وسے تہ تھر نہ تہ بر: محکمہ سیاحت کی توجہ کے طالب تھر پارکر کے آٹھ تاریخی مقامات

postImg

جی آر جونیجو

postImg

وسے تہ تھر نہ تہ بر: محکمہ سیاحت کی توجہ کے طالب تھر پارکر کے آٹھ تاریخی مقامات

جی آر جونیجو

زیادہ تر میڈیا کے لیے تھر ایک قحط زدہ علاقہ ہے جہاں ہر طرف غربت ، بھوک اور نوزائیدہ بچوں کی موت کا ماتم رہتا ہے۔ لیکن تھر میں اور بھی بہت کچھ ہے جو میڈیا ہی کی وجہ سے عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔

کم لوگ جانتے ہوں گے کہ تھر میں پہاڑ ہیں، جھیلیں اور برساتی ندیاں ہیں جو بارش کے بعد اس کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہیں۔ رنگارنگ ثقافت، خوبصورت مناظر اور قدیم تاریخی و مذہبی مقامات سیاحوں کواپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اگست اور ستمبر میں مون سون کے بعد یہاں بہت رونق ہوتی ہے ٹریفک جام معمول بن جاتا ہے اور بعض اوقات تو گاڑیوں کی طویل قطاریں نظر آتی ہیں۔

لیکن اس تمام تر خوبصورتی کے باوجود بعض چیزیں وہاں جانے والے لوگوں کو مایوس کرتی ہیں۔

چالیس سالہ صبیحہ خاتون نواب شاہ سے کارونجھر کے نظارے دیکھنے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تھر لاجواب ہے مگر ان کی فیملی یہاں صرف ایک دن ہی گزار سکے گی۔

"رات کو طعام و قیام کے لیے ہمیں مٹھی جانا پڑے گا۔ یہاں ہم جو جگہیں دیکھنے کے لیے آئے ہیں ان تک پہنچنے کے لیے نہ تو کوئی مناسب راستہ ہے اور نہ ہی گائیڈ میسر ہیں۔ یہاں گیسٹ ہاؤس بھی بہت مہنگے ہیں اس لیے تھر میں زیادہ دیر قیام کرنا ممکن نہیں ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ سیاحتی مقامات پر بیٹھنے اور سستانے کے لیے بھی کوئی انتظام موجود نہیں۔ تاریخی جگہوں کے بارے میں معلومات دینے والا کوئی شخص بھی نہیں ملتا۔ محکمہ سیاحت نے ہر جگہ بورڈ لگا کر اپنے وجود کی نشاندہی تو کر رکھی ہے لیکن لوگوں کی سہولت کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے۔

تھر کے علاقے ننگرپارکر میں سطح سمندر سے 130 میٹر بلند پہاڑی سلسلے میں کارونجھر کی گرینائیٹ والی لال پہاڑیاں خوبصورتی کا نمونہ ہیں۔ یہاں جین اور ہندو دھرم کے مندر، تیرتھ، جھیلیں، بھوڈیسر مسجد اور لوک داستان کی ہیروئن 'ماروی' کا گاؤں بھالوا سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ انگریزوں نےکارونجھر کی چوٹی پر ایک پوائنٹ بنایا تھا جہاں سے دور دور تک تھر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

محکمہ سیاحت کے مطابق تھر میں اوسطاً سالانہ 5 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ سندھ کے دیہی علاقوں سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔ اسی طرح کراچی، اسلام آباد اور پنجاب سے بھی لوگ آتے ہیں۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تھرپارکر کی سیاحت میں 60 فیصد حصہ مذہبی مقامات کا ہے۔

تھر کے مشہورسیاحتی مقامات

1۔ نوکوٹ قلعہ

صحرائے تھر میں بنیادی طور پر نو مشہور سیاحتی مقامات ہیں۔ اس علاقے میں آئے تو سب سے پہلے نوکوٹ کے قریب واقع ' قلعہ نو کوٹ 'آتا ہے۔ اسے ضلع تھرپارکر کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی کا فاصلہ 55 کلومیٹر ہے۔ یہ قلعہ 1789 میں میرپورخاص کے حاکم میر شیر محمد ٹالپر کے والد میر علی مراد نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ اپنے نو برجوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

