" صحبت پور میں نوجوان کھلاڑیوں کا کیریئر شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا ہے "

postImg

رضوان الزمان منگی

postImg

" صحبت پور میں نوجوان کھلاڑیوں کا کیریئر شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا ہے "

رضوان الزمان منگی

صحبت پور  سے 13 کلو میٹر دور قصبہ حیرالدین کی طرف جائیں تو آبادی کے باہر ایک نامکمل سی ٹوٹی پھوٹی چار دیواری اور اندر کا چٹیل میدان حیرت زدہ کردیتا ہے۔

میدان میں ایک کمرہ ہے اور کچھ زنگ آلود مشینری پڑی ہے۔ دراصل یہ صحبت پور کا "سپورٹس کمپلیکس" ہے جو "سیاسی کھیلوں" کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے۔

سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان  کے دور میں نصیر آباد ڈویژن میں تین سپورٹس کمپلیکس بنانے کا اعلان کیا گیا تھا یہ منصوبے نصیرآباد کے علاوہ سبی اور صحبت پور میں شروع کیے گئے۔

صحبت پور کا سپورٹس کمپلیکس شروع ہوا مگر جام کمال کے جاتے ہی منصوبہ بھی جام ہوگیا۔

ضلع صحبت پور کی آبادی دو لاکھ سے زائد ہے۔ یہ پہلے ضلع جعفرآباد کی تحصیل تھا۔ 2013ء میں اسے ضلعے کا درجہ دیا گیا۔

 فیاض احمد کھوسہ ہارڈ بال کرکٹ کے آل راؤنڈر کھلاڑی اور ضلعی سپورٹس ایسوسی ایشن کے صدر  ہیں۔ وہ شہر کے  نواحی گاؤں سخی در محمد کھوسہ کے میں رہتے ہیں۔مگر وہ کھیلوں اور کھلاڑیوں کے بارے میں مایوس ہیں۔

" ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ٹورنامنٹ بھی ہوتے ہیں لیکن یہاں ایک بھی ڈھنگ کا سپورٹس گراؤنڈ نہیں ہے۔ سپورٹس کمپلیکس کی منظوری پر کھلاڑیوں کو بہت خوشی ہوئی تھی مگر افسوس  تین سال میں صرف چاردیواری ہی بن سکی ہے۔ صحبت پور میں نوجوان کھلاڑیوں کا کیریئر شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا ہے۔ "

محکمہ مواصلات و تعمیرات (بی اینڈ آر )کے ایکسئین بشیر احمد نے بتایا کہ ضلع صحبت پور میں اس منصوبے کی لاگت کا کل تخمینہ 26 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا۔

" پہلے تو صحبت پور شہر میں سپورٹس کمپلیکس کے لیے جگہ تلاش کی گئی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔آخر شہر سے ساڑھے 13کلو میٹر  کے فاصلے پر تحصیل حیرالدین میں تقریبا 40 ایکڑ اراضی کا انتخاب کیا گیا۔یہ زمین مقامی سیاسی شخصیت میر نبی بخش خان کھوسہ  مرحوم نے گورنمنٹ ڈگری کالج کے لیے وقف کی تھی"۔

انہوں نے بتایا کہ شہر سے  دور سپورٹس کمپلیکس  بنانے پر سیاسی پارٹیوں، کھلاڑیوں اور شہریوں نےبہت  تنقید کی مگر قریب  کوئی سرکاری اراضی دستیاب نہیں تھی ۔ اگر نجی زمین خریدتے تو رقم اسی پر لگ جاتی اور  کمپلیکس کی تعمیر ہی شروع نہ ہو پاتی۔

انہوں نے بتایا کہ سپورٹس کمپلیکس منصوبے میں فٹ بال اور کرکٹ کے  الگ الگ گراؤنڈ، ٹیبل ٹینس اور والی بال کے کورٹس کے علاوہ  جمنیزیم کی تعمیر بھی شامل ہے۔

