ہنزہ کے گاؤں حسن آباد کے رہائشی کچھ برسوں سے گاؤں کے ساتھ بہنے والے پہاڑی نالے سے خوف زدہ رہنے لگے تھے۔ گلگت بلتستان (جی بی) کا یہ گاؤں شاہراہ قراقرم پر ہے اور ششپر گلیشئیر سے آنے والا یہ نالہ صدیوں سے بہہ رہا ہے۔کچھ عرصے سے اس نالے میں بار بار برفانی تودے گر رہے تھے جو ایک بڑی آفت کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا۔
اس سال جولائی میں حسن آباد والوں کا یہ خوف ایک بھیانک حادثہ بن کر سامنے آ گیا۔
گاؤں کی رہائشی ملائیکہ بی بی بتاتی ہیں کہ نالے میں ایسی طغیانی آئی کہ زمین سرکنا شروع ہو گئی۔ بپھری موجیں پہلے شاہراہ اور پھر ان کا گھر بہا لے گئیں۔ 17 اور مکان بھی بہہ گئے۔
"ہم نے محنت مزدوری سے اپنا گھر بنایا تھا۔ اب ہمارے پاس زمین ہے نہ گھر بنانے کی ہمت۔ ہم کاشتکار لوگ ہیں لیکن اب کھیت رہے اور نہ فصل کا نشان باقی ہے۔"
ان کا خاندان محض اپنی زندگیاں اور چند قیمتی اشیا ہی بچا پایا۔
ملائیکہ اب اپنے والدین اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ اپنے گاؤں سے دو کلومیٹر دور ایک خیمے میں رہ رہی ہیں جو انہیں امدادی کارکنوں نے فراہم کیا ہے۔

'15 سال میں صرف تین بار لیکن اب تو روز ہی کلاؤڈ برسٹ ہونے لگا ہے'
گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق صوبے میں جولائی کے اواخر سے اب تک موسمی تباہ کاریوں کے مختلف واقعات میں 45 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ فصلوں، زرعی زمینوں، واٹر چینلز، چھوٹے ہائیڈرو پاور سٹیشنز، ٹرانسمشن لائنوں، سڑکوں، پلوں اور انفراسٹرکچر کے نقصانات تقریباً ہر کونے سے مسلسل رپورٹ ہو رہے ہیں اور تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے معاون خصوصی ایمان شاہ کہتے ہیں مسلسل دو مہینوں تک ایسی صورت حال کبھی نہیں رہی۔ موجودہ حالات نے انہیں بے یقینی اور حیرت سے دوچار کر رکھا ہے۔
"کلاوڈ برسٹ اور جھیلوں کے پھٹنے کے خطرناک ملاپ سے بہت نقصانات ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس وسائل بہت محدود ہیں اس لیے ہماری توجہ ریسکیو اور ہنگامی بحالی پر مرکوز ہے۔ تاہم نقصانات کا تخمیہ لگایا جا رہا ہے۔"
گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر و ایڈمن کوآرڈینیشن شہزاد بیگ کے خیال میں بادل پھٹنے کا عمل جی بی کے لیے نیا ہے۔ "پچھلے 15 سال میں یہاں بادل پھٹنے کے صرف تین واقعات دیکھے گئے لیکن اب تو روزانہ ہی کلاؤڈ برسٹ ہونے لگا ہے۔" بادل پھٹنے کے واقعات میں جی بی کے تمام اضلاع متاثر ہوئے، شاہراہ قراقرم سمیت کوئی سڑک محفوظ نہیں رہی۔
شہزاد بیگ بتاتے ہیں کہ جی بی میں سات ہزار سے زائد جھیلیں ہیں جن میں سے لگ بھگ تین درجن گلیشیائی جھیلیں انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ یہ دباؤ اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پھٹ سکتی ہیں جو بڑے حادثات کو جنم دے سکتا ہے۔

