کوئٹہ: تعمیراتی انڈسٹری کی بنیاد 'سٹون کرشنگ پلانٹس' کے مزدور کس حال میں ہیں؟

postImg

شاہ زیب رضا

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کوئٹہ: تعمیراتی انڈسٹری کی بنیاد 'سٹون کرشنگ پلانٹس' کے مزدور کس حال میں ہیں؟

شاہ زیب رضا

loop

انگریزی میں پڑھیں

محمد قاسم قلعہ عبداللہ کے رہائشی ہیں اور گھر کے قریب واقع سٹون کرشنگ پلانٹ پر کام کرتے ہیں۔ جہاں سے انہیں ساڑھے پینتس ہزار روپے ماہانہ اجرت ملتی ہے۔ ان کے چار بچے ہیں اور خاندان کی کفالت انہیں کی ذمہ داری ہے۔

چند ماہ قبل وہ پھیپھڑوں کے کینسر مبتلا ہو گئے تھے۔ کوئٹہ کے سینار (سنٹر فار نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیالوجی) کینسر ہسپتال میں ان کا علاج ہوتا رہا اور صحت بحال ہوتے ہی کام پر واپس آ گئے ہیں۔

'سٹون کرشر' صرف ایک یونٹ ہی نہیں ہوتا بلکہ پہاڑ کو بارود سے توڑ کر وہاں سے پتھر بھی لایا جاتا ہے۔ پتھر کو پلانٹ پر کرش کر کے بجری یا دوسرا بلڈنگ مٹیریل بنایا جاتا ہے۔ اس لیے اسے سرفیس مائننگ بھی کہا جاتا ہے۔

پینتیس سالہ محمد قاسم بتاتے ہیں کہ پھیپھڑے کی بیماری سے پہلے وہ سائٹ پر کئی بار حادثوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل دھماکے کے بعد پتھر لگنے سے وہ اور ان کے دو ساتھی مزدور شدید زخمی ہو گئے تھے۔ خوش قسمتی سے وہ تو جلدی صحت یاب ہو گئے مگر ان کے دوست ابھی تک زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

"سٹون کرشنگ ایک کٹھن اور جان لیوا کام ہے مگر ان کا معاوضہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسرا اس خطرناک مائننگ سے ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ مزدور بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور کمپنیاں صرف حادثہ پیش آنے کی صورت میں ان کا علاج کراتی ہیں"۔

محکمہ معدنیات کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ میں 12 اور بلوچستان بھر میں لگ بھگ 240 سٹون کرشنگ پلانٹس کام کر رہے ہیں۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ بلوچستان کے پاس ان یونٹس میں کام کر نے والے چھ ہزار سے زائد مزدوروں کی رجسڑیشن کرائی گئی ہے۔

 کرشنگ یونٹس کی رجسٹریشن انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی اجازت کے بعد مائنز ایکٹ 1923ء کے تحت ہوتی ہے۔ ان یونٹس کو جگہ اور لیز محکمہ معدنیات دیتا ہے۔ تاہم ان کی نگرانی ای پی اے کرتی ہے۔

 سینار کینسر ہسپتال کوئٹہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خوش نصیب احمد بتاتے ہیں کہ پچھلے ایک سال میں یہاں پھیپھڑوں کے کینسر کے 171 مریض لائے گئے جن میں 112 مائن ورکرز شامل تھے۔

"جب مزدوروں کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تو کمپنیو ں نے اخراجات ادا کرنے سے معذرت کر لی، پھر یہ اخراجات حکومت کو اٹھانا پڑے"۔

وہ کہتے ہیں کہ پھیپھڑوں کا کینسر دھول، مٹی اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سٹون کرشنگ اور دھماکوں سے اٹھنے والے ذرات ماحول کو خراب کر دیتے ہیں۔ یہی آلودگی مزدوروں اور شہریوں میں بیماریاں کا باعث بنتی ہے۔

ڈاکٹر خوش نصیب کا کہنا ہے کہ مائننگ کرنے والے ورکرز میں سے کسی کی بھی لائف انشورنس نہیں ہوتی نہ ہی کان کنوں کے لیے مناسب حفاظتی تدابیر کی جاتی ہیں۔

"مائن ورکز کے ہیلمٹ اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ پتھر کا پریشر یا زیادہ وزن برداشت کر سکیں۔ اس لیے انہیں اکثر اوقات سر پر گہری چوٹیں آتی ہیں اور دماغ کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔"

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق جون 2022ء سے جون 2023ء تک بلوچستان کول مائنز کے حادثات میں 71 کان کن جاں بحق اور 25 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم کمیشن کی رپورٹ میں سرفیس مائننگ کا احاطہ نہیں کیا گیا۔

محکمہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ مزدوروں کا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ بورڈ کی پالیسی کے مطابق کرشنگ یونٹ پر حادثے میں وفات کی صورت میں کارکن کے اہل خانہ کو پانچ لاکھ امداد فراہم کی جاتی ہے اور بیٹی کی شادی کے لیے مزدوروں کو ایک لاکھ تک کی میرج گرانٹ ملتی ہے۔

پالیسی کے تحت زمین پر(سرفیس مائننگ) یا زیر زمین کام کرنے والے کان کنوں کے بچوں کو ایک ہزار 600 سو سے ساڑھے چھ ہزار روپے تک تعلیمی گرانٹ دی جاتی ہے۔ اس طرح بچوں کے انجینئرنگ/ میڈیکل کالجز کے اخراجات بھی صوبائی حکومت برداشت کرتی ہے۔

