اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

ماہ پارہ ذوالقدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

پینتیس سالہ فرزانہ (فرضی نام ) میانوالی شہر کے محلہ قادر آباد کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے رواں سال نو اپریل کو تھانہ سٹی کو آگاہ کیا کہ انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جس پر پولیس نے اسی روز مقدمہ درج کر لیا۔

ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق فرزانہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کوچ ڈرائیور ہیں جو اسی سلسلے میں بنوں گئے ہوئے تھے۔ وہ گھر میں اکیلی تھیں اسی دوران ان کے قریبی رشتہ دار عزیزاللہ گھر کے اندر داخل ہوئے اور ان سے زبردستی جنسی زیادتی کی۔

حیرت انگیز طور پر ایک ماہ سے زیادہ عرصہ بعد بھی ملزم گرفتار ہوا نہ کیس کی تفتیش مکمل ہوئی۔

تھانہ سٹی میں تعینات سب انسپکٹر جبل الورید اس کیس کی تفتیشی افسر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت بروقت مقدمہ درج کیا اور متاثرہ خاتون کا فوری میڈیکل کرایا۔

"ڈی این اے کے لیے نمونے فارنزک لیبارٹری بھجوائے جا چکے ہیں۔ مقدمہ ابھی زیرِ تفتیش ہے لیکن ہم متاثرہ خاتون کی پوری طرح مدد کر رہے ہیں۔"

متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ خاندان کے بزرگ مقدمے درج کرانے کے حق میں نہیں تھے بلکہ چاہتے تھے کہ اس معاملے کو گھر میں ہی حل کیا جائے۔

"لیکن میرے شوہر نے میرے ساتھ جا کر تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی۔ اب شوہر کے سوا خاندان کے تمام مرد صلح کے لیے زور دے رہے ہیں کیونکہ ہمارے بار بار تھانے کچہری جانے سے ان کی عزت پر حرف آتا ہے۔"

ریپ کیسز سے جُڑی سماجی بدنامی کا خوف اور اس کے اثرات

سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپنٹ آرگنائزیشن  (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2024ء کے دوران پنجاب میں ریپ کے چار ہزار 641 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت 532 کیسوں کے ساتھ سرفہرست رہا جس کے بعد ضلع فیصل آباد، قصور اور اوکاڑہ بالترتیب 340، 271 اور 213 مقدمات کے ساتھ دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔

اس فہرست کے مطابق میانوالی ڈسٹرکٹ میں پچھلے سال خواتین سے جنسی زیادتی کے کل 31 مقدمات درج ہوئے۔

کیا لاہور، فیصل آباد، اوکاڑہ، ملتان کی نسبت میانوالی میں زیادتی کے واقعات کم وقوع پذیر ہوتے ہیں یا رپورٹ کم ہوتے ہیں؟ اس سوال پر یہاں کے بیشتر وکلا اور سماجی کارکن متفق نظر آتے ہیں کہ میانوالی میں لوگوں کی اکثریت قوانین سے آگاہی کے باوجود ایسے واقعات کو رپورٹ نہیں کرتی۔

ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن افسر سمیرا علوی بتاتی ہیں کہ جاگیردارانہ دیہی سماج میں خواتین کو عزت اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے متاثرہ خواتین کے لواحقین جنسی تشدد یا ریپ کے واقعات کو عموماً دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

محمد بلال (فرضی نام) کا خاندان دہائیوں سے عیسیٰ خیل کے نواح میں رہتا آ رہا تھا۔ دو سال قبل وہاں ایک با اثر ملزم نے ان کی 16 سالہ بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس واقعے کا مقدمہ درج کرانے کے بجائے انہوں نے بیوی بچوں سمیت علاقہ چھوڑ دیا اور میانوالی شہر میں کرائے کے گھر میں آ بسے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، کیسے بیٹی کو لے کر پولیس یا عدالت کے پاس جاتے!

سمیرا علوی کہتی ہیں کہ تھانے کچہریوں کی ٹھوکروں اور بھاری اخراجات کے بعد بھی بہت کم لوگ انصاف حاصل کر پاتے ہیں۔ اس لیے کوئی کوئی عورت ہی ایسا مقدمہ درج کرانے کی ہمت کرتی ہے۔

زیادتی کے مقدمات میں سزا کا تناسب نہ ہونے کے برابر

ایس ایس ڈی او کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال (2024ء) پنجاب میں ریپ کیسز کے فیصلوں میں سزاؤں کا تناسب  (کنوکشن ریٹ) صرف 0.4 فیصد رہا۔