"ٹینڈرز کے بعد کام کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو ملا جس کے بعد حکومت نے ابتدائی موبلیٹی اور باؤنڈری وال کے لیے کل رقم کا تقریبا 18 فیصد یعنی پانچ کروڑ روپے جاری کر دیئے"۔

وہ کہتے ہیں کہ کمشنر نصیر آباد ڈویژن نے 19 مارچ 2021 ء کو منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کر کام کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ مزید رقم ریلیز نہ ہونے کے باعث اب تک کام بند پڑا ہے۔

سپورٹس کمپلیکس کے ٹھیکیدار پرویز احمد خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2020ء میں ٹھیکہ 2018 ءکے شیـڈول کے مطابق لیا تھا مگر اب لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔ شیڈول عمارتی سامان کی قیمتوں کی تفصیل ہوتی ہے جن کا تعین پاکستان انجئینرگ کونسل کرتی ہے۔

 پرویز احمد نے بتایا کہ اس وقت سٹیل(سریا) کی قیمت  ایک لاکھ 30 ہزار روپے ٹن تھی جو 2023 ءکے شیڈول میں  تین گنا بڑھ کر تین لاکھ 50 ہزار روپے ٹن تک  پہنچ چکی ہے۔ سمینٹ اس وقت 540 روپےبوری تھا اب  قیمت 1100 روپے بوری ہوچکی ہے۔

ڈیزل تب  80 روپے لٹر تھا ،کام شروع کیا تو 120 روپے ہوگیا اور اب 280 روپے لٹر تک پہنچ چکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ترقیاتی پالیسی کے تحت حکومت بلڈنگ کے ٹھیکے میں صرف  کنکریٹ اور لوہے پر اضافی رقم دیتی ہے باقی  سامان کے  اضافی پیسے نہیں ملتے۔

'' جب تک 2023 ء کے شیڈول کے مطابق مزید رقم نہیں ملتی تب تک یہاں کام بند رہے گا ۔ حکام سے بات چیت جاری ہے  امید ہے اس پرو جیکٹ کے لیے مزید فنڈز کی منظوری ہوجائے گی۔''

مقامی زمیندار اور سماجی کارکن  جہانگیر خان سپورٹس کمپلیکس  سےصرف سات کلو میٹر دور گاؤں عبدالرحیم کنرانی  میں رہتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ  ہر نئی حکومت کروڑوں روپے کے میگا منصوبے شروع کرتی ہے لیکن اکثر  ادھورے  پڑے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سیاسی کھیل میں فٹ بال بنا سپورٹس کمپلیکس: نارووال کے سپورٹس سٹی پر اور کتنے ارب روپے لگیں گے؟

"سپورٹس کمپلیکس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہر حکومت کی پہلی ترجیح جاری منصوبوں کی تکمیل ہونی چاہئے ورنہ عوام کے ٹیکسوں کا سرمایہ ضائع ہوجاتا ہے"۔

پرویز خان بھی جہانگیر خان  کی تائید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دو سال کی ساڑھے تین ہزار صوبائی سکیمیں فنڈز نہ ہونے  کی وجہ سے ادھوری پڑی ہیں کیونکہ کوئی حکومت پرانی حکومتوں کے کام کے لیے پیسے نہیں دیتی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما میر دوران خان کھوسہ شروع سے اس منصوبے کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے  سپورٹس کمپلیکس  صحبت پور  سے10 کلو میٹر  دور بھنڈ شریف میں بنانے کی تجویز دی  تھی مگر کسی نے توجہ نہیں دی۔

ان کے خیال میں اس منصوبے کو ویرانے میں لے جانے کا پلان مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا  گیا تھا۔

"وہاں پانی کڑوا اور زمین سیم زدہ ہے، اس لیے کوئی بلــڈنگ سات یا آٹھ سال سے زیادہ نہیں ٹک پائے گی"۔

تاریخ اشاعت 27 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضوان الزمان منگی کا تعلق بلوچستان کے ضلع صحبت پور سے وہ 10 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اداروں کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.