45 سالہ اسماعیل کمہار بچے کی پیدائش کے لیے اپنی حاملہ اہلیہ کو تین روز قبل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ٹنڈو محمد خان لائے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیوی کو داخل کرنے کے بعد مجھے خون کا بندوبست کرنے کا کہا گیا۔ وہ ہوا تو بتایا گیا کہ اسے نجی میمن ہسپتال میں رکھوا دو کیونکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں خون کو محفوظ رکھنے کا انتظام نہیں ہے۔ دوسرے روز ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے آپریشن کا سامان لکھ کر دیا اور کہا کہ نجی میمن میڈیکل سٹور سے لے آؤ۔ ادویات کی خریداری کے علاوہ بھی اخراجات ہوئے۔
ٹنڈو محمد خان سے 30 کلومیٹر دور بلڑی شاہ کریم میں سندھ آبادگار شوگر ملز کے پاس رہنے والے اسماعیل کا کہنا ہے کہ ہم غریب لوگ مفت علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں آتے ہیں مگر اخراجات نجی ہسپتال جیسے ہوتے ہیں اور خواری الگ ہوتی ہے۔
2023ء کی آدم شماری کے مطابق حیدر آباد سے الگ کیے جانے والے ضلعے ٹنڈو محمد خان کی آبادی سات لاکھ 26 ہزار ایک سو 19 ہے۔ ٹنڈو محمد خان شہر سوا لاکھ نفوس پر مشتمل ہے مگر اس میں واقع ضلع کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں خون محفوظ رکھنے کی بھی سہولت نہیں۔
ٹنڈو محمد خان کے صحافی اور روزنامہ عبرت کے ڈسٹرکٹ رپورٹر 50 سالہ ذوالفقار چانڈیو کہتے ہیں کہ عدم توجہی کے سبب ہسپتال کا ایکسرے سیکشن بند ہے اور ایکسرے ٹیکنیشن کی تقرری نہیں ہوئی۔ لیبارٹری ٹیکنیشن نہ ہونے سے ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسے خطرناک امراض کے پی سی آر اور دیگر ٹیسٹس نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا کہ بلب اور پنکھوں کی قلت کے باعث مریض عموماً کم روشنی اور گرمی کی شکایت کرتے ہیں۔
ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق 60 بیڈز کے اس ہسپتال میں روزانہ 25 سو سے تین ہزار مریض او پی ڈی میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ جولائی 2022ء سے جون 2023ء تک تین لاکھ چھ ہزار 975 مریض علاج کے لیے ہسپتال کی او پی ڈی آئے۔ ہسپتال میں بچوں کے لیے صرف 14 بیڈ ہیں۔ نیوٹریشن کے وارڈ میں بھی 14 بیڈ ہیں۔ عورتوں کے لیے 22 اور مردوں کے لیے 10 بیڈ ہیں۔
ہسپتال ریکارڈ کے مطابق اس میں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور لوئر سٹاف کی 468 پوسٹس رکھی گئی ہیں لیکن 155 پر سٹاف خدمت انجام دے رہا ہے، باقی 313 پوسٹس خالی ہیں۔
امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر، سینیئر ڈینٹل سرجن، ای این ٹی سپیشلسٹ، فیمیل سرجن، فزیشن اور اے ایم ایس کی تقرری نہ ہونے سے مریض علاج کے لیے دوسرے شہروں میں جانے پر مجبور ہیں۔
ہسپتال کی صفائی کے لیے سویپرز کی 28 نشستوں ہیں مگر صرف چھ پر تعیناتیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ہسپتال میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔
ہسپتال میں مریضوں کے زیراستعمال بیڈشیٹس اور سٹاف کے خصوص لباس کی دھلائی کے لیے دھوبی کا تقرر نہیں ہوا لہٰذا باہر سے دھلائی کروائی جاتی ہے۔ ہسپتال میں الیکٹریشن کی پوسٹ 18 سال سے کسی کی راہ تک رہی ہے۔
ادویات کی خریداری کے لیے سالانہ نو کروڑ روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود مریضوں کو شکایت رہتی ہے کہ انہیں نجی میڈیکل سٹورز سے انہیں خریدنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'ہسپتال ہے مگر علاج نہیں'، تھرپارکر کے باسی ٹی ایچ کیو اسلام کوٹ سے مایوس
ٹنڈو محمد خان شہر کے 22 سالہ نوجوان اویس احمد نے بتایا کہ میرا چچا شوگر کا مریض ہے لیکن اس ہسپتال میں انسولین موجود نہیں۔ خارش کی ادویہ باہر سے خریدنے کے لیے لکھ کر دی ہیں۔ ہسپتال کے سٹور سے ایک طاقت کی گولی اور ایک اینٹی بائیوٹک کیپسول ہی دیا گیا ہے۔
سماجی کارکن 32 سالہ ونود کمار میگھواڑ کا کہنا تھا کہ ہسپتال کو اعلان کی حد تک ڈی ایچ کیو بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ تعلقہ/تحصیل ہسپتال تھی۔ اس میں اس وقت بھی عملہ پورا نہیں تھا۔ اسی کو ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال بنا دیا گیا ہے۔
رابطہ کرنے پر ٹنڈو محمد خان کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر یوسف جھیجو نے تسلیم کیا کہ ہمارے پاس لیبارٹری اور ایکسرے کے ٹیکنیشن کی تقرری نہیں ہوئی۔
"ہم ہفتے میں تین دن ماتلی سے ایکسرے ٹیکنیشن کو بلاتے ہیں جو آ کر مریضوں کےایکسرے کرتا ہے لیکن باقی تین دن مریضوں کو پریشانی ہوتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت سندھ کو لکھا ہے کہ ہسپتال میں فزیشن نہیں ہے، امراض قلب کا سپیشلسٹ نہیں، ای این ٹی اور جلد کے بھی سپیشلسٹ نہیں۔ ان کے مطابق حکومت جیسے ہی تعیناتیاں کرے گی صورت حال میں بہتری آ جائے گی۔
تاریخ اشاعت 30 اکتوبر 2023