماحول اور قدرتی وسائل شدید خطرے کی زد میں
بلوچستان کے سیکرٹری انفارمیشن حمزہ شفقات کہتے ہیں کہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونیورسٹی بہترین ماحول دوست ماڈل ہے۔ اسے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے اور نقصانات کو کم کرنے کےلئے بہت سے اقدامات اٹھا رہی ہے۔کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونیورسٹی جیسے ماڈلز کو نہ صرف دیہی بلکہ شہری علاقوں میں بھی متعارف کرایا جانا چاہیئے۔
فتح محمد ہنہ اوڑک کے نواحی گاؤں کلی عبدالوحد کاکڑ کے رہائشی ہیں ۔وہ کئی بار اس یونیورسٹی کا دورہ کر چکے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے طور پر بجلی پیدا کرنے، زارعت اور پانی کو محفوظ کرنے کی معلومات لے رہے ہیں۔ یہ اچھا طریقہ ہے جس سے زندگی آسان بنائی جا سکتی ہے اور مستقبل میں وہ خود بھی کسی نہ کسی صورت میں اس ماڈل کو آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 29 اگست 2023