تریسٹھ سالہ لال بخش، بکر گوٹھ کے رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے لوہار(حَداد، مقامی نام) ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر کے ساتھ ہی ایک سائبان کے نیچے اپنی ورکشاپ/ بھٹی بنا رکھی ہے۔
یہ جس گاؤں میں رہتے ہیں وہ تحصیل جاھو میں واقع ہے۔ جاھو ضلع آواران کا شہر ہے۔
لال بخش سورج نکلتے ہی اپنے اس ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اکیلے کام نہیں کرتے بلکہ ان کے دونوں بیٹے وسیم اور مہیم بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ آج کام کا بوجھ ذرا کم تھا اس لیے وسیم نہیں آئے۔ لال بخش نے مہیم کو کام سونپا اور خود مزری کی چٹائی بنانے میں مصروف ہو گئے۔
مہیم نے بھٹی پر کوئلہ رکھنے کے بعد اسےآگ دکھائی، سولر پینلز کی تاریں موٹر کے ساتھ جوڑتے ہی پنکھا چلنا شروع ہو گیا۔
مہیم بتاتے ہیں کہ پہلے بھٹی کا پنکھا ہاتھ سے چلایا جاتا تھا اور پورا دن ایک آدمی مسلسل اس خاص قسم کے پنکھے کا ہینڈل گھماتا رہتا تھا۔ لیکن اب اس فرد کی جگہ برقی پنکھے نے لے لی ہے جو شمسی توانائی سے چلتا ہے۔
"ہاتھ کے پنکھے سے ہمیں ایک اوزار تیار کرنے میں کئی گھنٹے لگتے تھے لیکن سولر نے یہ مشکل آسان کر دی ہے۔ لوگوں کی ڈیمانڈز وقت پر پوری ہو جاتی ہیں اور ہماری آمدن میں بھی اضافہ ہو ا ہے۔"
کچھ عرصہ پہلے تک لال بخش نہیں جانتے تھے کہ بھٹی کا پنکھا سولر انرجی کے ذریعے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن انہیں کسی کام کے سلسلے میں آواران شہر جانا پڑا جہاں ان کی نظر اپنے ہم پیشہ کاریگر پر پڑی جو اپنی ورکشاپ میں شمسی توانائی استعمال کر رہے تھے۔
"اسی روز ہم نے سولر پلیٹ (پینل) اور چھوٹی سی موٹر والا پنکھا خرید لیا، واپس آ کر ہینڈل کی جگہ اسے لگایا اور کام شروع کر دیا۔ جب پنکھا چلنے لگا تو سب حیران رہ گئے۔ پھر ہماری دیکھا دیکھی آس پاس کے کاریگروں نے بھی یہی طریقہ کار اپنانا شروع کر دیا۔"
اسی اثنا میں بھٹی پر پڑےکوئلے انگاروں میں تبدیل ہوگئے۔ مہیم نے دہکتے انگاروں پر لوہا رکھ دیا اور پنکھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " دیکھ رہے ہیں؟ جس تیزی سےیہ چل رہا ہے اس رفتار سے ہینڈل کے ذریعے ہوا دینا ممکن نہیں تھا۔"
کچھ ہی دیر میں لوہا گرم ہوکر سرخ ہو چکا تھا، مہیم نے اسے ہتھوڑے سے چوٹیں لگاتے ہوئے درانتی کی شکل دینا شروع کر دی۔
"سولر پلیٹیں ہمارے لیے بہت بڑی سہولت لے آئی ہیں بلکہ یوں کہیں کہ ہمارا اب مکمل طور پر انحصار سولر پر ہی ہو گیا ہے۔ پہلے سست رفتاری کے باعث ہم خراب موسم اور رات میں بھی کام کرتے رہتے تھے مگر اب شام ہوتے ہی کام بند کر دیتے ہیں۔"
سولر ٹیکنالوجی نے صرف لال بخش ہی نہیں بلوچستان کے سیکڑوں ہنرمندوں، کاریگروں، ٹیکنشنز اور محنت کشوں کے روزگار میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔
چونتیس سالہ زاہد حسین، تحصیل جاھو کے گوٹھ(گاؤں) دمب علی محمد میں نو سال سےاپنی ٹیلرنگ شاپ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے درزی کا کام لیاری (کراچی) میں قیام کے دوران اپنے رشتے داروں سے سیکھا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ کراچی سے واپس آئے تو ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ بازار میں دکان کرائے پر لے کر اپنا کام شروع کرتے۔ اس لیے انہوں نے گاؤں میں ہی ٹیلرنگ شاپ کھولنے کا فیصلہ کیا۔
"یہاں بجلی نہیں تھی اس لیے میں نے پیڈل والی سلائی مشین خرید کر کام کا آغاز کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد میرے چھوٹے بھائی ریاض میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ تاہم 2018ء میں جب ہم نے دکان پر سولر پینل لگائے تو عبدالوحید (کاریگر) کو بھی ساتھ شامل کر لیا۔"
