'اگر حکومت علاقے سے صرف سیلابی پانی کو ہی نکال دے تو بہت سے مسائل دور ہو جائیں گے'

postImg

مومل زیدی

postImg

'اگر حکومت علاقے سے صرف سیلابی پانی کو ہی نکال دے تو بہت سے مسائل دور ہو جائیں گے'

مومل زیدی

سعیدہ تالپور کا گھرانہ سیلاب میں تو کسی نہ کسی طرح جان بچانے میں کامیاب رہا لیکن اب اس آفت کے بعد پھیلنے والی بیماریوں اور زندگی کی بحالی کے مسائل نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ وہ سندھ کے ضلع خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی میں سیلابی پانی سے گھرے اپنے گھر میں شوہر اور تین بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔

تالپور وڈا نامی اس علاقے میں اب بھی کئی فٹ پانی جمع ہے جو ناصرف نقل و حرکت میں رکاوٹ ہے بلکہ علاقے میں کئی طرح کی بیماریاں بھی پھیلا رہا ہے۔ 

کمزور جسم، پیلی رنگت اور دھنسے گالوں والی تیس سالہ سعیدہ کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کا کمسن بیٹا بھی کئی ہفتوں سے بخار اور کمردرد میں مبتلا ہے اور علاج معالجے تک مناسب رسائی نہ ہونے کے باعث اس کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ 

سعیدہ کے شوہر دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں اور کام کے سلسلے میں اکثر گھر سے باہر رہتے ہیں۔ سعیدہ کے پاس نہ تو بچے کا علاج کرانے کے لیے کوئی مالی وسائل ہیں اور نہ ہی ان میں سیلابی پانی کو پار کر کے کسی دوسرے شہر جانے اور بچے کا طبی معائنہ کرانے کی سکت ہے۔ سردی بڑھنے کے ساتھ انہیں خوراک اور حرارت کا انتظام کرنے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ بجلی اور گیس کی سہولت نہ ہونے کے باعث ان کا انحصار لکڑیوں کی آگ پر ہے جبکہ سیلابی علاقے میں خشک لکڑی ڈھونڈنا بجائے خود ایک جوکھم ہے۔

جولائی اور اگست میں ہونے والی شدید بارشوں کے بعد جب اس علاقے میں سیلاب آیا تو بہت سے لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ جگہوں پر چلے گئے۔ سعیدہ اور ان کے شوہر نے اس امید پر اپنے گھر میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا کہ سیلاب جلد گزر جائے گا لیکن پانی کم ہونے کے بجائے بڑھتا رہا جس سے بچنے کے لیے انہوں نے گھر کی چھت پر پناہ لے لی۔ ان کے مویشی سیلاب کے پہلے ہی ریلے میں بہہ گئے تھے اور مالی وسائل نہ ہونے کے باعث ان کے لیے کسی اور جگہ جا کر رہنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم منہ زور پانی نے انہیں بھی گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ 

سعیدہ کا گھرانہ محفوظ جگہ کی تلاش میں نکلا تو اس وقت رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ اس دوران علاقے کی مرکزی سڑک تک پہنچنے کی کوشش میں وہ شوہر سے بچھڑ گئیں۔ اس وقت سعیدہ کے دو کمسن بیٹے ان کے ساتھ تھے جبکہ چھوٹی بیٹی کو ان کے شوہر نے اٹھا رکھا تھا۔ وہ کسی طور جان بچا کر بیٹوں کے ہمراہ ایک محفوظ علاقے میں پہنچ گئیں لیکن ان کے شوہر اور بیٹی کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔

سعیدہ دو ماہ ان کی جدائی میں نڈھال رہیں یہاں تک کہ ایک دن اچانک دونوں ان سے آن ملے۔ اس موقع پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا تاہم اب انہیں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ زندگی کو آگے کیسے بڑھایا جائے کیونکہ عارضی پناہ گاہوں میں زیادہ دیر رہنا ممکن نہیں تھا اور کسی اور جگہ زندگی شروع کرنے کے لیے مالی وسائل درکار تھے جبکہ ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی تھی۔ چنانچہ سیلاب کا زور ٹوٹنے پر یہ لوگ اپنے گھر واپس آ گئے۔ 

