محمد اعظم نے مِنت سماجت سے سگریٹ بنانے والی ایک کمپنی کو اپنی تمباکو کی فصل خریدنے پر تو آمادہ کر لیا لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ اس کے پیسے انہیں اگلے سال 11 اپریل کو ملیں گے تو انہوں نے سودا کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے وسطی ضلع صوابی سے ہے اور وہ تمباکو اگانے والے کسانوں کی ایک تنظیم، کاشت کار کوآرڈی نیشن کونسل، کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رقم کی ادائیگی میں اس قدر طویل تاخیر حکومت کے نافذ کردہ ٹوبیکو مارکیٹنگ کنٹرول رولز کی خلاف ورزی ہے جن کے تحت سگریٹ بنانے والی کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ تمباکو خریدنے کے ایک ماہ کے اندر کاشت کاروں کو اس کی قیمت ادا کریں۔
صوابی ہی کے علاقہ شیوا سے تعلق رکھنے والے 67 سالہ کسان محمد اقبال اس صورتِ حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہم سے تمباکو خریدتے وقت کمپنیاں ایک ظالم قصاب کی طرح ناپ تول کرتی ہیں لیکن رقم کی ادائیگی کے لئے وہ ہمیں قیامت کی تاریخ دے دیتی ہیں‘‘۔
تاہم محمد اعظم کا کہنا ہے کہ ادائیگیوں میں تاخیر سے بھی اہم مسئلہ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے ستمبر کے وسط میں تمباکو کی خریداری کی بندش تھی حالانکہ اس وقت ان کے ضلعے کے کسانوں کے پاس کئی لاکھ کلو گرام تمباکو فروخت کے لیے پڑا ہوا تھا۔
مقامی کاشت کاروں نے اس مسئلے کے حل کے لئے ستمبر کے آخری دو ہفتے خوب احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کمپنیاں صوابی میں پیدا شدہ تمام تمباکو خرید نہیں لیں گی۔ یہ مطالبہ منوانے کے لئے 27 ستمبر 2021 کو انہوں نے ایک بڑے جلوس کی شکل میں پورے ضلعے کاچکر لگایا اور آخر میں پشاور-اسلام آباد موٹروے کو تین گھنٹے کے لئے ہر طرح کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا۔
اس احتجاج سے ایک ہفتہ پہلے مقامی کاشتکاروں نے یار حسین نامی علاقے میں جگ ناتھ کے مقام پر سگریٹ بنانے والے ایک بڑے ادارے، پاکستان ٹوبیکو کمپنی، کے تمباکو خریداری سنٹر کے باہر ایک جلسہِ عام بھی منعقد کیا جس کے بعد انہوں نے وہیں پر ایک احتجاجی دھرنا شروع کیا جو کئی دن تک جاری رہا۔
مسائل کی جڑ: خریداری کے معاہدے
پاکستان میں سگریٹ میں استعمال ہونے والے تمباکو، فلو کیورڈ ورجینیا (Flue Cured Virginia) یا ایف سی وی، کا 98 فیصد حصہ خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتا ہے جس میں سے 60 فیصد صرف ضلع صوابی میں اگایا جاتا ہے۔ تمباکو کی خرید و فروخت کی نگرانی کرنے والے حکومتی ادارے، پاکستان ٹوبیکو بورڈ، کے ایک اہلکار کے مطابق اس ضلعے میں ہر سال 32 ہزار پانچ سو ایکڑ اراضی پر ایف سی وی تمباکو کاشت کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد سب سے زیادہ (20 فیصد) ایف سی وی تمباکو ضلع مردان میں کاشت ہوتا ہے۔ اس فہرست میں تیسرا نمبر ضلع چارسدہ کا ہے جہاں اس تمباکو کا آٹھ فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے۔ صوبے کا باقی ماندہ ایف سی وی تمباکو نوشہرہ، بونیر، مانسہرہ اور مالاکنڈ کے اضلاع میں اگایا جاتا ہے۔
سرکاری قواعد کے مطابق پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس پاکستان سمیت سگریٹ بنانے والی 50 کمپنیاں پاکستان ٹوبیکو بورڈ کو ہر سال بتاتی ہیں کہ انہیں کتنا تمباکو درکار ہو گا جس کے بعد یہ بورڈ نہ صرف یہ طے کرتا ہے کہ کون سی کمپنی کس علاقے سے اور کتنی خریداری کرے گی بلکہ یہ تمباکو کی سرکاری قیمت بھی طے کرتا ہے تا کہ کمپنیاں اس سے کم نرخوں پر کاشت کاروں سے خریداری نہ کر سکیں۔
پاکستان ٹوبیکو بورڈ کی طرف سے مقرر کردہ انفرادی مانگ کی بنیاد پر سگریٹ بنانے والی کمپنیاں ہر کاشت کار سے ایک معاہدہ کرتی ہیں جس کے تحت وہ اُس سے 21 سو کلوگرام خام تمباکو خریدنے کی پابند ہوتی ہیں۔کسانوں کی ایک تنظیم، ٹوبیکو گروؤرز ایسوسی ایشن آف پاکستان، کے چئرمین لیاقت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس وقت مختلف کمپنیوں نے صوابی میں 17 ہزار کے قریب کاشت کاروں سے خریداری کے معاہدے کئے ہوئے ہیں۔