تھر کے بیشتر سیاحتی مقامات تحصیل ننگرپارکر میں واقع ہیں۔یہ علاقہ تاریخی طور پر جین دھرم کا قدیم مرکز رہا ہے۔ آزادی سے پہلے بھی ننگرپارکر اور اس کے قریب اجڑے پاری نگر شہر میں 800 کے قریب جین خاندان آباد تھے لیکن 1947ء میں یہ لوگ ہجرت کر گئے اور بہت سارے مجسمے بھی ساتھ لے گئے۔ اب یہاں جین دھرم کا کوئی پیروکار نہیں رہتا۔

<p>نوکوٹ قلعہ<br></p>

نوکوٹ قلعہ

2۔ گوڑی مندر

یہاں جین مت سے وابستہ تاریخی 'گوڑی مندر' بہت پرانا ہے۔ روایت ہے کہ یہاں جین گرو 'پارس ناتھ' کا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔ اس مندر کے مینار کے اندر شاندار نقاشی کی گئی ہے۔ بعض نقش تو وقت کے ساتھ ختم ہو گئے مگر کچھ اب بھی باقی ہیں۔

<p>گوڑی مندر<br></p>

گوڑی مندر

 3۔ ویراواہ جین مندر

یہاں سفید سنگ مرمر سے بنا 'ویراواہ جین مندر' بھی دیکھنے کی جگہ ہے۔کہا جا تا ہے کہ 500 قبل مسیح میں یہ جگہ ایک بندرگاہ ہوتی تھی۔ کبھی یہاں چھ مندر تھے لیکن اب صرف ایک باقی ہے۔

<p> ویراواہ جین مندر<br></p>

 ویراواہ جین مندر

4۔ بھوڈیسر مسجد

ننگرپارکر کے قریبی گاؤں بھوڈیسر میں موجود مسجد آثار قدیمہ کا حسین شاہکار ہے۔ اس کے ستون ایک ہی پتھر سے تراشے گئے ہیں۔ بھوڈیسر مسجد گجرات کے حاکم محمود شاہ بن مظفرشاہ بن غیاث الدین نے 1505ء میں تعمیر کرائی تھی۔ بھوڈیسر مسجد میں سفید سنگ مرمر پر 'جین فن تعمیر 'کے دلکش نقش و نگار دیکھنے والے پر اپنا سحر طاری کر دیتے ہیں۔ اس مسجد کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کی تعمیر میں جین دھرم کے کاریگروں نے حصہ لیا تھا۔

<p>بھوڈیسر مسجد</p>

بھوڈیسر مسجد

5۔ جین دھرم مندر ننگرپارکر

بھوڈیسر مسجد سے چند قدم دور'کجلاسر' تالاب کے کنارے بھوڈیسر کا تاریخی مندر واقع ہے جو جین دھرم کے پیروکاروں کا بتایا جاتا ہے۔ یہ مندر 1375 اور 1449 کے درمیانی دور کا ہے مگر آج بھی اس کا وجود شاندار دکھائی دیتا ہے۔ ننگرپارکر شہر کے بیچ شاہی بازار میں واقع جین مندر کی 500 سالہ تاریخ ہے۔ اس مندر کے گنبد کے اندر بنے دائروں میں دھرمی کہانیوں کو نقش کی زبان میں رقم کیاگیا ہے۔

<p>جین دھرم مندر</p>

جین دھرم مندر

 6۔ ماتا مندر چوڑیو

پاک بھارت سرحد کے بالکل قریب واقع گاؤں چوڑیو میں ایک پہاڑی چٹان کے نیچے ہندو دھرم کی دیوی 'دُرگا ماتا' کا تاریخی مندر واقع ہے جسے ماتا مندر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے بھارتی دیہات بھی نظر آتے ہیں۔ یہاں دونوں نوراتوں کو تاریخی میلہ لگتا ہے جس میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں یاتری اور سیاح اس جگہ آتے ہیں۔

