بھکر کی یونیورسٹی، جہاں کوئی طالب علم کسی مضمون میں ایم اے کے لیے داخلہ نہیں لے سکتا

postImg

وقاص احمد خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

بھکر کی یونیورسٹی، جہاں کوئی طالب علم کسی مضمون میں ایم اے کے لیے داخلہ نہیں لے سکتا

وقاص احمد خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

تھل یونیورسٹی بھکر کو اپنے دوسرے تعلیمی سیشن کے آغاز میں سنگین مسائل نے گھیر لیا ہے۔ یونیورسٹی نے پچھلے سال 20 مضامین میں طلبہ کو داخلے دیے تھے جبکہ رواں سال ہائر ایجوکیشن کمیشن نے صرف دس مضامین میں داخلوں کی اجازت دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امسال یونیورسٹی میں کسی کو ماسٹر ڈگری کے لیے داخلہ نہیں ملے گا۔

بھکر میں اس یونیورسٹی کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا جو وقت یونیورسٹی آف سرگودھا کا سب کیمپس تھی۔ ابتداً اس میں تقریباً 9 گریجوایٹ پروگرام شروع کیے گئے۔

2014ء میں یہ تعداد 40 تک پہنچ گئی۔ ان میں مختلف مضامین کے بی ایس پروگرام، ایم ایس سی اور ایم اے کے علاوہ کیمسٹری، باٹنی، ریاضی، معاشیات، زوآلوجی اور اردو کی ایم فل کلاسیں بھی شامل تھی۔

2019ء میں پنجاب حکومت نے بھکر میں تھل یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر یہ طے کیا گیا کہ یہاں 108 کنال رقبے پر محیط سرگودھا یونیورسٹی کے سب کیمپس کو ہی تھل یونیورسٹی کے سٹی کیمپس میں بدل دیا جائے گا اور مین کیمپس کے لیے مزید رقبہ بھی دیا جائے گا۔

چنانچہ بورڈ آف ریونیو نے نواحی علاقے سرائے مہاجر میں 261 ایکڑ زمین تھل یونیورسٹی کے لیے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو منتقل کر دی مگر وہاں تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا۔

پنجاب اسمبلی کی منظوری کے بعد گزشتہ سال سال 9 فروری کو 'تھل یونیورسٹی بھکر' کا قیام عمل میں آگیا۔ یہاں پہلے سیشن کا آغاز ہوا تو 16 مختلف ڈیپارٹمنٹس کے 20 بی ایس پروگراموں میں طلبہ کو داخلے دیے گئے۔

 رواں سال ایچ ای سی کی ٹیم نے یونیورسٹی کا دورہ کیا جس کے بعد انہوں نے صرف دس تعلیمی شعبوں میں داخلوں کی اجازت دی کیونکہ باقی شعبہ جات ضروری شرائط پوری نہیں کر رہے تھے۔

تھل یونیورسٹی نے 2022ء میں کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر انجینئرنگ، اکنامکس، فزکس، کیمسٹری، باٹنی، ریاضی، انگریزی، اسلامیات، اردو، فزیکل ایجوکیشن، کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز ایجوکیشن، انٹرنیشنل ریلیشنز، نفسیات، سوشل ورک اور سوشیالوجی میں گریجوایٹ پروگرام کے علاوہ  بی بی اے اور بی کام میں بھی داخلے دیے تھے۔

 امسال یہاں اردو، انگریزی، سوشیالوجی، سوشل ورک، انٹرنیشنل ریلیشنز، میڈیا سٹڈیز، اکنامکس، اسلامیات اور ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں داخلوں کی اجازت نہیں مل سکی۔ تاہم پچھلے سال ان مضامین میں داخلہ لینے والے طالب علم اپنی ڈگری یہیں مکمل کریں گے۔

اگرچہ یونیورسٹی انتظامیہ اردو، ریاضی اور فزیکل ایجوکیشن میں داخلے شروع کرانے کی دوبارہ کوشش کر رہی ہے تاہم ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا جاسکا۔

تھل یونیورسٹی  کی انتظامیہ نے اس صورتحال کا ذمہ دار متعلقہ بیوروکریسی اور صوبائی حکومت کو قرار دیا ہے۔

یونیورسٹی کے ایک اہم عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ ابھی تک وہ قوانین ہی منظور نہیں ہو سکے جن کے تحت یونیورسٹی مستقل اساتذہ (پرماننٹ فیکلٹی ممبرز)کی تعیناتیاں اور دیگر معاملات  طے کرتی ہے۔ ان قوانین اور ضوابط کی منظوری گورنر پنجاب دیتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ابھی تک تھل یونیورسٹی کا مستقل وائس چانسلر ہی تعینات نہیں ہو سکا۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وی سی اپنے دفتر میں ہی بیٹھ کر معاملات کو دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ تھل یونیورسٹی کو توجہ نہیں دے پاتے۔

