سانپ جوگی لے گئے، اونٹ گھوڑے مر گئے: سکرنڈ لیبارٹری میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین بنانے کا مشن 15 سال سے ادھورا

postImg

راشد لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سانپ جوگی لے گئے، اونٹ گھوڑے مر گئے: سکرنڈ لیبارٹری میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین بنانے کا مشن 15 سال سے ادھورا

راشد لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

ٹنڈو الہ یار کے سولہ سالہ بشیر احمد میٹرک کے طالب علم تھے جو اپنے تعلیمی اخراجات پوری کرنے کے لیے ایک پولٹری فارم پر کام کیا کرتے تھے۔ ایک رات وہ فارم پر سو رہے تھے کہ انہیں زہریلے سانپ نے ڈس لیا۔ انہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہاں سانپ کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں تھی۔ اتنی دیر میں زہر ان کے پورے جسم میں پھیل چکا تھا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ ہسپتال میں ہی دم توڑ گئے۔

بشیر احمد کا تعلق ٹنڈو الہ یار کی تحصیل چمبڑ میں پیرکے نامی گاؤں سے تھا۔ ان کے افسردہ والدین کہتے ہیں کہ اگر ویکسین دستیاب ہوتی تو ان کے بیٹے کی زندگی بچ سکتی تھی۔

 سندھ میں سانپ ڈسنے کے زیادہ واقعات ضلع تھرپارکر اور عمرکوٹ کے ریگستانی علاقے سے رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایسے مریض کا خون ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور دستیابی کی صورت میں ان کو اینٹی سنیک وینم ویکسین (عرف عام میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین) لگائی جاتی ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق ضلع تھرپارکر میں پچھلے نو ماہ (جنوری سے 31 اگست 2023ء) کے دوران ایک ہزار348 افراد کو زہریلے سانپوں نے کاٹا۔ان افراد کو ویکسین کے لیے سول سپتال مٹھی کے علاوہ ڈیپلو، کھیمے جو پار، چھاچھرو اور ننگرپارکر کے تحصیل ہسپتالوں میں لایا گیا تھا۔

کالے سانپ (بلیک کوبرا) کے علاوہ تھر میں اسی شکل کا ایک سانپ بنگارس کریت( Bungarus krait) بھی پایا جاتا ہے۔ مقامی لوگ ا سے 'پیئن بلا' پکارتے ہیں۔یہ چارپائی پر بھی چڑھ جاتا ہے۔اور علاقے میں خوف و دہشت کی علامت ہے۔

بنگارس کاٹتا نہیں بلکہ سوئے ہوئے انسان کے منہ یا ناک میں زہر ڈال دیتا ہے۔اس سے انسان کے گلے میں اچانک پھوڑا نما رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ سانسیں بند ہونے لگتی ہیں اور اگر اس کے سامنے تیز روشنی آ جائے تو بینائی بھی ضائع ہو سکتی ہے۔

 سانپوں کا زہر عام طور پر انسان کے دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ جس سے مریض کے موت ہوجاتی ہے۔ تھر میں محکمہ صحت کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں سانپ سے اموات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مریض بروقت ہسپتال پہنچ جائے تو زندگی بچائی جا سکتی ہے۔

مٹھی سول ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق رواں سال یہاں سانپ کے ڈسے 512 مریض لائے گئے۔ گرمیوں میں ایسے واقعات زیادہ تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ جون میں 103، جولائی میں 139 اور اگست میں سانپ کے ڈسے 102 افراد ہسپتال لائے گئے۔

ان مریضوں کی تعداد کم و بیش ہر سال اتنی ہی ہوتی ہے۔ متاثرین کو سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں موجوداینٹی سنیک ویکسین کی چار سے 36 خوراکیں لگائی جاتی ہیں۔ ویکسین لگانے کا دورانیہ چار سے چھ گھنٹے ہوتا ہے۔یہ ویکسین انڈیا سے منگوائی جاتی ہے۔

2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں سانپ کے کاٹے کا علاج کرنے کے لیے ویکسین بنانے کی غرض سے 30 کروڑ کی لاگت سے لیبارٹری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

سابق صدر آصف زرداری نے پہلے سال ہی اپنے آبائی شہر نواب شاہ کے قریب سکرنڈ میں 'اینٹی سنیک وینم اینڈ ربیز سیرالاجی لیبارٹری' کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ لیبارٹری لائیو سٹاک ٹریننگ سکول کے ساتھ بنائی گئی اور اس کا انتظام محکمہ لائیو سٹاک کے سپرد کر دیا گیا۔

سکرنڈ لیبارٹری میں پہلی بار 2017ء میں ویکسین بنانے کا تجربہ کیا گیا۔2018ء میں لیبارٹری کا سالانہ بجٹ264 ملین روپے رکھا گیا تھا مگر پھر یہ سلسلہ برقرار نہ رہ سکا اور ویکسین بنانے کا کام ادھورارہ گیا۔

