کتابیں جمنیزیم میں ڈھیر اور عمارت پر تالا: کیا تربت پبلک لائبریری پر قبضہ ہو چکا ہے؟

postImg

اسد بلوچ

postImg

کتابیں جمنیزیم میں ڈھیر اور عمارت پر تالا: کیا تربت پبلک لائبریری پر قبضہ ہو چکا ہے؟

اسد بلوچ

بلوچستان کے ضلع کیچ میں واحد سرکاری لائبریری پچھلے تین سال سے بند پڑی ہے۔

یہ لائبریری شہر بھر کے طلبہ و طالبات کے لیے پڑھنے لکھنے سیکھنے اور امتحانات کی تیاری کے لیے علمی مواد کے حصول کا اہم ترین ذریعہ تھا جو ان سے چھن چکا ہے۔ لائبریری کھولنے کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کا پُرزور مطالبہ اب احتجاج کی شکل اختیار کر گیا ہے لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔

کوئٹہ کے بعد کیچ صوبہ بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ضلع ہے جہاں یہ لائبریری ضلع کے انتظامی مرکز تربت میں قائم ہے۔ بند ہونے سے پہلے روزانہ ڈیڑھ سے دو سو طلبہ اس لائبریری میں پڑھنے کے لیے آتے تھے۔

لائبریری کو پہلی مرتبہ فروری 2020 میں کووڈ وبا کے باعث بند کیا گیا تھا۔ طلبہ کے مطالبے پر ستمبر 2020 میں اسے کھولا گیا لیکن نومبر میں دوبارہ بند کر دیا گیا جس کی کوئی وجہ نہ بتائی گئی۔ ریکارڈ کے مطابق لائبریری بند ہونے سے ایک سال پہلے یہاں پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری کرنے والے آٹھ نوجوانوں نے انگریزی کے لیکچرار کی نوکری کے لیے ہونے والے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔

مقامی لوگ تربت یونیورسٹی میں توسیع کو اس لائبریری کے بند ہونے کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں۔ طالب علم اور سماجی کارکن عزیر حاصل بتاتے ہیں کہ 2017 میں جب تربت یونیورسٹی میں شعبہ قانون کا آغاز ہوا تو اس کا افتتاح پبلک لائبریری میں کیا گیا جس کے بعد اس شعبے کو یونیورسٹی کے بجائے لائبریری کی عمارت میں ہی قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

عزیز کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ پبلک لائبریری جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کی تربت برانچ کے قریب واقع ہے اس لیے لائبریری پر طلبہ اور اساتذہ کی سہولت کو ترجیح دی گئی تاہم اس کے باوجود یہاں 2020 کے آغاز تک لائبریری کا وجود قائم رہا۔

<p>لائبریری بند ہونے سے پہلے روزانہ ڈیڑھ سے دو سو طلبہ اس میں پڑھنے کے لیے آتے تھے</p>

لائبریری بند ہونے سے پہلے روزانہ ڈیڑھ سے دو سو طلبہ اس میں پڑھنے کے لیے آتے تھے

اس سے قبل 2017 میں اس لائبریری کے دفاتر کو کلاس روم بنا کر یہاں تربت یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کی کلاسیں شروع کی گئی تھیں۔ تاہم جب یونیورسٹی کی نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی تو شعبہ کیمسٹری کو واپس یونیورسٹی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

یکم جنوری 2021 کو تربت یونیورسٹی نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لائبریری کو بند کر کے اس کا فرنیچر باہر نکال کر کتابیں جمنیزیم  میں رکھ دیں۔ یہ کتابیں ابھی تک وہیں پڑی ہیں جن میں بہت سی خراب بھی ہو گئی ہیں۔

لوک سجاگ نے لائبریری پر تربت یونیورسٹی کی ملکیت یا اس پر 'قبضے' کی قانونی حیثیت جاننے کے لیے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر انفارمیشن سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس مسئلے پر رجسٹرار سے بات کرنے کو کہا۔ جب رجسٹرار سے رابطہ کرکے معلومات لینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ وائس چانسلر کی رائے لینے کے بعد ہی اس پر بات کریں گے اور بتایا کہ وی سی اس وقت ملک سے باہر ہیں۔

ماہ گنج (فرضی نام) اس لائبریری میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ لائبریری کی عمارت پر 'قبضے' کی بنیاد اسی وقت ڈال دی گئی تھی جب بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج نے لائبریری میں شعبہ قانون کا افتتاح کیا تھا اور اس وقت کے صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی بھی ان کےسا تھ تھے۔

<p>لائبریری بند کر کے کتابیں جمنیزیم میں پھینک دی گئی ہیں<br></p>

لائبریری بند کر کے کتابیں جمنیزیم میں پھینک دی گئی ہیں

ماہ گنج کہتی ہیں کہ جب لائبریری میں شعبہ قانون کا آغاز ہوا تو یہاں پڑھنے کے لیے آںے والے طلبہ پر سختیاں ہونے لگیں۔ لائبریری میں آنے والوں کو ایک شناختی کارڈ جاری کیا گیا جس کے بغیر کسی کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی طالب علم اپنے پاس کارڈ رکھنا بھول جاتا تو اسے لائبریری کی عمارت میں داخل ہونے نہیں دیا جاتا تھا خواہ وہ کتنی ہی دور سے کیوں نہ آیا ہو۔ اس کے بعد کئی اقدامات کے ذریعے لائبریری پر 'قبضہ' مستحکم کرنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔

دسمبر 2022 میں ضلع کیچ کے ڈپٹی کمشنر نے کہا تھا کہ لائبریری کی عمارت رنگ و روغن اور تعمیر و مرمت کے لیے بند کی گئی ہے جسے ایک ہفتے میں کھول دیا جائے گا۔ لیکن دس ہفتے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود یہ وعدہ پورا نہیں ہوا اور انتظامیہ یہ بھی نہیں بتاتی کہ لائبریری کو کب کھولا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تربت میں عطا شاد لٹریری فیسٹیول عام ادبی میلوں سے کیسے مختلف تھا

کووڈ وبا کے بعد لائبریری کو بند کرنے کی وجہ اس کی چھت پر آنے والی دراڑ بتائی گئی۔ ضلع کیچ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عقیل کریم کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے لائبریری کی تزئین و آرائش مکمل کر لی ہے اور اب اس کے لیے فرنیچر خریدا جانا باقی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لائبریری کو طلبہ کے تحفظ کے لیے بند کیا گیا تھا جسے خواہ مخواہ منفی رنگ دے دیا گیا ہے۔

طلبہ و طالبات لائبریری کھولنے کا متواتر مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں جس میں اب شدت آ گئی ہے۔ طلبہ تنظیم بی ایس او پجار لائبریری بند کیے جانے کے خلاف کئی مرتبہ احتجاج بھی کر چکی ہے۔ ماہر تعلیم شاری بلوچ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کو یونیورسٹی کی عمارت میں ہی ہونا چاہیے اور لائبریری میں طلبہ کو بلاروک و ٹوک رسائی ملنی چاہیے تاکہ وہ مقصد پورا ہو سکے جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا۔

تاریخ اشاعت 20 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسد بلوچ کا تعلق تربت ضلع کیچ سے ہے۔ بلوچستان خصوصاً مکران کے سیاسی حالات اور موجودہ بلوچ شورش پر لوکل اخبارات اور ملکی سطح کے مختلف ویب سائٹس پر تبصرے اور تجزیہ لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.