پاکستان کے بلند پہاڑی علاقوں میں 167 برفانی چیتے پائے جاتے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے ایک طویل اور پیچیدہ سائنسی تحقیق کا جو حال ہی میں مکمل ہوئی ہے۔
برفانی چیتا ایک نایاب جانور ہے جسے معدوم ہو جانے کا شدید خطرہ لا حق ہے۔ نایاب ہونے کے ساتھ برفانی چیتوں کو پراسرار بھی مانا جاتا ہے کیونکہ ان کی زندگی کا قریبی مشاہدہ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ان کا بسیرا انتہائی بلند برف پوش پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں جنگل، چٹانیں اور کھائیاں انسان کی رسائی کو بہت مشکل بنا دیتی ہیں اور سال کے زیادہ تر حصے میں موسم بھی سخت سرد رہتا ہے۔
سنو لیپرڈ کے محقق اور سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر علی نواز نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس تحقیقی کام میں پندرہ سال سے زائد کا کٹھن فیلڈ ورک شامل ہے جس سے فاؤنڈیشن نے ایسے نتائج حاصل کیے ہیں جو برفانی چیتوں کی بقا کی حکمت عملی تیار کرنے کے عمل کو ضروری سائنسی بنیاد فراہم کریں گے۔

بڑھتی حدت اور برفانی چیتے کے پگھلتے مسکن
موسمیاتی تبدیلیاں برفانی چیتوں کے قدرتی مسکن کو تیزی سے متاثر کر رہی ہیں۔ سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے محقق ڈاکٹر حسین علی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ درجہ حرارت میں اضافے سے برف پوش علاقے سکڑ رہے ہیں جس سے برفانی چیتے کی ہوم رینج محدود ہوتی جا رہی ہے اور اس کی بقا مشکل سے مشکل تر۔
جنگلی حیات کے ماہر وقار زکریا کہتے ہیں کہ ماحولیاتی دباؤ صرف درجہ حرارت کی تبدیلی تک محدود نہیں۔ سڑکوں کی تعمیر، انفراسٹرکچر کی توسیع اور شہری آبادی کے پھیلاؤ نے جنگلی ہیبٹیٹس کو تیزی سے سکڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ "جو علاقے کبھی چند درجن افراد تک محدود تھے، وہاں اب ہزاروں سیاح پہنچنے لگے ہیں اور اس بڑھتی ہوئی آمدورفت نے ماحول پر پہلے ہی بہت بوجھ ڈالا ہوا ہے۔"
وقار زکریا کہتے ہیں کہ جب کسی ایک دباؤ پر دوسرا دباؤ بھی شامل ہو جائے تو اس کا اثر محض جمع نہیں ہوتا بلکہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
وقار زکریا نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جنگلی حیات کئی دباؤ کا شکار ہے اور اگر صورت حال کو عالمی معیار پر پرکھا جائے تو یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا دس سے پندرہ فیصد بھی برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
وہ اس بات پر اظہار افسوس کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں عمومی سوچ یہی ہے کہ سب سے پہلے انسانوں کی ضروریات پوری کی جائیں۔ "جب ہم انسانوں کی بنیادی ضروریات بھی مناسب طور پر پوری نہیں کر پا رہے تو جنگلی جانوروں کا تحفظ ہماری ترجیحات میں کہاں جگہ پا سکتا ہے؟"
اس صورت حال نے معدومی کے خطرے سے دوچار برفانی چیتے کے تحفظ اور بقا کی کوششوں کو مزید اہم بنا دیا ہے۔

برفانی چیتا: آدھا پاکستانی اور آدھا افغان
ڈاکٹر علی نواز نے فخر سے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے جس میں جینیٹکس اور کیمرہ ٹریپنگ دونوں طریقے بیک وقت استعمال کیے گئے ہیں۔ اس میں ایسے بہترین شماریاتی طریقے اور ماڈلز استعمال کیے گئے ہیں جو ماضی کی تحقیقات میں استعمال نہیں کیے جا سکے تھے۔
ڈاکٹر علی کے مطابق اسمال پر ٹرسٹ اور نارویجن ریسرچ کونسل نے اس تحقیق میں نمایاں تعاون فراہم کیا۔ اگرچہ حکومت نے براہِ راست مالی معاونت نہیں کی تاہم فیلڈ ٹیموں کے ذریعے لاجسٹک سہولیات اور رہنمائی فراہم کی۔
برفانی چیتے پر تحقیقات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر علی نواز نے بتایا کہ پاکستان میں برفانی چیتے پر پہلی تحقیق 2007-08میں چترال میں کی گئی تھی جو ایک برفانی چیتے پر مرکوز تھی۔ اس میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ جانور تقریباً 1600 مربع کلومیٹر کے علاقے میں گھومتا ہے اور اپنا آدھا وقت افغانستان جبکہ آدھا پاکستان میں گزارتا ہے۔
اس تحقیق میں ایک برفانی چیتے پر جی پی ایس کالر لگایا گیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کہاں کہاں جاتا ہے اور کتنے بڑے علاقے کو اپنا مسکن بناتا ہے۔ اس جانور کو ایک سال تک مانیٹر کیا گیا۔
جنگلی حیات کے ماہر وقار زکریا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے مختلف حصوں میں موسمی حالات یکساں نہیں ہیں۔ ہمالیہ کے کچھ علاقے مثلاً مری، ایبٹ آباد، سوات اور کشمیر میں نسبتاً زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تاہم درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور بارش کے غیر یقینی پیٹرن سے پودوں کی افزائش، خوراک کی دستیابی اور ہیبٹیٹ براہ راست متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جنگلی جانور خوراک کی تلاش میں انسانی آبادیوں کے قریب آنے لگتے ہیں۔کم درجہ حرارت کی عادی انواع بلندی کی طرف ہجرت کرتی ہیں لیکن موزوں ہیبٹیٹ کی کمی ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔

