خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک مون سون کی بارشوں میں اکثر سیلابی پانی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، پہاڑوں سے آتے پانچ بڑے نالے یا چھوٹے دریا جنہیں مقامی زبان میں رود کوہی کہا جاتا ہے اور درجنوں چھوٹے نالے سال کا بیشتر حصہ یہاں بہتے ہیں۔ مون سون میں پانی کی بڑھتی سطح سیلاب اور طغیانی کا باعث بنتی ہے اور مقامی آبادی کو گھروں کے انہدام اور فصلوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عارضی طور پر لوگ بے گھر بھی ہو جاتے ہیں۔
2010 کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی ابتدا خیبر پختونخوا کے ان جنوبی اضلاع میں ہی ہوئی تھی جب ٹانک کے نواحی علاقوں جیسے پائیں، نندور اور ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پُروا میں سیلابی ریلے دیہات میں داخل ہوئے۔ اس سے پائیں کے علاقے میں دو افراد جاں بحق ہوئے اور 370 مکانات منہدم ہوگئے تھے، زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچا اور لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔
ملک بھر کی طرح یہاں بھی سیلاب آتا ہے تو سیاسی نمائندوں کی جانب سے "ڈیم بناؤ" کی نعرے بازی شروع ہوجاتی ہے اور اس مرتبہ بھی یہی کچھ ہوا۔ صوبے میں 2013 سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا نعرہ تھا کہ وہ سیکڑوں چھوٹے ڈیم بنائیں گے اور گزشتہ سیلاب میں بھی یہی نعرہ لگا۔
پچھلے سال دسمبر میں صوبائی حکومت کے حوالے سے خبر آئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع میں بڑے نالوں (زام) ٹانک زام، درابن زام اور چودوان زام پر تین ڈیم بنائے جائیں گے، اس سے پہلے صوبائی وزیر بلدیات و دیہی ترقی فیصل امین گنڈاپور بھی ضلع ٹانک میں غوزئی ڈیم پر عملی کام کے آغاز کا مژدہ سنا چکے تھے۔
ٹانک زام ڈیم کا منصوبہ
ٹانک زام ڈیم جوکہ پہلے سے تعمیر شدہ گومل زام ڈیم سے کئی درجے بڑا اور مفید ڈیم ہے، اس کی پہلی فیزبیلٹی رپورٹ 1988میں بنائی گئی تھی۔ اُس وقت ڈیم کی لاگت کا تخمینہ پانچ ارب روپے بتایا گیا جبکہ 2007 میں یہ لاگت 10 ارب تک پہنچ گئی۔ ٹانک زام ڈیم کو شہر سے 50کلو میٹر دور ہنس تنگی کے مقام پر بنانےکی تجویز سامنے آئی۔
مارچ 2022 میں اس ڈیم کی انجینئرنگ کنسلٹنسی سروسز کیلئے خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ سمال ڈیمز ایریگیشن اور نیس پاک (NESPAK) کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے تحت نیس پاک نے اس ڈیم کی فیزیبلٹی سٹڈی اپ ڈیٹ کرنے، انجینیئرنگ سروسز، تفصیلی ڈیزائن اور نئے پی سی ون کی تیاری سمیت دیگر امور انجام دینا تھے جبکہ ن اس پراجیکٹ کا تخمینہ 18 ارب روپے لگایا گیا۔
تکنیکی تفصیلات کے مطابق، ٹانک زام ڈیم میں 345000 ایریا فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش ہوگی، جس سے 70 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی اور25.5 میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جا سکے گی، ساتھ ہی اس سے زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی جو مجموعی طور پر اس علاقے میں پانی کی کمی کی صورتحال میں بہتری کا سبب بنے گی۔
ڈیم کی تعمیر پر تحفظات
ٹانک اتحاد کے صدر و سماجی شخصیت حاجی زمان بیٹنی ٹانک زام ڈیم کی تعمیر کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے علاقے میں معاشی ترقی اور زراعت کو فروغ حاصل ہو گا۔
ان کا یہ بھی ہے کہ ہر سال سیلاب سے کروڑوں روپے کا مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ ٹانک زام ڈیم کی تعمیر سیلاب کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہوگی جبکہ ڈیم کی تعمیر سے زیر زمین پانی کا لیول اونچا اور قابل استعمال ہو جائے گا اور اس سے آبنوشی کے مسئلے پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے گا۔
ڈیم کیلئے جگہ کے انتخاب پر تحفظات بیان کرتے ہوئے جنڈولہ سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سماجی رہنما رفعت اللہ المعروف پتو لالا بیٹنی کہتے ہیں کہ جنڈولہ کے عوام ڈیم کے تعمیر کے مخالف نہیں، لیکن اسے جس مقام پر تعمیر کیا جا رہا ہے اس پر انہیں اعتراضات ہیں کیونکہ مجوزہ مقام پر تعمیر سے جنڈولہ کی آبادی بری طرح متاثر ہوگی۔
"ڈیم کی تعمیر سے جنڈولہ کے علاقے خرگی،کڑی وام اور گرنی سمیت مین وزیرستان شاہراہ متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ چار قدیمی قبرستان بھی اس کی زد میں آئیں گے۔"
ان کا ہے کہ جنڈولہ کے لوگ اس ڈیم کو موجودہ مقام ہنس تنگی پر کسی صورت تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔
ٹانک زام ڈیم کیلئےنیسپاک کے پراجیکٹ مینیجر حامد مسعود قریشی کہتے ہیں کہ مذکورہ جگہ متنازع ہونے کی وجہ سے ٹانک زام ڈیم کا کام فیزیبلٹی سٹڈی سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ جب تک یہ تنازعہ ختم نہیں ہوگا، اس وقت تک دوبارہ پی سی ون نہیں بنایا جائے گا نہ ہی عملی کام کا آغاز ہوسکے گا۔
ٹانک کے ڈپٹی کمشنر محمد شعیب خان سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جنڈولہ کی آبادی ڈیم بنانے کی مخالف نہیں، بس ان کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
چھوٹے ڈیمز: کوہلو کی زرعی امیدوں پر موسمیاتی تباہی نے پانی پھیر دیا
مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ اس ڈیم کی مقررہ جگہ پر تعمیر سے ان کی زیادہ آبادی متاثر ہوگی، جبکہ ان کے قدیم قبرستان جس میں ان کے اباؤ اجداد دفن ہیں، وہ بھی ختم ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ اس ڈیم میں مقامی آبادی کے بجائے غیر مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے گا۔ مقامی آبادی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ٹانک زام ڈیم انہیں 24گھنٹے مفت بجلی فراہم کی جائے اور اس کا تحریری معاہدہ ہو۔
ڈپٹی کمشنر شعیب خان نے مزید بتایا کہ جنڈولہ کے مشران سے دو مرتبہ اس حوالے سے مقامی روایات کے مطابق جرگہ بھی ہوا ہے اور انشاء اللہ جلد ان کے خدشات دور کر دیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کڑی وام کے مقام پر ایک اور جگہ تجویز کی گئی ہے اور امید ہے اس حوالے سے نیسپاک کی ٹیم جلد ٹانک کا دورہ کرے گی۔
تاریخ اشاعت 30 جون 2023