توانائی کے بحران نے پاکستان میں کپڑے کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ جیسے شہروں میں ہر بڑی فیکٹری کے اپنے پاور پلانٹس ہوتے ہیں لیکن چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانے بجلی کی عدم دستیابی اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ملک شہزاد بیگ کی ٹیکسٹائل مل فیصل آباد لاہور روڈ کے قریب کھرڑیانوالہ میں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ملک میں دس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی تھی تو وہ اپنی فیکٹری میں پیٹرول سے چلنے والے جنریٹر استعمال کرنے پر مجبور تھے لیکن جنریٹر کے استعمال سے اخراجات میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو چکا تھا۔
اس کا حل انہوں نے تین سال پہلے اپنی فیکٹری کو سولر پر منتقل کرکے نکالا۔
شہزاد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے شروع میں 200 کلو واٹ کا سولر انرجی کا پراجیکٹ لگایا تھا جس کی استعداد دو سے تین مراحل میں ہونے والی توسیع کے بعد ایک میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے۔
اب ان کی فیکٹری شہزاد انٹرپرائزز میں روزانہ کی بنیاد پر سولر پینلز سے چار ہزار یونٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ یعنی ماہانہ ایک لاکھ 20 ہزار یونٹ اور سالانہ تقریبا 14 لاکھ 40 ہزار یونٹ بجلی سولر سے حاصل کی جا رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بل کی مد میں ماہانہ 54 لاکھ روپے سے زائد بچت ہو رہی ہے۔ ایک میگا واٹ کا سولر انرجی یونٹ لگانے پر آنے والی ان کی لاگت بھی پوری ہو چکی ہے۔
"میں تو چاہتا ہوں کہ اپنی فیکٹری کو مکمل طور پر سولر انرجی پر منتقل کر دوں لیکن فیکٹری کی چھت پر مزید سولر پینل رکھنے کی جگہ ہی نہیں بچی"۔
سولر انرجی استعمال کرنے سے نہ صرف جنریٹر پر آنے والے اضافی اخراجات، لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات مل جاتی ہے بلکہ یہ ماحول دوست بھی ہے۔
پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل عزیز اللہ گوہیر نے لوک سجاگ کو بتایا، تقریبا ایک دہائی سے کپڑے کی صنعت کو فراہم کیے جانے والے انرجی ٹیرف میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں یہ صنعت دیگر ایشیائی ممالک سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
"انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت دنیا بھر میں بجلی کا ریٹ سات سینٹ سے زیادہ نہیں ہے جبکہ پاکستان میں بجلی 15 سینٹ پر فراہم کی جا رہی ہے"۔
پاکستان میں صنعتوں کے مارک اپ کی شرح بھی 22 سے25 فیصد کے درمیان ہے جو دنیا بھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
"ان حالات میں ایک ہی راستہ بچا ہے کہ یہ صنعت توانائی کے لیے سولر انرجی پر منتقل ہو جائے تاکہ اپنی پیداواری لاگت کو کم کر سکے۔ لیکن بڑے پیمانے پر سولر انرجی پراجیکٹ لگانے پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے، اسی لیے چھوٹی یا درمیانے درجے کی ٹیکسٹائل ملز کے مالکان چاہ کر بھی اس پر منتقل نہیں ہو پاتے"۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت بجلی کے نئے پیداواری منصوبے لگانے کی بجائے اگر انڈسٹری، کمرشل اور گھریلو صارفین کو سولر انرجی پر منتقل ہونے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے تو بجلی کی قیمت کم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔
"فیصل آباد میں پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ بن رہی ہے، اسی طرح کھرڑیانوالہ میں بھی بہت سی انڈسٹری لگی ہوئی ہے۔ اگر ان مقامات پر سولر پارکس بنا دیئے جائیں تو انڈسٹری کو سستی بجلی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد میں تقریبا دس سے پندرہ فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری جزوی طور پر سولر انرجی پر منتقل ہو چکی ہے۔
"سولر انرجی کا زیادہ استعمال سٹچنگ یونٹس، دفاتر اور دیگر ایسے شعبہ جات میں ہوتا ہے جہاں بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے، ہیوی لوڈ کی بڑی مشینیں چلانے کے لیے انڈسٹری کو اب بھی گرڈ سے حاصل ہونے والی بجلی پر انحصار کرنا پڑتا ہے"۔
فیصل آباد ماسٹر پلان 2041-21ء کے مطابق پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 70 فیصد کے قریب ہے جو مجموعی برآمدات کا 68 فیصد ہے جبکہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ٹیکسٹائل برآمدات میں حصہ 45 فیصد سے زائد ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے پی ایچ ڈی سکالر حیدر علی کی طرف سے فیصل آباد کی 125 ٹیکسٹائل ملوں پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق بجلی کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں 23 تا 65 فیصد تک جبکہ دس گھنٹے کی شفٹ میں 21 تا 60 فیصد تک پیداواری نقصان ہوتا ہے۔
تاہم پیٹرولیم مصنوعات اور گیس و بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے توانائی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں سولر انرجی کے استعمال میں گزشتہ چند سالوں کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاورریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) کے مطابق فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) کو جنوری 2024 میں مختلف صنعتی اداروں میں لگنے والے سولر انرجی پراجیکٹس کے لیے نیٹ میٹرنگ کی 50 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