شروع میں لیبارٹری میں 28 افراد کام کرتے تھے۔ 24 افراد پر مشتمل سٹاف اور عمارت اب بھی موجود ہے مگر 15 سال بعد بھی یہاں ویکسین تیار نہیں ہو سکی۔

 اینٹی سنیک ویکسین کی تیاری کا منصوبہ شروع کرنے کے لیے ڈاکٹر نعیم الحق قریشی کو پراجیکٹ ڈائریکٹر تعنیات کیا گیا تھا۔ 2019ء میں لیبارٹری کو فنڈ نہ ملنے پر انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی تھی۔

ڈاکٹر نعیم الحق نے عدالت میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا تھا کہ دنیا میں صرف تین ملک کیپرالک ایسڈ سے اینٹی سنیک ویکسین تیار کرتے ہیں۔ چوتھا پاکستان ہے جو یہ ویکسین بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا امونیم سلفیٹ سے ویکسین تیار کرتا ہے۔ پاکستان وہاں سے چار ہزار روپے فی خوراک کے حساب سے ویکسین منگوا رہا ہے اور مریض کو اس ویکسین کی 20 سے 30 خوراکیں لگائی جاتی ہیں۔

رپورٹ کہتی ہے کہ کیپرالک ایسڈ سے تیار کردہ ویکسین زیادہ مفید اور مؤثرہے۔ اس ویکسین کی ایک ہی خوراک سے لوگ صحت یاب ہوسکتے ہیں اور اس کی قیمت بھی پانچ سو روپے ہو گی۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث سالانہ سانپ کے ڈسے تقریباً  ڈیڑھ ہزار لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔سکرنڈ لیبارٹری میں سالانہ چھ لاکھ لوگوں کے لیے ویکسین بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس سےپوری دنیا کی مانگ پوری ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں ڈاکٹر نعیم الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے لیبارٹری میں دو اسسٹنٹ پروفیسروں اور 28 ملازمین کی مدد سے سانپ کی ویکسین کے 500 سیمپل تیار کر لیے ہیں۔ لیبارٹری میں کتوں کے کاٹے کی ویکسین بنانے کی سہولت بھی موجود ہے۔تاہم سکرنڈ میں تب سے سانپ کی ویکسین  کی تیاری  اور تجربات بند ہیں۔

عدالتی حکم پر سیکریڑی صحت نے اسی سال اینٹی سنیک وینم اینڈ ربیز سیرالاجی لیبارٹری کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی تھی۔ اس رپورٹ میں بھی سکرنڈ لیبارٹری کو سانپ کی ویکسین بنانے کے لیے معیار کے مطابق قرار دیا گیا۔

پاکستان ڈرگ اتھارٹی سے بھی اس لیبارٹری کا معائنہ کرایا گیا۔اسی رپورٹ کے بعد عدالتی حکم پر 2019ء میں لیبارٹری کو 264 ملین روپے کی قسط جاری کر دی گئی۔

ڈاکٹر نعیم کا کہنا تھا کہ 110 ملین روپے قرض ادا کر دیا گیا۔کیونکہ فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے لیبارٹری نے قرضہ لے کر ویکسین کے تجربات جاری رکھے تھے۔ 10 ملین سےملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔ باقی حکومت نے واپس لے لیے مگر لیبارٹری کے آلات نہ خریدے جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان پر سینڈ فلائی کا حملہ: زخمی چہرے لیے مریض علاج کی تلاش میں دربدر

مارچ 2022ءمیں ڈاکٹر نعیم اپنی عہدے سے مستعفی ہو گئے۔انہوں نے الزام لگایا کہ ان پر لیباٹری میں ناتجربہ کار لوگ بھرتی کرنے کا سیاسی دباؤ تھا۔

لیبارٹری کے ملازمین کے مطابق سانپ کے ویکسین ٹیسٹ کرنے کے لیے چار گھوڑے اور تین اونٹ خریدے گئے تھے۔ان جانوروں کو چارہ نہیں دیا جا رہا ۔ایک گھوڑا ہلاک ہو چکا ہے۔باقی جانور بیمار پڑے ہیں۔تین سو سانپ بھی لیبارٹری میں موجود تھے، وہ ان کی دیکھ بھال پر مامور جوگی لےگئے ہیں۔

سکرنڈ لیبارٹری کے موجودہ انچارج اعجاز لغاری بتاتے ہیں کہ جدید ٹیکنالاجی والی اس لیبارٹری کا لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سابق انچارج کی تعنیاتی کے دوران سانپ اور جانور گم ہو گئے۔ دفتر سے ایئر کنڈیشنر بھی غائب ہیں۔

وہ شکوہ کرتے ہیں کہ لیبارٹری کے فنڈ بند ہیں۔ ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور جانور بھوکے مر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اب جلد ویکسین تیار کر کے محکمہ صحت کو دی جائے گی۔

تاریخ اشاعت 15 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

راشد لغاری حيدرآباد سنده سے تعلق رکھتے ہیں. بطور رپورٹر صحافی. ماحولیات, انسانی حقوق اور سماج کے پسے طبقے کے مسائل کے لیے رپورٹنگ کرتے رہیں ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.