کیمرہ ٹریپنگ اور ڈی این اے سے آبادی کا تخمینہ کیسے لگایا جاتا ہے؟
حالیہ تحقیق کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹر حسین علی نے بتایا کہ اس میں دو بنیادی ٹیکنالوجیز استعمال کی گئیں جن میں جینیٹکس اور کیمرا ٹریپنگ شامل ہے۔
جینیٹکس کے طریقہ کار کے تحت برفانی چیتے کی ممکنہ رہائش گاہوں کا تفصیلی سروے کیا گیا اور وہاں سے اس کے فضلے کے نمونے جمع کر کے ان کے لیبارٹری میں ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے۔ "انسانوں کی طرح ہر جانور کا جینیاتی کوڈ بھی منفرد ہوتا ہے اسی لیے ڈی این اے سیکوینسنگ کے ذریعے ہم ہر فرد کو الگ شناخت کر سکتے ہیں۔ اور اس طرح کے بہت سے ٹیسٹوں سے جو ڈیٹا تیار ہوتا ہے اس کے تجزیے سے ان کی آبادی کا تخمینہ لگایا گیا۔"
کیمرا ٹریپنگ کی تکنیک میں وائلڈ لائف اسٹڈیز کے لئے خاص طور پر تیار کردہ کیمرے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں موشن سینسر اور انفرا ریڈ ٹیکنالوجی ہوتی ہے جیسے ہی کوئی جانور کیمرے کے سامنے سے گزرتا ہے یہ خود بخود اس کی تصویر کھینچ لیتے ہیں۔اس تحقیق میں یہ کیمرے سنو لیپرڈ کے ممکنہ راستوں میں نصب کیے گئے۔
ہر برفانی چیتے کی کھال پر موجود دھبے منفرد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین علی کے مطابق شمالی پاکستان میں نصب کیے گئے ان کیمروں سے حاصل ہزاروں تصاویر کا آپسی موازنہ کر کے یہ معلوم کیا گیا کہ کونسی تصاویر ایک ہی چیتے کی ہیں اور کون سی مختلف چیتوں کی۔ اس موازنے نے ہر انفرادی جانور کی علیحدہ شناخت کو ممکن بنا دیا اور اسی مکمل ڈیٹا سے یہ اخذ کیا گیا کہ ان کی کل تعداد کتنی ہے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر علی نواز کے مطابق کیمرا ٹریپنگ اسٹڈی مکمل کرنے میں عموماً دو سے تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ "درست تخمینہ لگانے کے لیے جانوروں کی تصاویر بار بار کیپچر کرنا ضروری ہے بصورت دیگر نتائج محدود رہتے ہیں۔ اسی لیے 20 سے 25 مقامات پر بتدریج اسٹڈیز کی گئیں اور ڈیٹا کو یکجا کر کے ایک بڑے علاقے کو کور کیا گیا۔"
ڈاکٹر علی نواز کا کہنا تھا کہ ایک سال میں دو سے زیادہ مطالعات ممکن نہیں ہوتے کیونکہ موسم ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ زیادہ تر مطالعات صرف بہار یا خزاں میں ہی کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ کئی برسوں پر محیط رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ کام ایک نہیں بلکہ دو الگ اور آزاد تحقیقات تھیں جنہوں نے ایک دوسرے کے نتائج کی تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ کیمرا ٹریپنگ 2010ء تا 2019ء تک کی گئی جس میں برفانی چیتوں کی آبادی کا تخمینہ 155 نکلا جبکہ جینیٹکس اسٹڈی 2017ء تا 2023ء کی گئی جس میں ان کی آبادی کا تخمینہ 167 سامنے آیا۔
"یہ دونوں نتائج (155 اور 167) ایک دوسرے سے قریب ہیں جس سے یہ یقین مزید مضبوط ہوا کہ یہ تخمینے حقیقت کے قریب ہیں چونکہ جینیٹکس اسٹڈی نسبتاً نئی اور تازہ ترین ڈیٹا پر مبنی ہے اس لیے اسے زیادہ معتبر مانا گیا اور موجودہ رپورٹنگ میں 167 کو حوالہ بنایا گیا۔"
ان تحقیقات کے لئے کئی عالمی اداروں نے مالی تعاون کیا جن میں برطانوی حکومت کا ڈارون انیشیٹوو، وائٹلے فنڈ فار نیچر، سنو لیپرڈ ٹرسٹ، ریسرچ کاونسل آف ناروے اور پینتھرا شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں

قصور میں بھارت سے آیا گھڑیال: سوکھے ستلج کے آبی ماحول کے لیے امید کی کرن
برفانی چیتا کہاں کہاں رہتا ہے؟
برفانی چیتا فطری طور پر ایشیا کے بارہ ممالک میں پایا جاتا ہے جن میں افغانستان، بھوٹان، چین، بھارت، قازقستان، کرغیزستان، منگولیا، نیپال، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔
برفانی چیتے ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، پامیر، تیان شان اور التائی جیسے بلند و دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں آباد ہیں۔
برفانی چیتوں کی عالمی آبادی کا تخمینہ 3,500 سے 7,000 کے درمیان ہے۔
ان کی سب سے بڑی آبادی چین میں ہے جس کا تخمینہ دو ہزار سے ڈھائی ہزار کے درمیان لگایا گیا ہے۔ منگولیا میں ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے جبکہ بھارت میں یہ پانچ سو سے سات سو کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
افغانستان کا علاقہ واخان بھی برفانی چیتے کا ایک اہم مسکن ہے جہاں ان کی آبادی کا اندازہ 110 سے 136 کے درمیان لگایا گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 9 ستمبر 2025