اس سال اپریل میں پنجاب اور اسلام آباد میں طوفانی ژالہ باری نے سولر سسٹم کی ایک کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔ اس قدرتی آفت نے سسٹم کے ایک اہم جزو یعنی سولر پینلز کو ناکارہ کر کے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
برطانوی انرجی تھنک ٹینک ایمبر کے گلوبل الیکٹریسٹی ریویو 2025ء کے مطابق پاکستان نے پچھلے مالی سال (2024ء) کے دوران 17 گیگا واٹ کپیسٹی کے پینلز درآمد کیے جو گزشتہ سے پیوستہ سال کے 5 گیگا واٹ سے 227 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ انتہائی تیز رفتار اضافہ ہے۔ اگر ایک پینل کو 550 واٹ کا مان لیا جائے تو ان دو سالوں میں پاکستان چار کروڑ پینل درآمد کر چکا ہے۔
آئندہ 15 سے 20 سال کے دوران جب ان پینلز کی عمر پوری ہو جائے گی تو یہ کوڑے کے ایک بہت بڑے ڈھیر میں تبدیل ہو جائیں گے۔
سولر پینلز کے بعد اب لیتھیم بیٹریوں کے استعمال میں اضافہ بھی اسی ہوشربا رفتار سے ہونا شروع ہو چکا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اور فنانشل اینالیسز کے مطابق پاکستان نے پچھلے سال تقریباً 1,250 میگا واٹ آور لیتھیم آئن بیٹری پیک درآمد کیے جبکہ رواں سال کے پہلے دو ماہ میں ہی مزید 400 میگا واٹ آور بیٹریاں آئی ہیں۔
یعنی پاکستان نے 14 ماہ میں تقریباً 1.65 گیگا واٹ آور لیتھیم آئن بیٹری سٹوریج کی صلاحیت درآمد کی ہے۔ ان کی عمر پانچ سے دس سال ہوتی ہے گویا یہ پینلز سے پہلے ناکارہ ہوکر کباڑ کا حصہ بننا شروع ہو جائیں گی۔
شاید یہی مناسب وقت ہے یہ سوال اٹھانے کا کہ ہم سولر کچرے کا کیا کریں گے؟ کیا ماحول دوست توانائی کا یہ ذریعہ ایک نئے ماحولیاتی مسئلے کو جنم دے دے گا؟

پاکستان میں قیمتی نایاب دھاتوں کے 'بڑھتے ہوئے ذخائر'
سولر پینل یا فوٹووولٹک (پی وی) پینل شیشے، سلیکان سیلز، پلاسٹک بیک شیٹ اور ایلومینیم فریم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں چاندی اور تانبے جیسی دھاتیں بھی تھوڑی مقدار میں موجود ہوتی ہیں جو بجلی کی ترسیل کا کام کرتی ہیں۔
سید قمر مہدی سولر سسٹمز کی تنصیب کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینل ناکارہ ہو کر جب کباڑیوں کے پاس جاتے ہیں تو ان سے شیشہ اور ایلومینیم الگ کر لیے جاتے ہیں۔
ایلومینیم تو باآسانی ری سائیکل کر لیا جاتا ہے اور شیشہ بھی کہیں نہ کہیں دوبارہ کھپ جاتا ہے۔ تاہم انہیں نہیں معلوم کہ پاکستان میں سلیکان اور دیگر دھاتیں نکالنے کا کہیں کوئی نظام موجود ہے یا نہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ زیادہ تر کرسٹلائن پی وی ماڈیولز (پینلز) میں سیسہ اور کیڈمیم بھی تھوڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ ناکارہ پینلز کو اگر عام کچرے میں پھینک دیا جائے تو بھاری دھاتیں زیرزمین پانی میں شامل ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہنے سے توانائی کا یہ ماحول دوست ذریعہ بجائے خود ایک نئے ماحولیاتی خطرے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
لیتھیم آئن بیٹریوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں قمر مہدی کا خیال ہے کہ چین میں اب ان سے زیادہ بہتر کارکردگی والی سوڈیم آئن اور لیتھیم فاسفیٹ بیٹریوں کی تیاری اور کھپت بڑھ رہی ہے۔ اس سے لیتھیم آئن بیٹریاں سستی ہوگئی ہیں جو اب پاکستان میں بڑے پیمانے پر درآمد کی جا رہی ہیں۔
ان بیٹریوں میں لیتھیم، نکل، کوبالٹ، گریفائٹ وغیرہ خاصی مقدار میں ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی تقریباً تمام ہی مصنوعات میں یہ عناصر ضرور استعمال ہوتے ہیں۔ امریکہ اور چین ان صنعتوں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان عناصر کی مسلسل اور مستقل فراہمی کو یقینی بنانا ان کی پالیسیوں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ ان عناصر کی اپنی قدر اور مسابقت کے اس ماحول نے استعمال شدہ بیٹریوں سے ان کو بازیافت کروانے کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دی ہے۔

