ٹھٹہ، بدین میں سورج مُکھی کا غروب: بیج ڈالروں میں خریدو، فصل روپوں میں بیچو

postImg

اشفاق لغاری

postImg

ٹھٹہ، بدین میں سورج مُکھی کا غروب: بیج ڈالروں میں خریدو، فصل روپوں میں بیچو

اشفاق لغاری

آفتاب احمد بگھیو ہر سال ایک سو ایکڑ رقبے پر سورج مُکھی کاشت کرتے ہیں لیکن اس بار وہ صرف 30 ایکڑ رقبے پر ہی یہ فصل لگا سکے تو انہوں نے باقی 70 ایکڑ پر سرسوں کاشت کر دی۔

آفتاب بگھیو کا تعلق سندھ کے زیریں ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی سے ہےجو سورج مُکھی کی وسیع کاشت کے حوالے سے ملک بھر میں سرِ فہرست ہے۔

پاکستان میں سورج مُکھی کے زیر کاشت کل رقبے کا ایک تہائی حصہ صرف ضلع بدین میں ہے اور اگر اس کے پڑوسی ضلع ٹھٹہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ دونوں اضلاع سورج مُکھی کی کُل ملکی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ پیدا کرتے ہیں۔

2020-21 میں پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ رقبے پر سورج مُکھی کاشت ہوئی تھی جس میں سے 56 ہزار ایکڑ بدین اور 36 ہزار ایکڑ ٹھٹہ میں تھے۔

ضلع بدین کے گاؤں غلام محمد فاروقی کے محمد صالح قمبرانی صوبائی محکمہ زراعت (توسیع) میں 34 سال کام کرنے کے بعد حال ہی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے ضلع میں سورج مُکھی کے زیر کاشت رقبے میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

محمد صالح خود بھی کاشت کار ہیں اور انہوں نے بھی اس سال 18 ایکڑ پر سورج مُکھی اور 10 ایکڑ پر کنکی (گندم) کے ساتھ سرسوں لگائی ہے۔ ان کا کہنا ہے: "سورج مُکھی کا بیج بڑا مسئلہ ہے۔ ایک تو معیاری بیج ملتا نہیں، اگر ملے تو بلیک پر مہنگے دام۔"

انہوں نے بتایا کہ سورج مُکھی کا بیج آسٹریلیا، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ سے درآمد ہوتا ہے۔ اس بار ڈالر کی قیمت بڑھنے اور حکومت کی طرف سے درآمد پر قدغنیں لگائے جانے کی وجہ سے یہ وقت پر دستیاب نہیں ہو سکا اور جو ملا وہ ڈیلروں نے بلیک میں مہنگے داموں فروخت کیا۔

آفتاب بگھیو نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی کمپنی کے ہائے سن-39 نامی بیج کے 15 کلو گرام کے بیگ کی قیمت 70 ہزار روپے تھی لیکن وہ ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔ ایک اور ہائبرڈ بیج یو ایس 666 کا بیگ 37 ہزار روپے کے بجائے 80 ہزار روپے میں کسانوں کو ملا۔

<p>ضلع بدین اور ٹھٹہ سورج مُکھی کی کُل ملکی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ پیدا کرتے ہیں<br></p>

ضلع بدین اور ٹھٹہ سورج مُکھی کی کُل ملکی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ پیدا کرتے ہیں

محکمہ زراعت سندھ کے توسیع ونگ کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل علی نواز چنڑ صوبے میں سورج مُکھی کے رقبے میں کمی کو سندھ حکومت کی جانب سے ان کسانوں کو مراعات نہ دیے جانے سے بھی جوڑتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بیج بہت مہنگے تھے اور سیلاب کی وجہ سے کسانوں کی معاشی حالت پہلے سے بھی کمزور تھی اس لیے وہ بیج خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔

مہنگا ڈالر اور بندرگاہ پر رکے کنٹینر

تحصیل گولاڑچی میں پچھلے دس سال سے بیج فروخت کرنے والے ڈیلر یاسر سومرو کہتے ہیں کہ اس بار جب نومبر، دسمبر میں سندھ میں سورج مُکھی کی ربیع کی فصل کاشت ہو رہی تھی تو مارکیٹ میں بیج دستیاب نہیں تھے کیونکہ حکومت نے بیجوں کے کنٹینرز کراچی بندرگاہ پر ان لوڈ نہیں ہونے دیے۔ پھر جب کچھ کنٹینرز کھلے تو ڈالر کا ریٹ آسمان کو چھو رہا تھا۔ "ڈیلروں نے کمپنیوں سے جس بیج کی بکنگ 40 ہزار میں کی تھی وہ انہیں 90 ہزار روپے کا ملا۔"

عمر سِیڈ اینڈ ایگری سروسز کمپنی سورج مُکھی کے ہائبرڈ بیج درآمد کرتی ہے اور اس کا یو ایس 666 نامی بیج کافی مقدار میں لگایا جاتا ہے۔ کمپنی کے جنرل مینجر طارق عباس بھی یہی کہتے ہیں کہ جب فصل کاشت کرنے کا وقت تھا تو ان کا مال کچھ دیر بندر گاہ پر رکا رہا اور انھوں نے باہر کی کمپنیوں سے جس قیمت پر بکنگ کرائی تھی ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

طارق عباس کے بقول ان کی کمپنی کا بیج تو مطلوبہ مقدار میں درآمد ہو چکا ہے اور سندھ میں بڑے پیمانے پر لگایا بھی گیا ہے لیکن بیج کی قلت اس لیے ہوئی کہ مارکیٹ میں سب سے زیادہ شیئر رکھنے والی کمپنی 'آئی سی آئی'  کے کنٹینرز کافی عرصے تک رکے رہے۔

سورج مُکھی کا بیج باہر سے کیوں منگوانا پڑتا ہے؟

فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد اعظم خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پاکستان کو سورج مُکھی کے لگ بھگ چھ لاکھ کلوگرام (چھ سو میٹرک ٹن) بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ "ہماری بدقسمتی ہے کہ اس کا سارا بیج ہی باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ ریسرچ کے مقامی اداروں نے چند ہائبرڈ بیج متعارف ضرور کروائے ہیں لیکن ہائبرڈ بیجوں میں خود کفالت کے حوالہ سے ان کا کردار کچھ نمایاں نہیں رہا۔

نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے پرنسپل سائنٹیفک آفیسر نزاکت نواز کا خیال ہے کہ کوئی اچھا ہائبرڈ بیج تیار نہ کیے جانے کی وجہ وسائل اور تکنیکی مہارت میں کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ بیج کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے ہر سال بنانا پڑتا ہے جس کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر پاکستان کی آب و ہوا بھی اس کے لیے کچھ زیادہ موافق نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سورج مُکھی کراس پولینٹ فصل ہے جس میں ایک پودے کے نر اور دوسرے کے مادے کا ملاپ شہد کی مکھیوں اور دوسرے حشرات یا پرندوں کی مدد سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب ہائبرڈ بیج بنایا جاتا ہے تو اس کے قریب دوسری فصلیں نہیں ہونی چاہئیں ورنہ پولینشن کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

<p>سورج مکھی کے مقابلے میں سرسوں کی فصل پر خرچ بھی کم آتا ہے اور منافع بھی زیادہ ہے<br></p>

سورج مکھی کے مقابلے میں سرسوں کی فصل پر خرچ بھی کم آتا ہے اور منافع بھی زیادہ ہے

محکمہ زراعت سندھ کے ماتحت کام کرنے والے ایگریکلچر ریسرچ انسٹیوٹ ٹنڈو جام کے تیلدار بیجوں کے سیکشن کے ڈائریکٹر منصف قیصرانی بتاتے ہیں کہ 1974ء میں مقامی طور پر ایک اچھا نان ہائبرڈ بیج HO-1 کے نام سے لایا گیا تھا جو ایک ایکڑ سے 20 من تک پیداوار دیتا تھا مگر اسے سات ایکڑ سے زیادہ زمین پر اکٹھا نہیں لگایا جا سکتا تھا کیونکہ اس سے اس کی پولی نیشن کا عمل متاثر ہو جاتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ، پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے ساتھ مل کر سورج مُکھی کے بیج پر تحقیق کر رہا ہے اور امید ہے کہ آئندہ چار سے پانچ سالوں میں نیا بیج متعارف کر دیا جائے گا۔