صوابی ہی کے کاشت کار ناصر خان کا کہنا ہے کہ تمباکو کی خرید و فروخت میں کاشت کاروں کو درپیش مسائل کی ایک اہم وجہ یہی معاہدے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کے ضلعے میں ایسی بھٹیوں کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے جہاں کاشت کار تمباکو بیچنے سے پہلے اسے خشک کرتے ہیں لیکن، ان کے مطابق، ان میں سے 13 ہزار کے قریب بھٹیوں کے مالکان تمباکو کی فروخت کے کسی معاہدے کا حصہ نہیں ہوتے جبکہ دوسری طرف چند ہزار بھٹیاں ایسی بھی ہیں جن کے مالکان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ایک سے زیادہ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں۔
نتیجتاً کچھ لوگ تو دوہرے معاہدوں کی وجہ سے اپنے کوٹے سے زیادہ تمباکو فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن مقامی کاشت کاروں کی ایک بڑی تعداد معاہدوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی فصل کسی ایک کمپنی کو بھی فروخت نہیں کر پاتی۔
احتجاجی کاشت کاروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں حکومت کو فراہم کیے گئے اعداد و شمار میں اپنی تمباکو کی سالانہ ضرورت حقیقت سے کم دکھاتی ہیں تا کہ انہیں تمام مطلوبہ تمباکو کی سرکاری قیمت نہ دینا پڑے۔ ان کے مطابق جب پاکستان ٹوبیکو بورڈ کی طرف سے مقرر کردہ اِن کمپنیوں کا خریداری کا کوٹہ پورا ہوجاتا ہے تو وہ کاشت کاروں سے خریداری بند کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ مجبوراً اپنی اضافی فصل سستے داموں بیچ دیتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد یہی کمپنیاں کھلی منڈی سے سستا تمباکو خریدنا شروع کر دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کورونا وبا کے اثرات یا کھاد کمپنیوں کی مَن مانی: ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں دگنی ہو گئی۔
لیاقت یوسف زئی کے مطابق اس سال سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے پاکستان ٹوبیکو بورڈ کو بتایا ہے کہ وہ پورے خیبر پختونخوا سے پانچ کروڑ 60 لاکھ کلو گرام تمباکو خریدیں گی حالانکہ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی صوبے میں پیدا ہونے والے ایف سی وی تمباکو کی کل مقدار چھ کروڑ 90 لاکھ کلوگرام کے لگ بھگ ہے۔ دوسرے لفظوں میں کاشت کاروں کے پاس ایک کروڑ کلو گرام سے بھی زیادہ ایسا تمباکو بچ جائے گا جو وہ کسی کمپنی کو نہیں بیچ پائیں گے۔
تاہم پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کی بنیادی وجہ وہ کاشت کار ہیں جو کسی بھی کمپنی سے معاہدہ نہ ہونے کے باوجود تمباکو کاشت کرتے ہیں حالانکہ سرکاری قواعد و ضوابط کے تحت ہر سال نومبر کے مہینہ میں انہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وہ کہتے ہیں کہ صرف صوابی میں تمباکو کے تیس فیصد کاشت کاروں نے اپنی فصل کی فروخت کے لئے کوئی معاہدہ نہیں کر رکھا لیکن پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ’’ان کا تمباکو سرکاری نرخوں پر ہی خریدا جائے‘‘۔
اس اہل کار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کاشت کاروں کو مالی مسائل سے بچانے کے لئے حکومت نے سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو رضامند کر لیا ہے کہ وہ اس سال 50 لاکھ کلوگرام مزید تمباکو خریدیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ اضافی خریداری شروع ہو چکی ہے۔
پیداواری اخراجات میں اضافہ
ورلڈ بینک گروپ (گلوبل ٹوبیکو کنٹرول پروگرام) کی جون 2019 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 1960 کی دہائی میں پاکستان میں ایک لاکھ 72 ہزار نو سو 74 ایکڑ اراضی پر تمباکو کی کاشت ہوتی تھی جو کہ 1987 میں کم ہوتے ہوتے 98 ہزار آٹھ سو 42 ایکڑ رہ گئی۔ لیکن 1990 کی دہائی میں تمباکو کے زیرِ کاشت رقبے میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہوا حتیٰ کہ کچھ ہی عرصے میں یہ فصل ایک لاکھ 23 ہزار 552 ایکڑ زمین پر کاشت کی جانے لگی۔