تاہم تقریباً دو کنال کا یہ گھر اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ سیلابی پانی نے اس کے زیادہ تر حصے کو قابل استعمال نہیں چھوڑا اور وہ اس میں آٹھ فٹ چوڑے اور چودہ فٹ لمبے ایک کمرے میں اپنے تینوں بچوں کے ساتھ رہتی ہیں جس کی تین دیواریں ہی سلامت ہیں۔ سعیدہ کو خدشہ ہے کہ سردی کے موسم میں ان کے بچے بیمار پڑ سکتے ہیں کیونکہ یہ جگہ انہیں موسمی سختی سے بچانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ 

سیلاب کے بعد گھر کے اردگرد تین سے چار فٹ تک پانی جمع ہے جسے نکالنے کے لیے انتظامیہ نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس علاقے میں تقریباً تمام گھروں کی کم و بیش یہی حالت ہے اور ان کے مکینوں کو کہیں آنے جانے کے لیے سیلابی پانی سے گزرنا پڑتا ہے یا کشتی کا انتظام کرنا ہوتا ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ 

مسلسل پانی جمع رہنے کے باعث اس علاقے کی زمین دلدلی ہو گئی ہے جس میں مچھلیاں، مینڈک اور آبی حشرات بھی پائے جاتے ہیں۔ سعیدہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر کے قریب پانی میں سانپ بھی دیکھے گئے ہیں۔ چار مہینوں سے جمع اس پانی میں کئی طرح کی بیماریوں کے جراثیم بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ غذائی قلت اور بیماریوں کے باعث اس علاقے میں لوگوں کی قوت مدافعت اب پہلے جیسی نہیں رہی اس لیے یہ پانی ان کی صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔

9500 نفوس پر مشمل اس آبادی میں سیلاب کے بعد بجلی اور گیس کی فراہمی بحال نہیں ہو سکی اور اس کا فوری امکان بھی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس سے پہلے یہاں سے پانی نکالنا ضروری ہے۔ مقامی لوگوں کو ایندھن کے لیے لکڑیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن ہر جگہ سیلابی پانی کھڑا ہونے کے باعث خشک لکڑی ملنا بھی دشوار ہے۔

سعیدہ کا کہنا ہے کہ کھانا بنانے کے لیے انہیں لکڑی ڈھونڈنے میں سارا دن لگ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ صاف پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ گھر کے اردگرد سیلابی پانی سے روزانہ مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آوازیں آتی رہتی ہیں جس سے ان کے بچے رات کو سکون کی نیند نہیں سو سکتے۔

سعیدہ کو یہاں رہتے ہوئے جلد کے مسائل بھی لاحق ہو گئے جس کا سبب وہ سیلابی پانی کو قرار دیتی ہیں کیونکہ نکاسی آب کا نظام تباہ ہو جانے کے باعث کھڑے پانے کے علاوہ زیرزمین پانی میں بھی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ہر گھر میں جلدی بیماری پائی جاتی ہے اور بچے خاص طور پر اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ سعیدہ کو خدشہ ہے کہ اگر علاقے میں ڈینگی اور ملیریا پھیل گیا تو ان کے بچوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔

سیلاب کو چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اس علاقے میں پانی اترنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے پہل لوگوں کا خیال تھا کہ انتظامیہ ان کی مدد کو آئے گی لیکن تباہی کی وسعت اور حجم بہت زیادہ ہونے کے باعث مستقبل قریب میں تالپور وڈا اور اس جیسے ہزاروں دیہات میں زندگی معمول پر آتی دکھائی نہیں دیتی۔ سعیدہ اپنی زندگی کی بحالی کے لیے حکومت سے زیادہ توقع نہیں رکھتیں تاہم ان کا مطالبہ ہے کہ اگر اس علاقے سے سیلابی پانی کو ہی دور کر دیا جائے تو تب بھی ان کے بہت سے مسائل دور ہو جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 15 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مومل زیدی سُجاگ میں بطور وڈیو جرنلسٹ کام کرتی ہیں۔ سماجی مسائل خصوصا خواتین کے مسائل کی رپورٹنگ اور وڈیو ڈاکو مینٹری ان کے کام کا حصہ ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.