کیا سرسوں سورج مُکھی کی جگہ لے  لے گی؟

زرعی سائنسدانوں کے مطابق سورج مُکھی کے پھول میں تیل دار بیج کے پیدا ہونے کے وقت اگر درجہ حرارت مناسب نہ ہو تو بیجوں کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔بدین کے کسانوں کو اندیشہ تھا کہ سورج مُکھی کی کاشت میں تاخیر کی وجہ سے پیداوار متاثر ہو گی اسی لیے انہوں نے سورج مُکھی کا رقبہ کم کر کے باقی پر سرسوں کاشت کر دی۔

آفتاب بگھیو کہتے ہیں کہ سرسوں کی کاشت پر سورج مُکھی کے مقابلے میں کم اخراجات آتے ہیں اور اس کا بیج بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ اور اس مرتبہ سرسوں کا ریٹ بھی بہت اچھا ہے اسی لیے انہوں نے سورج مکھی کا رقبہ 70 ایکڑ کم کر کے اس پر سرسوں کاشت کی ہے۔

منصف قیصرانی کہتے ہیں کہ 2020ء میں ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ سندھ کی جانب سے سرسوں کی دو اقسام - مہران رایا اور سندھ رایا - متعارف کروائی گئی تھیں جو 120 دن میں تیار ہو جاتی ہیں اور پیداوار بھی 25 سے 30 من تک فی ایکڑ ہوتی ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تیل کی مقدار بھی زیادہ ہے۔

منصف قیصرانی کا خیال ہے کہ اس مرتبہ سندھ میں سرسوں کی فصل پہلے سے زیادہ کاشت ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

جعلی بیجوں کی تیاری اور فروخت: 'حکومت معیار کی جانچ اور نگرانی کا کوئی موثر نظام بنا ہی نہیں سکی'۔

سندھ آبادگار بورڈ کے 65 سالہ نائب صدر سید ندیم شاہ ترقی پسند (کاشت کاری میں نت نئے تجربات کرنے والے) کسان ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ رواں سال سندھ میں دو لاکھ ایکڑ پر سرسوں کاشت کی گئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس سال انہوں نے ضلع سجاول میں اپنی 80 ایکڑ زمین پر سرسوں لگائی ہے جبکہ اس سے پہلے انہوں نے یہ کبھی دس ایکڑ سے زیادہ پر نہیں لگائی تھی۔

وہ کہتے ہیں: "سورج مُکھی لگانا ہماری مجبوری ہے سجاول، بدین اور ٹھٹہ میں جہاں ساریالے (چاول) کی فصل کاشت ہوتی ہے وہاں اس کے بعد سورج مُکھی لگائی جاتی ہے کیونکہ یہ سندھ کے ساحلی علاقے میں اچھی ہوتی ہے۔"

لیکن اس بار سرسوں کی قیمت میں اضافے نے صورت حال کو بدل دیا۔ ندیم شاہ کہتے ہیں: "سرسوں گذشتہ سال پانچ سے آٹھ ہزار روپے من تک بکی۔ رواں ماہ (فروری) میں اس کی قیمت دس سے گیارہ ہزار تک چلی گئی ہے۔ جب کہ سورج مُکھی بھی نو سے دس ہزار روپے من ہے۔ لیکن سورج مُکھی کے مقابلے میں سرسوں پر اٹھنے والے اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔"

لیکن سندھ کے محکمہ کراپ رپورٹنگ سروس کے اعداد و شمار ندیم شاہ کے دعویٰ کے تائید نہیں کرتے۔ اس محکمہ کے مطابق رواں سال سندھ میں سرسوں ایک لاکھ 31 ہزار ایک سو ایکڑ رقبے پر کاشت ہوئی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 3 ہزار ایک سو 27 ایکڑ زیادہ ہے۔

تاریخ اشاعت 27 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.