"مبارک ہو بیٹا ہوا ہے!" یہ الفاظ کہتے ہوئے نرس کے چہرے پر سنجیدگی طاری تھی۔
بچے کے والد شعیب احمد وہیں موجود تھے۔ انہوں نے بچے کو گود میں لیا تو انہیں اس کی کمر پر ابھار محسوس ہوا۔ شعیب نے تولیہ ہٹا کر دیکھا تو بچے کی کمر پر بڑا سا پھوڑا رس رہا تھا۔
چھ جنوری 2023ء کو پیدا ہونے والا یہ بچہ شعیب اور اسما کا پہلا بچہ ہے۔شعیب باورچی ہیں اور ایک شادی ہال میں ملازمت کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ان کی شادی اپنی خالہ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔دوران حمل وہ اہلیہ کی دیکھ بھال کے لیے پرائیویٹ ہسپتال کی نرس سے رہنمائی لیتے رہے تھے۔
شعیب ضلع رحیم یار خان کے قصبے کوٹ سمابہ میں رہتے ہیں۔ قصبے کے ڈاکٹر نے انہیں بچے کو شہر کے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا تو وہ اسے لے کر رحیم یار خان کے شیخ زید میڈیکل ہسپتال لے آئے۔اس وقت بچے کی عمر 20 دن تھی۔
ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ بچے کو پیدائشی کمر کے پھوڑے کی خطرناک بیماری لاحق ہے جسے طبی زبان میں سپائنا بائیفڈا کہا جاتا ہے۔
"ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ پھوڑے کا سائز کافی بڑا ہے، اس حالت میں آپریشن کرنے سے بچے کی جان کو خطرہ ہے۔ اس لیے ابھی کچھ عرصہ بچے کو وارڈ میں رکھ کر معائنہ جاری رکھا جائے گا جس کے بعد آپریشن کیا جائے گا"۔
رحیم یار خان میں سپائنا بائیفڈا کا مرض زیادہ کیوں؟
شیخ زید ہسپتال میں بچوں کے سرجن پروفیسر ڈاکٹر جام مظہر نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 50 ہزار بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ جنوبی پنجاب اور خاص طور پر ضلع رحیم یار خان میں ان کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ڈاکٹر سید آصف شاہ بھی اسی ہسپتال میں بچوں کے سرجن اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس ہسپتال میں سال 2022ء میں سپائنا بائیفڈا کے دو سو 80 مریض بچوں کی سرجری کی گئی۔
ہسپتال میں بچوں کی جراحی کے شعبے کے رجسٹرار ڈاکٹر عظیم احمد نے بتایا کہ ان کا شعبہ ہفتے میں تین دن آؤٹ ڈور میں مریضوں کا چیک اپ کرتا ہے اور ان تین دنوں میں جن ڈھائی سو سے زائد مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے ان میں 8 سے 10 بچے پیدائشی کمر کے پھوڑے کے مریض ہوتے ہیں۔ کچھ مریض علاج کے لئے داخل ہو جاتے ہیں اور کچھ دوائی لکھوا کر چلے جاتے ہیں۔ "یہاں اس مرض کے اوسطاً پانچ سے چھ آپریشن ہر ہفتے ہوتے ہیں"۔
ان کے مطابق تحصیل صادق آباد کے قصبہ جمال دین والی، قصبہ احمد پور لمہ اور چوک بہادر پور سے سپائنا بائیفڈا کے کیسز ضلع کے دیگر دیہی علاقوں سے نسبتاً زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں جن کی تعداد ہر ہفتے میں دو سے تین ہوتی ہے۔
جنرل آف دی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے والیم 65 میں شائع ہونے والے ایک مطالعہ کے مطابق رحیم یارخان میں ہر ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں سے سات سے آٹھ بچوں میں نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ ہوتا ہے اور ان میں سے 29 فیصد سپائنا بائیفڈا کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ مرض رحیم یار خان کے ان علاقوں میں ہی زیادہ کیوں ہے؟ ماہرین کے پاس اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں۔ وہ سب بس ان عوامل کی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں جنہیں اس مرض کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
سپائنا بائیفڈا ہوتا کیا ہے؟
ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹر صاحبان بتاتے ہیں کہ یہ ایک پیدائشی نقص ہے جو دوران حمل ریڑھ کی ہڈی ٹھیک سے نہ بننے کے باعث ہوتا ہے۔ سپائنا بائیفڈا نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ کی ایک قسم ہے۔ ان بچوں میں اعصابی نظام عام طور پر پیدائش کے بعد خراب ہو جاتا ہے۔ جلد کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ انہیں ٹانگوں کے فالج جیسے مسائل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
سپائنا بائیفڈا کا مریض زیادہ سے زیادہ 20 سال تک زندہ رہتا ہے وہ بھی اگر پھوڑے کا سائز چھوٹا ہو وگرنہ زندگی اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ یہ مرض پیدائشی ہی ہوتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد لاحق نہیں ہوتا۔
کئی ممالک میں حمل کے دوران بچے میں سپائنا بائیفڈا کی تشخیص ہو جائے تو اسقاط حمل کروا دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے۔
یہ مرض کیوں ہوتا ہے؟
ماہرین سپائنا بائیفڈا کے لاحق ہونے کی حتمی وجہ کا تعین تو نہیں کر سکے لیکن وہ ان عوامل کی نشاندہی یقین کے ساتھ کرتے ہیں جن کی وجہ سے اس بیماری کے ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف شاہ بتاتے ہیں کہ ان عوامل میں سر فہرست حمل کے پہلے تین ماہ میں فولک ایسڈ (آئرن یا فولاد) کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ کزن میریج کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں بھی اس بیماری کے کیسز زیادہ پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹروں کا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ شہری علاقوں میں سپائنا بائیفڈا کے کیسز کم ہیں لیکن دیہی علاقوں میں کیسز بڑھ رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے مریضوں کی اکثریت کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال 50 ہزار بچے سپائنا بائیفڈا مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں
ڈاکٹر عظیم کے مطابق معاشی لحاظ سے مضبوط خاندان جن کا کھانا پینا اچھا ہو، جنہیں پھل، دودھ، گوشت، انڈوں جیسی صحت بخش غذائیں میسر ہوں ان میں آئرن کی کمی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ "غریب کے لئے تو دو وقت کی سادہ روٹی بھی مشکل ہوتی ہے، ان کی خواتین کی خوراک کم اور غیر متوازن ہوتی ہے اور وہ مشقت والے کام زیادہ کرتی ہیں۔ ان میں آئرن کی کمی زیادہ ہوتی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ پہلے حمل کے دوران بہت سی مائیں آئرن کی گولیاں یا آئرن والی غذائیں استعمال نہیں کر رہی ہوتیں جبکہ ان کے جسم میں پہلے ہی اس کی کمی ہوتی ہے۔ ایسی ماؤں میں اس مرض کے بچے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان ماؤں میں بھی اس بیماری کو زیادہ دیکھا گیا ہے جو بار بار بچے جنم دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں میں ایڈز کا پھیلاؤ:'میں نہیں جانتی کہ اپنی بیٹی کی جان کیسے بچاؤں'۔
ڈاکٹر آصف شاہ نے بتایا کہ جو ماں پیدائشی کمر کے پھوڑے والے بچے کو جنم دیتی ہے اگر اسے اگلے حمل کے دوران آئرن کا استعمال کروائیں تو اسے دوبارہ اس کا مریض بچہ ہونے کے امکان نصف رہ جاتے ہیں۔
اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر عظیم کا کہنا ہے کہ فولک ایسڈ کی گولیاں سستی ہوتی ہیں اور ہر کوئی باآسانی خرید سکتا ہے۔ فولک ایسڈ کی ایک گولی حمل کے پہلے تین ماہ میں روزانہ استعمال کر لی جائے تو یہ آئرن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس سے سپائنا بائیفڈا سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر آصف شاہ مرض کی روک تھام کے لئے حاملہ خواتین کے لیے آئرن کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال بھی اس ہسپتال میں بچوں کے سینیئر سرجن ہیں وہ چاہتے ہیں ان مریض بچوں کے علاج کی سہولت کو بہتر بنانے کے لیے ہسپتال میں ایک بہت اچھی کوالٹی کا انٹینسو کیئر یونٹ(آئی سی یو) ہونا چاہیے اور یہاں ایک پیڈیاٹرک لیپروسکوپ کی بھی اشد ضرورت ہے۔
تاریخ اشاعت 4 فروری 2023