ضلع تھرپارکر لائیو سٹاک کا سب سے بڑا مرکز مگر یہاں جانوروں کے علاج کی سہولیات کون دے گا؟

postImg

جی آر جونیجو

postImg

ضلع تھرپارکر لائیو سٹاک کا سب سے بڑا مرکز مگر یہاں جانوروں کے علاج کی سہولیات کون دے گا؟

جی آر جونیجو

کاشتکار برکت علی ضلع تھرپارکر کے گاؤں کلنہار میں رہتے ہیں اور اپنے کنبے کے چھ افراد کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ انہوں نے گھر کے روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے بکریوں سمیت کچھ جانور بھی پال رکھے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ چند روز قبل ان کی بکریاں بیمار ہونا شروع گئیں جن میں سے کچھ کو پیٹ اور بعض کو جلدی بیماری لگ گئی تھی۔ گاؤں کے قریب ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سےان کا بر وقت علاج نہ ہو سکا۔

"ڈیپلو شہر ہمارے گاؤں سے 40 کلومیٹر دور ہے۔ میں وہاں گیا اور10 ہزار روپے خرچ کر کے ڈاکٹر سے دوائیں لے آیا۔ تاہم دو روز میں تین بکریاں مر گئیں اور باقی دس خدا خدا کر کے ٹھیک ہوئیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ کلنہار گاؤں میں کئی سال پہلے جانوروں کا ایک چھوٹا سا ہسپتال (وٹرنری سنٹر) بنایا گیا تھا مگر یہاں کوئی ڈاکٹر ہے نہ دوا ملتی ہے۔ مال مویشی کے علاج کے لیے شہر میں پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے جس پر بہت پیسے خرچ ہوتے ہیں۔

"گاؤں کا وٹرنری سنٹر فعال ہوتا تو میری بکریاں نہ مرتیں۔"

تھر میں کتنے جانور ہیں؟

ضلع تھرپارکر  کے 17 لاکھ 78 ہزار 407 لوگوں میں سے 16 لاکھ 34 ہزار افراد دیہات میں رہتے ہیں جن کا انحصار مال مویشی پالنے پر ہے۔

ملک میں آخری لائیوسٹاک  سنسس 2006ء میں ہوا تھا جس کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ تھر میں آٹھ لاکھ کے قریب گائے بھینسیں، 11 لاکھ 85 ہزار سے زائد بھیڑیں اور 22 لاکھ 18 ہزار کے قریب بکریاں تھیں۔

ضلعے میں تب ایک لاکھ 35 ہزار اونٹوں سمیت تقریباً 48 لاکھ جانور تھے جو اب لگ بھگ 80 لاکھ بتائے جاتے ہیں۔

تاہم فوکل پرسن محکمہ علاج حیوانات (وٹرنری) ڈاکٹر اشوک کے مطابق تھرپارکر میں 70 لاکھ جانور ہیں جن میں 50 لاکھ چھوٹے (بھیڑ، بکریاں) اور 20 لاکھ بڑے (گائے، بھینس، اونٹ گھوڑے گدھے وغیرہ)جانور موجود ہیں جو غالباً پاکستان کے کسی بھی ضلعے کے جانوروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

"ضلعے میں ان جانوروں کے علاج کے لیے 237 وٹرنری سنٹر بنائے گئےتھے جن میں سے آٹھ کی عمارتیں نہیں بن پائیں جس پر ان مراکز کو قریبی سنٹرز میں ضم کر دیا گیا۔ یوں وٹرنری سنٹرز کی کل سرکاری تعداد 229 رہ گئی مگر ان میں سے صرف 70 فعال اور 159 بند پڑے ہیں۔"

تھر کے مویشی اور ان کی بیمایاں

محکمہ لائیو سٹاک تھرپارکر میں بریڈنگ ونگ انچارچ ڈاکٹر غلام اللہ جونیجو بتاتے ہیں کہ یہاں دو اقسام کی گائے زیادہ پائی جاتی ہیں جن میں 'تھری' اور 'کانکریج' نسل شامل ہے۔

"تھری گائے صحرائی علاقوں مٹھی، اسلام کوٹ، نوکوٹ، عمر کوٹ، کچھ اور دھورو نارو میں پائی جاتی ہے جبکہ کانکریج ننگرپارکر سائڈ یعنی پہاڑی علاقے میں اس کی تعداد کچھ زیادہ ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ رنگ دونوں ہی کا سفید ہوتا ہے تاہم کانکریج کی پیشانی اور سینگھ بڑے ہوتے ہیں اور یہ سال میں اوسطاً 18سو سے 19 سو لٹر دودھ دیتی ہے۔"