تاہم بلوچستان لیبر فیڈریشن کے رہنما عابد بٹ، محکمہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے دعوؤں پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبے میں پالیسیاں اور قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

"حکومت مزدوروں کو کوئی امداد نہیں دیتی، نہ ہی ان کی حفاظت اور صحت سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل کراتی ہے۔ وہ بیمار ہو جائیں تب بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ البتہ حادثے میں  مرنے کی گرانٹ پر عمل ہو جاتا ہے۔"

مائن کمپنی میں بطور منیجر کام کرنے والے بشیر احمد کا بھی یہی خیال ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ سٹون کرشنگ میں حکومت کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ ان کے پاس 350 مزدور کام کر رہے ہیں۔ تمام کی ٹرانسپورٹ اور ہیلتھ انشورنس سب کمپنی کی ذمہ داری ہے۔

محمد قاسم گریجویٹ ہیں اور وہ سات سال سے سرفیس مائننگ کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سٹون کرشنگ تعمیراتی شعبے کی بنیاد ہے۔ یہ کام جتنا مشکل ہے اتنا ہی اس کو کرانے والے یعنی کمپنیاں اور حکومت غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں۔

 " ادارے اپنے اپنے دھندوں میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں ماحول کی تباہی کا احساس ہی نہیں ہے۔ لوگ کینسر جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر کرشنگ کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی لائیں اور کارکنوں کو تربیت دیں تو محنت کش طبقے اور ماحول کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔"

 کچھ عرصہ قبل کوئٹہ شہر اور نواح میں سرفیس مائننگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر یہاں 34 کرشنگ پلانٹس سیل کر دیئے گئے ہیں۔ ان کمپنیوں کی لیز بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اب ای پی اے کی کلیئرنس کے بعد مائننگ کی اجازت دی جائے گی۔

بلوچستان انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی میں ڈائریکٹر آف کلائمیٹ چینج اینڈ انفورسمنٹ غلام مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ یہاں کاربن اور سٹون کرشنگ کی گرد سے زیادہ نقصان ہو رہا تھا۔ کوئٹہ اور ملحقہ علاقوں میں فضائی آلودگی بڑھ رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'ہاتھ پاؤں سلامت ہیں تو کان کن قیمتی، معذور ہو جائے تو کوئی پوچھتا بھی نہیں'

وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوئٹہ میں کرشنگ پلانٹس سیل ہو چکے ہیں۔ اب محکمہ معدنیات کی نئی پالیسی کے تحت تین علاقوں کو کرشنگ کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ جہاں پلانٹس شفٹ ہوں گے اور یہ کام جلد شروع کر دیا جائے گا۔

غلام مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ تُربت میں 13، پنجگور میں چھ اور گوادر میں آٹھ کرشنگ پلانٹ ہیں۔ نہ صرف کوئٹہ کے تمام 34 پلانٹس بلکہ مکران میں بھی بہت سے کرشنگ پلانٹس کو بند کرایا گیا ہے۔ وہاں پلانٹس نے ای پی اے کا این او سی نہیں لیا تھا۔

بشیر احمد اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سرفیس مائننگ آبادی کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ ہزار گنجی میں ان کی ایک مائن کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم بقول ان کے اس میں کمپنی کا کوئی قصور نہیں تھا۔

"دس سال پہلے پہاڑ شہر سے دور تھا مگر آبادیاں اب پہاڑوں کے پاس آ گئی ہیں"۔

وہ  کہتے ہیں کہ ان کے پاس کام کرنے والے مزدور زیر زمین اور سرفیس مائننگ دونوں کام اپنی مہارت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

"اگرچہ ورکرز کے پاس ہیلمٹ، جیکٹس اور لائف سیونگ کٹ موجود ہیں۔ تاہم حفاظتی آلات کی فراہمی حکومتی مدد کے بغیر ناممکن ہے"۔

تاریخ اشاعت 27 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سید شاہ زیب رضا نے شعبہ صحافت میں بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ہے۔ وہ گزشتہ 2 سالوں سے ملکی و غیر ملکی اداروں کیلئے مختلف موضوعات پر رپورٹ کررہے ہیں۔

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- رومانہ بشیر

آنند کارج شادی ایکٹ: کیا سکھ برادری کے بنیادی حقوق کو تحفظ مل جائے گا؟

پنجاب: سکھ میرج ایکٹ، آغاز سے نفاذ تک

thumb
سٹوری

"ستھرا پنجاب" کے ورکروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا ذمہ دار کون ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ

سندھ: 'سب کچھ ثابت کر سکتے مگر اپنی بیوی کا شوہر ہونا ثابت نہیں کر سکے'

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

نمائندے ووٹ لے کر اسمبلی پہنچ جاتے ہیں، اقلیت راہ دیکھتی رہتی ہے

سندھ: ہندو میرج ایکٹ تو پاس ہو گیا مگر پنڈتوں کی رجسٹریشن کب ہو گی؟ نکاح نامہ کب تیار ہو گا؟

thumb
سٹوری

آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 4، وسیم نذیر

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 3، طلحہ سعید

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 2، میاں سلطان محمود

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.