ڈسٹرکٹ جوڈیشل کمپلیکس میانوالی کے مطابق یکم جنوری سے 31 دسمبر 2024ء تک یہاں عدالتوں میں خواتین سے زیادتی کے کل 97 مقدمات زیر سماعت رہے جن میں پچھلے سال کے زیرالتوا کیسز بھی شامل تھے۔ 

اس عرصے (ایک سال) کے دوران 14 مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ صرف ایک مقدمے میں ملزمان کو سزا ہوئی، 11 میں ملوث ملزمان بری ہو گئے جبکہ دو کیسز کے ملزمان کبھی پولیس کے ہاتھ ہی نہیں آئے۔ یوں عدالتی حساب سے سزا کا تناسب 7.14 فیصد رہا۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق مزکورہ فیصل مقدمات میں سے کسی میں بھی فریقین کے درمیان صلح نہیں ہوئی۔

محمد بلال سے جب بار بار اصرار کیا گیا کہ انہوں نے بیٹی سے زیادتی کا مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا تو وہ پھٹ پڑے

" تھانے کچہری سے کسی اور کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟ مقدمہ درج کرانے کی بجائے مجھے یہی مناسب لگا کہ علاقہ چھوڑ دیا جائے تاکہ لوگوں کی نظروں کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔"

سب انسپکٹر جبل الورید کے خیال میں ریپ کیسز میں سزا کی شرح کم ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ متاثرہ خواتین ٹرائل کے دوران دباؤ یا دوسرے سماجی مسائل کے باعث صلح کر لیتی ہیں جس سے پولیس کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

" میرے نزدیک دوسری بڑی وجہ بوگس کیسز کا اندراج ہے یعنی اکثر ریپ کیسز بوگس (جھوٹے) ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتیں بیشتر ملزمان کو بری کر دیتی ہے۔"

تعزیرات پاکستان سے حدود آرڈیننس تک

آزادی کے بعد سے ملک میں جنسی زیادتی کے مقدمات تعزیراتِ پاکستان  (ایکٹ مجریہ 1860ء) کی دفعہ 375 اور 376کے تحت درج کیے جاتے تھے۔ دفعہ 375 میں ریپ کی وضاحت (یا تعریف) اور دفعہ 376 میں اس کی سزا بتائی گئی ہے۔

اس قانون کے تحت ریپ کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت یا 10 سے 25 سال تک قید اور جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی جبکہ اجتماعی زیادتی کے مجرموں کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سزا مقرر ہے۔

تاہم 1979ء میں حدود آرڈیننس آیا تو ریپ کو تعزیراتِ پاکستان سے نکال کر 'زنا' کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔ یعنی جنسی زیادتی (زنا بالجبر) اور زنا (بالرضا) میں فرق تقریباً ختم ہو کر رہ گیا۔

میانوالی میں وکالت سے منسلک نائلہ دھون ایڈوکیٹ بتاتی ہیں کہ حدود آرڈیننس میں مجرم اور متاثرہ ایک ہی کٹہرے میں نظر آئے۔ 'حد' کے نفاذ کے لیے بطور شہادت ملزم کا اعترافِ جرم یا چار پرہیزگار، عاقل و بالغ مرد گواہ چاہیئیں تھے۔

 زنا بالجبر کیس میں شہادت کا بوجھ (بارِثبوت) متاثرہ شخص پر تھا اور کوئی طبی یا دستاویزی ثبوت بھی قبول نہیں تھا جس کی وجہ سے جنسی جرائم کا شکار خواتین کے لیے انصاف کا حصول بہت ہی مشکل ہو گیا تھا۔

تاہم 2006ء میں خواتین کے تحفظ کے لیے تعزیرات پاکستان، ضابطہ فوجداری و دیگر قوانین میں ایک ایکٹ  کے ذریعے ترامیم کی گئیں۔

اس ترمیم کے تحت تعزیرات پاکستان میں دفعہ 265 بی (جبری شادی کے لیے اغوا)، 367اے (زیادتی کے لیے اغوا)، 371 اے (طوائف گری کے لیے فروخت) ، 371 بی (طوائف گری کے لیے خریداری) کا اضافہ کیا گیا اور دفعہ 375 میں 'ریپ' کی وضاحت (تعریف) بھی بدل دی گئی۔

سیالکوٹ موٹروے کیس کے بعد 2006 کے قانون میں تبدیلیاں

تعزیرات پاکستان (ترمیمی ایکٹ 2006ء) کی دفعہ 375 میں ریپ کی دوبارہ درجہ بندی کی گئی اور اسے تعزیری جرم قرار دیا گیا۔ لیکن سزا کا تعین (دس سال قید سے سزائے موت تک) عدالتوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔

ایڈووکیٹ نائلہ دھون سمجھتی ہیں کہ 2006ء کی ترمیم میں اٹھائے گئے اقدامات بھی بہت کمزور اور خامیوں سے پُر تھے۔ اس بار بھی ایک ہاتھ سے حق دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا گیا تاہم اس سے خواتین کے حالات کچھ بہتر ہوئے۔

نو ستمبر 2020ء کو موٹروے پر پاکستانی نژاد فرانسیسی خاتون سے ان کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا خوفناک واقعہ پیش آیا تو ملک میں ایک بار پھر بحث کا آغاز کیا اور قوانین میں تبدیلی لائی گئی۔

یکم دسمبر 2021ء کو پارلیمنٹ نے اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ  منظور کیا جس کے تحت ملک بھر میں ریپ کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور انہیں چار ماہ میں کیس کے فیصلے کا پابند بنایا گیا۔

متاثرہ خواتین کی ایف آئی آر درج کرانے، طبی معائنے اور فرانزک میں فوری مدد کے لیے ہر ضلعے میں کرائسز سیل بنائے گئے ۔ اس سلسلے میں پنجاب پولیس نے بھی ایک ہزار 450 افسران پر مشتمل یونٹس تشکیل دیے جن میں سے ہر ایک میں کم از کم ایک خاتون افسر شامل ہے۔

اس قانون میں مجرموں کی نگرانی اور انہیں دوبارہ جرم سے باز رکھنے کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے تعاون سے نظام (قومی رجسٹر) بنانے، متاثرین و گواہوں کے تحفظ کے لیے ان کی شناخت خفیہ رکھنے، پردے یا ویڈیو لنک کا استعمال جیسے اقدامات شامل ہیں۔

لیکن اس قانون کے بعد بھی جنسی زیادتی کے واقعات میں کوئی خاص کمی نہیں آ سکی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملی ہیں: 'جنسی زیادتی کا شکار خواتین اپنے مخالفین کا مقابلہ نہیں کر پاتیں'۔

صرف قانون سازی کافی نہیں، قوانین کا مؤثر نفاذ زیادہ اہم ہے

جینڈر پیرٹی رپورٹس کے مطابق 2022ء میں پنجاب میں ریپ کے تین ہزار 914 کیس ، 2023ء میں چھ ہزار 624 کیس  اور 2024ء میں چار ہزار 641 کیس رپورٹ  ہوئے۔

میانوالی ڈسٹرکٹ بار کے رکن انصر خان کا ماننا ہے کہ اینٹی ریپ ایکٹ 2021ء ایک اہم قانونی پیش رفت ہے لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ پولیس کی جانب سے اینٹی ریپ کرائسز سیلز (ARCCs) کو مقدمات بھیجنے کی شرح نہایت کم ہے جس کی وجہ سے متاثرین کو فوری مدد نہیں مل پاتی۔  متاثرین اور گواہوں کے تحفظ کے لیے شناخت کو خفیہ رکھنے اور ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی جیسے اقدامات بھی عملاً نہ ہونے کے برابر ہیں۔

میانوالی میں انسانی حقوق کے وکیل سمیع اللہ خان، خاتون پولیس انسپکٹر جبل الورید کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کنوکشن ریٹ کم ہو نے کا بڑا ذمہ دار پولیس کی ناقص تفتیش اور عدالتی نظام کو سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس افسران کی اکثریت کو جنسی جرائم سے متعلق حساسیت اور شواہد جمع کرنے کی مناسب تربیت نہیں ہے۔ فارنزک لیب کم ہیں، تقریباً تمام سیمپل لاہور بھیجے جاتے ہیں اور اکثر رپورٹ آتے آتے 6 ماہ گزر چکے ہوتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ عدالتی نظام (مقدمات کی سماعت) میں تاخیر، ناقص شواہد اور دباؤ میں گواہوں کے بیان بدلنے کی وجہ سے مجرم اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔

ماہر قانون خالد سعید ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ اینٹی ہیومن سمگلنگ و ٹریفکنگ لاز اور اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم جنسی مجرموں کی نگرانی کا قومی رجسٹر ابھی تک مکمل فعال نہیں ہو سکا۔

صرف قانون سازی کافی نہیں، قوانین کا مؤثر نفاذ زیادہ اہم ہے جس کے لیے ادارہ جاتی تربیت اور عوامی بیداری کی اشد ضرورت ہے۔

تاریخ اشاعت 16 ستمبر 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.