اوکلا ہاما سٹیٹ یونیورسٹی  کے مطابق تھری نسل کی گائے درمیانی جسامت کی ہوتی ہے جو کانکریج سے الگ ہے مگر اس پر کانگریج کے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ گائے سال میں اوسطاً ایک ہزار 980 لیٹر تک دودھ دیتی ہے۔

 ڈاکٹر غلام اللہ کہتے ہیں کہ چراہ گاہوں میں چرنے کے باعث یہاں گائے میں پیٹ کے کیڑوں (ورمز) کی بیماریاں بہت ہوتی ہیں۔ یہ جانور اکثر اوقات جلدی امراض، خارش، لمپی، بخار اور متعدی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں جن کا علاج ضروری ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ضلعے میں بکریوں کے دو اہم اقسام ہیں جن میں 'نج تھری' اور سامروٹی بکری شامل ہیں۔ سامروٹی نسل صحرا کے صرف جنوبی حصوں میں پائی جاتی ہے جو چار ماہ میں اوسطاً 170 لٹر دودھ دیتی ہے۔

تاہم تھری بکری بیماریوں کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھنے کے سبب پورے ضلعے میں پالی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تھر میں بھیڑوں کی صرف ایک ہی نسل پائی جاتی ہے جو 'کچھی بھیڑ' کے نام سے مشہور ہے۔

 "بکریوں اور بھیڑوں میں تقریباً ایک جیسی بیماریاں ہوتی ہے جن میں پیٹ کی بیماریاں، خارش اور مون سون کے دوران متعدی بیماریاں شامل ہیں۔ تاہم بھیڑوں میں ایک مخصوص بیماری ہوتی ہے جسے 'ماتا' کہا جاتا ہے جبکہ بکری کے لیے 'برکی'  نام کی بیماری کو خطرناک مانا جاتا ہے۔"

ڈاکٹر غلام اللہ جونیجو کے مطابق تھر میں ڈھاٹی نسل کا اونٹ پالا جاتا ہے جو ایک ہزار کلوگرام وزن تک کا ہوتا ہے۔

"اونٹ میں کیمل پوکس، ایف ایم ڈی(منہ کُھر)، سر پھیٹڑ اور خارش کی بیماریاں عام ہیں جس کا فوری علاج ہونا چاہیے ورنہ اونٹ بان کا بہت نقصان ہو جاتا ہے۔"

مویشی ہسپتالوں اور علاج کی صورت حال

مویشی پال (جسے مقامی لوگ مال دار یا بھاگئی کہتے ہیں) محمد سومار کے پاس 40 بکریاں اور 10 گائے ہیں۔ ان کا گاؤں ڈابھو ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی سے 35 کلومیٹر دور ہے اور وہاں تک پکی سڑک بھی نہیں ہے۔

"ہم تھری لوگوں کی پوری زندگی کی کمائی مال مویشی ہی ہوتے ہیں مگر جب کوئی جانور بیمار ہو جاتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ہمیں دوا دارو کے لیے کچے راستوں سے مٹھی ہسپتال جانا پڑتا ہے۔"

سرکاری ڈاکٹر نہ ہو تو انہیں پرائیویٹ ڈاکٹر لانا پڑتا ہے جو چار ہزار روپے لیتے ہیں۔
"ان کے لیے گاڑی کرائے پر لینا پڑتی ہے جس پر پانچ ہزار لگتے ہیں اور دوا کے ساتھ کل ملاکر 15 ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں وٹرنری سنٹر تو موجود ہے مگر برسوں سے بند پڑا ہے۔

"اس سنٹر پر جانوروں کے علاج کی سہولت مل جاتی تو ارد گرد کے دیہات کے لوگوں کی بھی ڈاکٹروں اور کرائے بھاڑے کے خرچے سے جان چھوٹ جاتی۔"

موضع  سنسس 2020ء کے مطابق سندھ میں جانوروں کے علاج کے لیے ایک ہزار 435 سرکاری گاڑیاں (موبائل ڈسپنسریاں) اور 470 ہسپتال یا مراکز ہیں۔ مویشی ہسپتالوں کا دیہات سے اوسط فاصلہ 14 کلومیڑ بنتا ہے۔

تھرپارکر کے 170 مواضعات کے ہر گھر میں مال مویشی پالے جاتے ہیں مگر وہاں جانوروں کے لیے ڈسپنسریوں کے علاوہ صرف 88 ہسپتال یا سنٹر ہیں جہاں مویشی ہسپتال سے دیہات کا اوسط فاصلہ 34 کلو میٹر بنتا ہے۔