اگرچہ اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پچھلی دو دہائیوں میں اس رقبے میں اضافہ ہوا ہے یا کمی لیکن اس کے مطابق اس وقت پورے ملک میں تمباکو کے 75 ہزار کاشت کار ہیں جن میں سے 45 ہزار کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ اس صوبے کے کاشت کار مجموعی طور پر 74 ہزار ایک سو 31 ایکڑ پر ایف سی وی تمباکو اگاتے ہیں۔
ورلڈ بینک گروپ کی رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2009 سے لے کر 2014 تک خیبر پختوٖنخوا میں ایف سی وی تمباکو کی سالانہ پیداوار آٹھ کروڑ کلو گرام اور ساڑھے آٹھ کروڑ کلو گرام کے درمیان رہی لیکن 2016 اور 2018 کے درمیان اس کی سالانہ پیداوار کم ہو کر ساڑھے چھ کروڑ کلو گرام اور سات کروڑ کلو گرام کے درمیان رہی۔
پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے جاری کردہ اعداد و شمار بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں تمباکو کی پیداوار گر رہی ہے۔ بورڈ کے مطابق 20-2019 میں تمباکو کی فی ایکڑ پیداوار 2013-14 میں اس کی فی ایکڑ پیداوار سے لگ بھگ 24 فیصد کم رہی۔
تاہم کاشت کاروں کا دعویٰ ہے کہ فصل کی پیداوار میں اس سے کہیں زیادہ کمی آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تین سال پہلے تمباکو کی اوسط فی ایکڑ پیداوار 15 سو 38کلو گرام تھی جو اس سال کم ہو کر آٹھ سو 80 کلو گرام رہ گئی ہے۔
ورلڈ بینک گروپ کا کہنا ہے کہ پیداوار میں اس کمی کی بڑی وجہ کاشت کاروں کی یہ شکایت ہے کہ تمباکو کی سرکاری امدادی قیمت طے کرتے وقت پاکستان ٹوبیکو بورڈ ان کی فصل کی پیداواری لاگت کا تخمینہ اصل سے کم لگاتا ہے جس سے انہیں اس کی کاشت سے فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔
صوابی کے کاشت کار اس تجزیے کی توثیق کرتے ہیں۔
محمد اعظم کہتے ہیں کہ اگرچہ پیداواری لاگت کا تخمینہ لگانے کے عمل میں کسانوں کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے لیکن، ان کے مطابق، اس کا حتمی فیصلہ اسلام آباد میں بیٹھے پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے کرتا دھرتا ہی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تخمینے میں کچھ خرچے یا تو شمار ہی نہیں کیے جاتے یا ان کی مالیت بہت کم رکھی جاتی ہے۔ ان میں گودام کا کرایہ، مزدوروں کی خوراک پر آنے والا خرچہ اور تمباکو کو کھیت سے خریداری مرکز تک پہنچانے کے اخراجات شامل ہیں۔
محمد اعظم یہ بھی کہتے ہیں کہ فصل کی کاشت کے وقت کسان جو قرض اٹھاتے ہیں اس پر انہیں 15 فیصد سے 17 فیصد سود دینا پڑتا ہے لیکن لاگت کا تخمینہ لگاتے وقت ان کے منافع کی شرح صرف تین فیصد تصور کی جاتی ہے۔
صوابی کے موضع گواہٹی سے تعلق رکھنے والے ادھیڑ عمر کاشت کار فرید ﷲ تمباکو کی فصل پر اٹھنے والے اخراجات میں ہر سال اضافے سے اس قدر تنگ آ گئے ہیں کہ وہ اس کی کاشت ترک کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایک سال میں کھاد کی قیمت دو گنی ہو گئی ہے جبکہ اسی عرصے میں زمین میں ہل چلوانے کا معاوضہ 800 روپے فی گھنٹہ سے بڑھ کر 1,300 روپے فی گھنٹہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ بھٹی میں استعمال ہونے والی لکڑی کی قیمت 500 روپے فی 50 کلوگرام سے بڑھ کر 750 روپے فی 50 کلوگرام ہو گئی ہے اور بھٹی میں آگ جلانے والے مزدور کا ماہانہ معاوضہ 16 ہزار روپے سے بڑھ کر 26 ہزار روپے ہو گیا ہے۔
لیکن فریداللہ کے بقول خرچے میں اتنے شدید اضافے کے باوجود تمباکو کی امدادی قیمت میں پچھلے تین سالوں میں صرف 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ’’تمباکو کی کاشت سراسر گھاٹے کا سودا بن گئی ہے‘‘۔
تاریخ اشاعت 30 ستمبر 2021