بادل پھٹنا کیا ہوتا ہے؟
کلاؤڈ برسٹ/بادل پھٹنا ایک موسمیاتی عمل ہے جس کی ماہرین اس طرح وضاحت کرتے ہیں۔
نمی سے بھرپور ہوائیں جب خنک پہاڑوں کی جانب آتی ہیں تو ان کی ڈھلانوں کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتی ہیں اور ٹھنڈی ہو کر بادل بناتی ہیں جو بارش برساتے ہیں لیکن جب ان بادلوں پر نیچے سے نم اور گرم ہواؤں کا دباؤ غیر معمولی طور پر زیادہ ہوتا ہے اور مسلسل جاری رہتا ہے تو بادل برس نہیں پاتے اور ان میں پانی بڑھتا رہتا ہے پھر جونہی یہ دباؤ کم ہوتا ہے یا بادل مزید پانی سہار نہیں پاتے تو یکدم پھٹ پڑتے ہیں۔
بادل پھٹنے کا مطلب ہے کہ 20 سے 30 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایک گھنٹے یا اس سے کم وقت میں 100 ملی میٹر بارش۔
گلوف کیا ہوتا ہے؟
گلوف انگریزی اصطلاح – گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ – کا مخفف ہے جس کا لفظی ترجمہ 'گلیشیئر کی جھیل کے پھٹنے سے آنے والا سیلاب' ہے۔
گلیشیئر بلند پہاڑوں پر سدا جمی برف کے وسیع و عریض تودوں کو کہا جاتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیئر سیاچن 76 کلومیٹر طویل ہے اور بالتورو 63 کلومیٹر۔
درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر میں جگہ جگہ اس کے کچھ حصے پگھل کر یخ جھیلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان جھیلوں کا بہاؤ ظاہر ہے پہاڑی ڈھلوانوں کی جانب ہوتا ہے لیکن اسی گلیشیئر کے سخت برفیلے حصے یا چٹانیں اور پتھر ان یخ جھیلوں کا راستہ روکے رکھتے ہیں۔ یوں کئی جھیلیں دراصل برف کے قدرتی ڈیم بن جاتی ہیں۔
لیکن پھر اگر پگھلاؤ کی رفتار بڑھ جائے اور جھیل میں زیادہ پانی آنے لگے یا جس برف نے پانی کے راستے پر بند باندھا ہوا ہے وہی پگھلنے لگے تو یہ ڈیم ٹوٹ جاتا ہے۔ پانی، برف، چٹانوں، پتھروں کا ملغوبہ یکدم ایک طوفانی رفتار سے ڈھلوانوں کی جانب بہنے لگتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر شے کو ملیا میٹ کرتا جاتا ہے۔

بادل پھٹنے اور گلوف کے واقعات میں تیزی کیوں آ گئی ہے؟
ماہر موسمیات ڈاکٹر زینب نعیم نے لوک سجاگ کو بتایا کہ رواں برس مون سون سے قبل جی بی میں درجہ حرارت معمول سے 7 سے 9 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا جس نے بادل پھٹنے کے واقعات کو بھی جنم دیا اور گلیشیئرز پگھلنے کے عمل کو بھی مزید تیز کر دیا ہے۔
ان کے خیال میں گلیشیئر پگھلنے کی شرح میں اضافے سے برف کے نیچے جمی مٹی یا زمین کی تہہ پر دباؤ بڑھتا ہے تو وہ بھی سرکنے لگتی ہے جس سے گلیشیائی جھیلیں پھٹ (گلوف) جاتی ہیں۔
ڈاکٹر زینب نعیم کے مطابق گلگت بلتستان میں بادل اور جھیلیں پھٹنے کے واقعات کی نوعیت مختلف ہے مگر ان کے درمیان تعلق بڑھتا جا رہا ہے۔ بادل پھٹنے کے عمل سے ہونے والی شدید بارش گلیشیرز کے پگھلاؤ کی رفتار کو بڑھاتی ہے اور پانی کی نکاسی کے نظام پر بھی دباؤ بڑھا دیتی ہے۔ جھیلوں کے کمزور مقام اضافی دباؤ کو سہہ نہیں پاتے اور جھیل پھٹ جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب کلاؤڈ برسٹ اور گلوف ایک ساتھ رونما ہوں تو ایک آفت دوسری کو بڑھاوا دیتی ہے۔ بارش کا پانی، برفانی تودے اور منجمد مٹی کا ملبہ ٹوٹ کر تیز رفتار سے نیچے آتے ہیں تو بڑے حادثات کا باعث بنتے ہیں۔