بیٹری ری سائیکلنگ: عالمی صنعت کا موجودہ حجم 13 ارب ڈالر ہے
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق دنیا میں 2040ء تک لیتھیم کی طلب میں چھ گنا اضافے کی توقع ہے۔ دنیا بھر میں سائنسدان اور ری سائیکلنگ ماہرین استعمال شدہ بیٹریوں سے کمیاب مواد واپس نکالنے پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور اب تک ری سائیکلنگ کے ایسے جدید طریقے بنا لئے گئے ہیں جن سے پرانی بیٹریوں میں موجود لیتھیم، نکل، کوبالٹ اور گریفائٹ جیسی اہم دھاتوں کا 95 فیصد حصہ دوبارہ نکالا جا سکتا ہے۔
امریکہ میں لیتھیم بیٹری ری سائیکل کرنے والی سب سے بڑی کمپنی 'ریڈ ووڈ میٹریل' کہتی ہے کہ دونوں اہم دھاتیں یعنی لیتھیم اور نکل لامحدود بار ری سائیکل کی جا سکتی ہیں۔
ایک تخمینے کے مطابق لیتھیم بیٹری کو ری سائیکل کرنے کی عالمی مارکیٹ کا موجودہ حجم 13 ارب ڈالر ہے جو 2034ء تک 98 ارب ڈالر سے بھی بڑھ جائے گا۔
پاکستان اپنی تمام بیٹریاں درآمد کرتا ہے۔ اگر استعمال شدہ بیٹریوں سے قیمتی دھاتیں نکالنے کی صنعت قائم ہو جائے تو یہ نہ صرف ایک منڈلاتے ہوئے ماحولیاتی خطرے کو ٹال سکتی ہے بلکہ اسے ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمٰن چیمہ محقق ہیں اور ماحولیات پر لکھتے بھی رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں ابھی تک لیتھیم بیٹریوں کو ری سائیکل کرنے والی کوئی فیکٹری نہیں دیکھی جو ایک بڑا خلا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اس جانب بروقت توجہ دینی چاہیے اور ایسی پالیسیاں بنانی چاہیں کہ ری سائیکلنگ انڈسٹری میں لوگ سرمایہ کاری کریں۔ یہ ایک معاشی موقع کے ساتھ ساتھ زمین اور پانی کی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

لیتھیم بیٹریوں کی ری سائیکلنگ: پرکشش اور پرخطر
لیتھیم بیٹری کو ری سائیکل کرنا معاشی طور پر پرُکشش تو ہے لیکن یہ عمل آسان ہرگز نہیں بلکہ انتہائی پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ غیر محتاط طریقوں سے اسے کرنا نہ صرف کام کرنے والوں کی صحت کے لئے مضر اور جان لیوا ہو سکتا ہے بلکہ ماحول کے لئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر عاکف خان جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں میٹریل سائنٹسٹ ہیں، لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ان بیٹریوں کو ری سائیکل کرنے کا ایک اجمالی احوال یوں بیان کیا:
"پہلے بیٹری کو مکمل طور پر ڈسچارج کرنا پڑتا ہے وگرنہ اسے آگ لگ سکتی ہے۔ لیتھیم خود بھی آتشگیر ہوتا ہے اور ہوا میں موجود نمی بھی اسے آگ لگا سکتی ہے۔ پھر بیٹری میں جو الیکٹرولائیٹس ہوتے ہیں وہ بہت زہریلے بھی ہوتے ہیں اور تیزی سے ہوا میں تحلیل بھی ہو سکتے ہیں۔ انہیں نکالنے کا کام انتہائی احتیاط طلب ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ بیٹری میں مقید عناصر کو علیحدہ علیحدہ بازیاب کروانے کا کام بہت پیچیدہ ہوتا ہے اور یہ اس عمل کے ماہرین کی رہنمائی میں اس کام کے لئے بنے مخصوص اوزاروں کے بنا ممکن نہیں ہو سکتا۔"
لیتھیم آئن بیٹریوں کی غیر محتاط تلفی سے ماحولیاتی خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ ان بیٹریوں میں لیتھیم کے علاوہ کوبالٹ، مینگنیز اور نکل شامل ہوتے ہیں جو زمین اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی بیٹریاں شارٹ سرکٹ سے لینڈفل سائٹس یا کچرے کے ڈھیروں میں آگ لگنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ پاکستان میں موبائل فونز سے نکلی بیکار لیتھیم بیٹریوں کی ری سائیکلنگ کی بھی کوئی باقاعدہ صنعت موجود نہیں ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ لیتھیم بچوں میں سانس کی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ پانی میں اس کی زیادہ مقدار سنگین بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی 2022ء میں یورپی کیمیکلز ایجنسی نے یورپی کمیشن کو سفارش کی تھی کہ لیتھیم کے تین مرکبات کو انسانی صحت کے لیے خطرناک قرار دیا جائے۔
مختصراً یہ کہ لیتھیم بیٹریوں کی ری سائیکلنگ کو عام بیٹریوں کی ری سائیکلنگ کے مترادف ہر گز نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ایک ٹیکنیکل اور پر خطر عمل ہوتا ہے جو ہماری موجودہ ری سائکلنگ انڈسٹری کی استطاعت سے بالا ہے۔
سولر ایکس کے سی ای او محمد شاہزیب کیانی کا ماننا ہے کہ چونکہ کباڑ والے کوئی حفاظتی یا ریگولیٹری اصول نہیں اپناتے اس لیے پاکستان کے لیے بلیک ماس یا ای ویسٹ سے نکالی گئی معدنیات فی الحال برآمد کرنا بھی ممکن نہیں۔ (بلیک ماس اس ملغوبے کو کہا جاتا ہے جو بیٹری کے باہری خول وغیرہ کو نکال کر حاصل ہوتا ہے۔)
"ہم عام طور پر بیٹریوں کا سکریپ ہی بیرونِ ملک بھیج دیتے ہیں جہاں یہ ری سائیکل ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک محفوظ اور مصدقہ ری سائیکلنگ نظام بنا لیں جو بین الاقوامی ماحولیاتی معیار کے مطابق ہو، تبھی ہم بلیک ماس یا اس سے نکالی ریفائنڈ دھاتیں برآمد کر کے زرمبادلہ کما سکیں گے۔"
تاریخ اشاعت 19 اگست 2025