سولر لگانے کا خیال کیسے آیا؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ اسے اتفاق کہہ لیں، ایک روز ان کا یہاں سے بیلہ (80 کلو میٹر دور ضلع لسبیلہ کا شہر) جانا ہوا۔
"وہاں میری نظر ایک ٹیلر ماسٹر (درزی) پر پڑی جو سلائی مشینیں سولر سسٹم پر چلا رہے تھے۔ میں نے ان سے معلومات لیں، سیدھا کراچی چلا گیا اور وہیں سے سولر پینل خرید کر گاؤں واپس آیا۔ دکان پر سسٹم لگانے کے بعد سلائی مشینوں سے پیڈل ہٹا کر ان کی جگہ موٹریں نصب کر دیں۔"
زاہد بتاتے ہیں کہ پہلے ان کی دکان میں پورے دن میں بمشکل دو جوڑے کپڑے سلتے تھے لیکن سولر انرجی کے حصول کے بعد سیزن (عیدین پر ) میں وہ آٹھ آٹھ جوڑے روزانہ تیار کرتے رہے ہیں۔
"بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہم شام ہوتے ہی دکان بند کر دیتے تھے مگر سولر کے ساتھ بیٹری لگانے سے لائٹ کا بھی بندوبست ہو گیا ہے۔ اب ہم رات گئے تک کام کر سکتے ہیں۔"
واجہ باغ بازار، جاھو کے بیچوں بیچ شبیر لطیف کی 'سولر الیکٹرک شاپ 'ہے جہاں گاہکوں کی بڑی تعداد جمع رہتی ہے۔ کوئی سولر پلیٹ ٹھیک کرانے آیا ہے تو کسی کا سمر سیبل پمپ یا موبائل فون خراب ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ دکان ان کے والد عبدالطیف نے بنائی تھی جو ریڈیو، ٹیپ اور گھڑیوں وغیرہ کی مرمت کرتے تھے۔ لیکن سولر ٹیکنالوجی آنے سے یہ 'الیکٹرک شاپ' میں تبدیل ہو گئی ہے جسے انہوں (والد) نے ان کے حوالے کر دیا۔
شبیر لطیف، کاویہ (ٹانکا لگانے والا اوزار) اٹھاتے ہیں اور سولر پلیٹ کے بورڈ کو ٹانکا لگاتے ہوئے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں۔
"پہلے ٹانکا لگانے میں گھنٹہ لگ جاتاتھا۔ کاویہ گرم کرنے کا کام ابتدا میں تیل والے اسٹوپ (چولہا) اور پھر گیس سلنڈر سے لیا جاتا تھا جس پر کاویہ گرم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ اب وہی ٹانکا منٹوں میں لگ جاتا ہےاور یہ سارا کمال سولر کا ہے۔"
وہ بتاتے ہیں کہ سولر سسٹم آنے سے انہوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع خیبر: ڈوبتی ہوئی زراعت کو سولر سسٹم کا سہارا
"صرف کام میں آسانی نہیں ہوئی ہماری آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ پنکھے اور لائٹنگ جو اس وقت نظر آ رہی ہے یہ سب سہولتیں ہمارے تصور میں بھی نہیں تھیں۔"
انہوں نے بتایا کہ اپنا سارا سسٹم چلانے کے لیے انہوں نے 580 واٹ کا صرف ایک سولر پینل، 200 ایمپیئر کی دو بیٹریاں، کنٹرولر اور ایک چھوٹا انورٹر لگایا ہوا ہے جس پر 80 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ یہ سسٹم انہیں 24 گھنٹے بجلی دیتا ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں اور اسی سے ہی ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔
مرید حسین جنہیں ان کے ساتھی مزدور پیار سے بابل پکارتے ہیں۔ وہ جاھو کے شمالی علاقہ پیلار میں سکول کی عمارت تعمیر کرنے کے لیے اینٹوں کی ترائی میں مصروف تھے۔ انہوں نے دیگر مزدوروں کے ساتھ مل کر ٹھیکیدار سے یہ کام (پیٹی ٹھیکہ) لیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پانی کا حصول مشکل تھا انہیں ہزار روپے کا واٹر ٹینکر منگوانا پڑتا تھا یوں مہینے میں پانی پر ہی 30 ہزار روپے کا خرچہ آتا تھا۔
"ہم نے پیسے جمع کر کے ایک سولر پلیٹ، بیٹری، سمر سیبل پمپ اور پائپ خرید لیا ہے اور اب کنویں سے پانی لے رہے ہیں جو یہاں سے 15 سو فٹ دور ہے۔ اس سے ہمارا کام آسان ہو گیا ہے۔ نہ صرف ٹینکر کا خرچہ بچ جاتا ہے بلکہ رات کی لائٹنگ کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے۔"
تاریخ اشاعت 25 جولائی 2024