ڈاکٹر اشوک کے مطابق ضلعے میں جانوروں کے علاج کے لیے 237 وٹرنری سنٹر بنائے گئےتھے جن میں سے آٹھ کی عمارتیں نہیں بن پائیں جس پر ان مراکز کو قریبی سنٹرز میں ضم کر دیا گیا۔

تھر کے 229 وٹرنری سنٹر میں سے159 بند یا غیر فعال پڑے ہیں جبکہ ضلع بھر میں صرف 70 وٹرنری سنٹر کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اشوک کے مطابق "تھر کی ساتوں تحصیلوں میں محکمے کے پاس 40 وٹرنری ڈاکٹر ، 60 سٹاک اسسٹنٹ اور دوسرا عملہ موجود ہے۔" تاہم وہ عملے کی تحصیل وار تعناتیوں کا ڈیٹا فراہم نہ کر سکے۔

 فوکل پرسن کے مطابق 25 ہزار جانوروں پر ایک ڈاکٹر لازمی ہونا چاہیے۔ تاہم لائیو سٹاک کے آفس کے مطابق تھر میں ڈاکٹروں سمیت عملے کی کل منظور شدہ اسامیاں 365 ہیں جن میں سے 265 خالی پڑی ہیں جس کے باعث دور دراز دیہات میں مویشیوں کا علاج نہیں ہو پا رہا۔

ڈاکٹر اشوک بتاتے ہیں کہ بکریوں میں برکی (مقامی نام)کی بیماری اتنی خطرناک ہے کہ ڈاکٹر پہنچنے سے پہلے بکری مر جاتی ہے لیکن محکمے کے پاس اس کی ویکسین موجود ہے۔ تاہم وہ اس بیماری سے ہلاکتوں کا یہ جواز دیتے ہیں کہ لوگ ویکسین انتہائی کم کراتے ہیں۔

ان کے مطابق سرکاری مراکز میں اونٹ کی بیماریوں کا فوری علاج بھی میسر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

مویشیوں کے گڑھ راجن پور میں ویٹرنری ادویات کی قلت، پالتو جانور قابل علاج بیماریوں سے دم توڑنے لگے

فوکل پرسن کے برعکس مقامی وٹرنری ڈاکٹر لوو سن لکھانی لوگوں کی شکایات کو جائز قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہر گھر میں مویشی ہے مگر دیہی سنٹرز پر ڈاکٹر، عملہ، ویکسین اور دوائیں میسر نہیں۔ اسی وجہ سے غریبوں کے جانور بڑی تعداد میں مر جاتے ہیں۔

ادھر ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک اینڈ اینیمل ہسبینڈری تھرپارکر، ڈاکٹر حاکم علی جلبانی بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بھرتیاں نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر سنٹر غیر فعال ہیں۔ لیکن ضلعےکی ساتوں تحصیلوں میں ایک ایک گاڑی (موبائل وٹرنری ڈسپنسری) موجود ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تھر میں بیماری کی وجہ سے زیادہ مویشی نہیں مر رہے۔ جانوروں کو بڑی تعداد میں ویکسین کی گئی ہے اور یہ کام تمام تحصیلوں میں جاری ہے۔
 
ڈپٹی ڈائریکٹر نے محکمے کا ضلعی بجٹ بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ جتنا بھی بجٹ ہو اس میں تمام لوگوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔

تاہم محکمہ لائیو سٹاک کے ایک سینئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تھرپارکر کا کل بجٹ چار کروڑ روپے ہے جس میں سے 57 لاکھ روپے فیول کے شامل ہیں۔ باقی رقم کا بیشتر حصہ تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ جو سنٹر فعال دکھائے جاتے ہیں وہ بھی صرف کاغذوں ہی میں ہیں ورنہ شہروں کے سوا کہیں کوئی سنٹر فعال نہیں ہے۔ یہاں ضلعے میں اینیمل بریڈنگ یا نسل کشی کی کوئی برانچ نہیں بس صرف ایک ڈاکٹر موجود ہیں۔

"2012ء اور 2017ء میں بنائے جانے والے تمام دیہی وٹرنری مراکز ابھی تک غیر فعال ہیں۔ تھر کے لوگوں کا گذر بسر مویشیوں پر ہے اور ہم ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچ پا رہے۔ بدقسمتی سے ہمارے افسران کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔"

تاریخ اشاعت 10 اکتوبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.