'حالیہ واقعات جی بی کے موسمیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کا مظہر ہیں'
ماہر ماحولیات مریم شبیر کہتی ہیں گلیشیئرز کا تیز پگھلاؤ اور برفانی جھیلوں کا پھٹنا پہلے ہی مسئلہ تھے لیکن اب بار بار بادل پھٹنے کے واقعات خطے کے لوگوں کی زندگی مزید مشکل بنا رہے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافے کی شرح دیگر علاقوں سے نسبتاً زیادہ دیکھی جا رہی ہے اور اس موسمیاتی تبدیلی کی ایک اہم وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے۔
مریم شبیر کہتی ہیں کہ اصل مسئلہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کا اندھا دھند اخراج ہے۔ "دنیا درجہ حرارت میں اضافے کو محدود رکھنے میں ناکام ہوئی ہے"- 2015ء کے پیرس معاہدے میں تمام ممالک نے اتفاق کیا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائے گی تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود رکھا جائے۔
ماہر موسمیات ڈاکٹر زینب نعیم سمجھتی ہیں کہ جی بی میں دو ماہ جاری رہنے والے حالیہ سیلاب خطے کے موسمیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کا مظہر ہیں۔ "ان علاقوں میں مختصر مدت کے سیلاب آتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلسل تبدیلیاں خطے میں طویل دورانیے کی موسمیاتی آفات کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔"

کلائمیٹ پالیسی میں سیلاب اور گلوف کا ذکر تو ہے لیکن عمل درآمد ندارد
ڈیزاسٹر منیجمنٹ حکام کے بقول حسن آباد میں ششپر گلیشیئر کا کچھ حصہ ٹوٹنے کا عمل برسوں سے جاری ہے اور خطرہ بھی موجود ہے لیکن رواں سیزن میں گلیشیائی جھیل پھٹنے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ساری تباہی کلاؤڈ برسٹ سے ہوئی ہے۔
ڈاکٹر زینب نعیم کے مطابق جی بی انوائرمینٹل ایجنسی (ای پی اے) اور دیگر محکمے باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے بغیر کام کرتے ہیں جس سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے کاموں میں تاخیر ہوتی ہے۔ ماحولیاتی قوانین پر عمل نہ ہونا اور ندی نالوں کے راستوں میں تعمیرات خطرات کو بڑھا رہی ہیں۔
خطے میں ابتدائی وارننگ کا نظام کمزور، تکنیکی مہارت، ریئل ٹائم مانیٹرنگ اور فنڈنگ کی شدید کمی ہے۔ مقامی کمیونٹیز کو مختصر مدتی ڈونر منصوبوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جبکہ ڈونر منصوبے مقامی دانش کو خاطر میں نہیں لاتے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ ملک میں قومی اور علاقائی ماحولیاتی پالیسی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی اور نیشنل اڈاپٹیشن پلان میں سیلاب اور گلوف کا ذکر تو ہے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے باعث یہ غیر مؤثر ہیں۔
ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کو کلائمیٹ پالیسی کا مرکزی ستون ہونا چاہیے مگر اسے انسانی ہمدردی یا بعد از آفت اقدام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جی بی کے لیے ترجیحی حکمت عملی میں ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر، ماحولیاتی نظام اور کمیونٹیز کو یکجا کرنا ہوگا تبھی یہ کمزوریاں دور ہوں گی۔
تاریخ اشاعت 12 ستمبر 2025