2021-22ء کے دوران فیسکو نے 558 اداروں کو نیٹ میٹرنگ کے لائسنس جاری کیے ہیں۔ یہ سب مل کر 26.62 میگاواٹ بجلی سولر انرجی سے پیدا کر رہے ہیں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران انڈسٹری کی جانب سے بجلی کی تقیسم کار کمپنیوں سے حاصل کی جانے والی بجلی کے حجم میں 37 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
حکومت پاکستان اور ورلڈ بینک کے اشتراک سے 2018ء میں تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے صرف 0.071 فیصد رقبے پر سولر پینل لگا کر ملک کی بجلی کی مجموعی طلب کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان 2030ء تک سولر اور ونڈ انرجی کے استعمال میں کم ازکم 30 تک اضافہ کر کے اگلے 20 سال میں پانچ ارب ڈالر کے برابر ایندھن کی بچت کرنے کے علاوہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لا سکتا ہے۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو 2030 تک تقریباً 24 ہزار میگاواٹ سولر اور ونڈ انرجی پراجیکٹ لگانے کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں نصب شدہ سولر انرجی پراجیکٹس کی مجموعی پیداوار 1500 میگاواٹ تک محدود ہے۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے رکن محمد شاہد کی کمپنی سلیک سولرز گزشتہ دس سال سے صنعتی و کمرشل اداروں اور گھریلو صارفین کو خدمات فراہم کر رہی ہے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا اس وقت پاکستان میں سولر انرجی کی طلب انتہائی کم تھی لیکن پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سولر انرجی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن اب بھی پاکستان میں سول انرجی کا استعمال اس کی استعداد سے کہیں کم ہے۔
’’فیصل آباد ٹیکسٹائل انڈسٹری کا گڑھ ہے لیکن وہاں ابھی تک صرف پانچ سے دس فیصد ملز ہی سولر پر منتقل ہوئی ہیں"۔
اب تو سولر پینلز کی قیمتیں بھی کم کی جا رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پر منتقل ہو سکیں۔
محمد شاہد نے مزید بتایا کہ گزشتہ سال سولر پینلز کی فی واٹ قیمت 130 سے 140 روپے کے درمیان تھی جو چند ہفتے قبل کم ہو کر 30 سے 40 روپے پر آ گئی تھی اور اب دوبارہ بڑھ کر 50 سے 55 روپے کے درمیان ہو گئی ہے۔
اس وقت ہر فیکٹری مالک، کاروباری ادارے اور گھریلو صارف کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ گرمیوں کا آغاز ہونے سے قبل سولر پینل لگوا لیے جائیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں سولر پینلز کی ڈیمانڈ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
فیصل آباد میں 50 فیصد ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو گئے، ملک کی سب سے بڑی صنعت میں لاکھوں لوگوں کے روزگار کو خطرہ
"ہم نے حال ہی میں فیصل آباد کے ایک بڑے ٹیکسٹائل ایکسپورٹر کے ساتھ آٹھ میگاواٹ کا سولر پراجیکٹ لگانے کا معاہدہ کیا ہے۔ ان میں سے تین میگا واٹ فائبر یونٹ، تین میگاواٹ ویونگ یونٹ اور دو میگاواٹ کا پراجیکٹ پروسیسنگ یونٹ میں لگایا جائے گا اور یہ فیصل آباد کی تاریخ میں سب سے بڑا سولر انرجی پراجیکٹ ہو گا"۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت سولر پینلز کی درآمد میں حائل رکاوٹیں اور فیسکو کی جانب سے گرین میٹر لگانے کا طریقہ کار آسان بنا دے تو سولر انرجی کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔
زیادہ تر سولر پینلز چین سے ہی درآمد کئے جا رہے ہیں اور مقامی سطح پر ان کی تیاری اس لحاظ سے قابل عمل نہیں ہے کہ پاکستان میں انرجی کاسٹ، خام مال اور لیبر مہنگی ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے صدر عامر چوہدری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پاکستان کی سولر انرجی ڈیمانڈ میں گزشتہ ایک سال کے دوران تقریبا 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
"گزشتہ پانچ سال کے دوران مجموعی طور پر سات ہزار میگاواٹ سے زائد کے سولر پینل درآمد کئے گئے تھے۔ ان میں سے نصف درآمدات صرف گزشتہ ایک سال میں ہوئی ہیں"۔
سال 2014ء تک ملک میں متبادل اور قابل تجدید توانائی کا شیئر ایک فیصد سے بھی کم تھا جو کہ گزشتہ سال تک بڑھ کر سات فیصد ہو چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں سولر انرجی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے 2016ء سے درآمدی فیول پر چلنے والے پاور پراجیکٹس کے قیام پر پابندی یعنی ماری ٹوریم نافذ کر رکھا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کے گرین کلائمٹ فنڈ 2022ء کے تعاون سے صنعتی اداروں کو سولر پینل لگانے کے لئے چھ فیصد مارک اپ پر رعائتی قرضے فراہم کرنے کا آغاز کیا تھا۔
اس پروگرام کی مجموعی مالیت 54 ملین ڈالر ہے جس کے تحت آٹھ لاکھ 48 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت 50 سے 200 کلوواٹ تک کے سولر انرجی پراجیکٹ لگانے کے لیے ایک ہزار 175 صنعتی اداروں کو 74 ارب روپے مالیت کے قرضے جاری کیے جا چکے ہیں۔
تاریخ اشاعت 13 فروری 2024