تھل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے (جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے) بتایا ہے کہ جب یہاں سرگودھا یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم ہوا تو سرگودھا سے اساتذہ اور دیگر فیکلٹی ارکان کی ایک بڑی تعداد کو بھکر بھیجا گیا تھا۔ لیکن تھل یونیورسٹی کی منظوری کے بعد وہ واپس مین کیمپس چلے گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ صرف 30 فیکلٹی ارکان (اساتذہ) یہاں کام کرنے پر تیار ہوئے جنہیں ڈیپوٹیشن پر رکھ لیا گیا۔ تھل یونیورسٹی کا ایک بھی اپنا مستقل پروفیسر نہیں ہے اور نہ ہی یہاں تعیناتیوں کا عمل شروع ہو سکا ہے۔ چنانچہ تمام مضامین کے طلبہ کو وزیٹنگ پروفیسر پڑھا ہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دس مضامین کے داخلوں اجازت نہ ملنے کی بنیادی وجہ مستقل اساتذہ (فیکلٹی ممبر ان)کا نہ ہونا ہے۔ مستقل وی سی نہ ہونے سے یونیورسٹی کے معاملات زیادہ خراب ہیں۔

اردو، معاشیات اور فزیکل ایجوکیشن میں ایک ایک مستقل پروفیسر موجود ہے لیکن ایچ ای سی نے ان مضامین میں داخلہ بھی روک دیا ہے۔ ان تین ڈیپارٹمنٹس کو دوبارہ شروع کرنےکی کوشش جاری ہے جبکہ ان شعبوں میں مستقل تقرریوں کی تیاریاں بھی ہو چکی ہیں۔

 ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں رجسٹرار تھل یونیورسٹی ایچ ای سی سمیت متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔

 بی ایس اردو کے دوسرے سمیسٹر میں زیرتعلیم فیصل شہزاد کے والد پینشنر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان جیسے طلبہ کے پاس اپنے علاقے سے قریب تھل یونیورسٹی کے سوا کہیں اور جا کر پڑھنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ اکنامکس کے سوا بند ہونے والے تمام شعبے آرٹس اور سوشل سائٹسز کے ہیں اور دیہی علاقوں کے اکثر طلبہ انہی مضامین میں داخلہ لیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ داخلے کی خواہش مند طالبات کے لیے یہ صورت حال زیادہ مایوس کن ہے کیونکہ طالبات کو دوسرے شہروں میں جا کر پڑھنے کی اجازت بہت کم ہی ملتی ہے۔

پچاس سالہ محمد خان بھکر کے محلہ عالم آباد میں کریانے کی دکان چلاتے ہیں۔ انہوں ںے  اپنا پیٹ کاٹ کر بیٹے محمد اویس کو لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم ایس سی تک تعلیم دلائی ہے۔

اب محمد خان کی بیٹی نے تھل یونیورسٹی سےایم ایس سی کر لی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھکر میں یونیورسٹی کا سب کیمپس نہ ہوتا تو ان کے لیے بیٹی کو  پڑھانا بہت مشکل تھا۔ محدود وسائل میں بچوں کو لاہور یااسلام آباد بھیج کر تعلیمی اخراجات برداشت کرنا آسان نہیں۔

یونیورسٹی کے عہدیدار صوبائی بیورو کریسی پر 'تعصب 'کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے شہروں کی نئی یونیورسٹیوں کی گرانٹ 50 کروڑ روپے تک ہوتی ہے جبکہ تھل یونیورسٹی کو صرف 10 کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں مستقل پروفیسروں کی عدم تعیناتی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

یونیورسٹی آف میانوالی: وزٹنگ فیکلٹی سے پڑھیں اور لیب کے بغیر مائیکرو بیالوجی کی ڈگری حاصل کریں

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کو مناسب فنڈز نہیں دیے جارہے۔ چونکہ یہ سرکاری ادارہ ہے اس لیے نہ تو یہاں طلبہ سے زیادہ فیس لی جا سکتی ہے اور نہ ہی کہیں اور سے مالی وسائل پیدا کرنے کا کوئی بندوبست ہے۔ اس پس ماندہ علاقے کے بچوں کا مستقبل ایسے ہی مقامی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے اس لیے حکومت ہنگامی بنیادوں پر یونیورسٹی کے مسائل پر توجہ دے۔

مولانا صفی اللہ تھل یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنڈیکیٹ کے پہلے اجلاس کے بعد انہیں نہ تو کسی میٹنگ کے لیے بلایا گیا نہ ہی موجودہ معاملات سے آگاہ کیا گیا ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر اور تھل یونیورسٹی بھکر کے سنڈیکیٹ ممبر ڈاکٹر حسن امیر کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کو درپیش مسائل کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو دھڑا دھڑ یونیورسٹیاں بنا رہے ہیں۔ ایچ ای سی کسی نئی یونیورسٹی کو پہلے تین سال کوئی فنڈنگ نہیں کرتا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ابتدا میں یونیورسٹی کو فنڈنگ کی پوری ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہوتی ہے۔ تھل یونیورسٹی سمیت متعدد نئی یونیورسٹیوں کے سروس قوانین کو گورنر سے منظوری ملنا باقی ہے۔ سنڈیکیٹ اجلاس کی صدارت ایک وزیر کرتے ہیں لیکن وزیروں کو یونیورسٹی کے معاملات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

 پروفیسر حسن امیر نے بتایا کہ سنڈیکیٹ اجلاس میں جو بھی فیصلے ہوں وہ فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اکثر اوقات وزارت خزانہ، قانون اور ہائر ایجوکیشن کے سیکریٹریز یا نمائندے تمام امور کی منظوری میں شامل ہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ لوگ سفارشات پرعمل ہی نہیں کراتے اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

 

تاریخ اشاعت 8 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وقاص احمد خان کا تعلق بھکر سے ہے. پچھلے سات برس سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ علاقائی، سماجی اور سیاسی مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.