<p> ماتا مندر چوڑیو</p>

 ماتا مندر چوڑیو

7۔ ساردھڑو اور شو مندر

کارونجھر پہاڑ ہی کی گود میں بسا 'ساردھڑو' مذہبی مقام ہونے کے ساتھ ایک پرسکون جگہ بھی سمجھی جاتی ہے۔ یہاں ہر سال فروری اور مارچ کی درمیانی تاریخوں میں مہاشو راتری کا بڑا میلہ لگتا ہے۔ پہاڑوں سے ایک جھرنا اس مندر میں واقع تالاب میں گرتا ہے۔ اسی تالاب میں لوگ اپنے مرنے والے پیاروں کی استھیاں بہانے آتے ہیں۔ گئو مکھ جھرنا اور بھیم سر کا تالاب بھی انہی پہاڑیوں میں ہیں۔

<p>شو مندر</p>

شو مندر

8۔ تھر کا سوئٹزرلینڈ

ننگرپارکر شہر سے آٹھ کلومیٹر دور خوبصورت گاؤں' کاسبو' کو مقامی لوگ تھر کا سوئٹزرلینڈ بھی کہتے ہیں۔ باغات اور لہلہاتی فصلوں میں گھرا یہ چھوٹا سا گاؤں اپنے مندروں اور موروں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ سندھی شعراء نے کاسبو کو اپنی شاعری میں حسن کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔

علاوہ ازیں تھرک ول ایریا میں بلاک ون کی کان سے نکلنے والے پانی پر ایک ڈیم بنایا گیا ہے جسے 'گوڑانو ڈیم' کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک خوبصورت پارک بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

<p>کاسبو</p>

کاسبو

سہولتیں نہیں ہیں

 دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام سیاحتی مقامات تھر کے ان دیہی علاقوں میں واقع ہیں جہاں بہتر سفر اور قیام و طعام کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ننگرپارکر سے ماتا مندر چوڑیو کا فاصلہ 33 کلومیٹر ہے لیکن یہاں سڑک کچی ہے اور لوگ فور وہیل گاڑیوں پر بمشکل وہاں پہنچ پاتے ہیں۔ چوڑیو تک جیپ کا کرایہ سات سے آٹھ ہزار روپے ہے جبکہ برساتی ندیوں کے باعث سفر اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

ننگرپارکر گھومنے کے بعد زیادہ تر لوگ مٹھی میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہاں کوئی بڑا ہوٹل نہیں ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے دو گیسٹ ہاؤس بنا کر ٹھیکے پر دے رکھے ہیں اور چند نجی گیسٹ ہاوس بھی شہر میں موجود ہیں مگر یہاں ایک کمرے کا کرایہ تین ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے۔

ننگرپارکر میں سیاحوں کے لیے محکمہ سیاحت وثقافت کا 'روپلو کولہی موٹیل' نامی گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہے مگر اس کے کمروں کا روزانہ کرایہ چھ سےآٹھ ہزار روپے تک ہے جو کم آمدنی والے لوگوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاح یہاں صرف ایک دن قیام کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔

کاشف علی تھر کے فطری حسن کے مداح ہیں اور وہ لاڑکانہ سے اپنی فیملی کے ساتھ ننگرپارکر آئے ہیں۔ صبیحہ خاتون کی طرح انہیں بھی اس علاقے میں سہولتوں کی کمی کی شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محکمہ سیاحت و ثقافت کے گیسٹ ہاؤس کا کرایہ عام شخص کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے۔

مقامی سیاسی و سماجی رہنما شاہنواز ہنگور کہتے ہیں کہ سیاحتی مقامامات پر خواتین کے لیے واش رومز تک موجود نہیں۔ یہاں روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں جنہیں پینے کو پانی بھی نہیں ملتا۔ سیاحوں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کا نقصان یہاں کے مقامی لوگوں کو بھی  ہو رہا ہے۔

تاریخ اشاعت 15 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.