نظامِ تعلیم میں طبقاتی تقسیم: واحد قومی نصاب کس طرح سرکاری اور نِجی سکولوں میں فرق بڑھا دے گا۔

postImg

فریال احمد ندیم

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نظامِ تعلیم میں طبقاتی تقسیم: واحد قومی نصاب کس طرح سرکاری اور نِجی سکولوں میں فرق بڑھا دے گا۔

فریال احمد ندیم

loop

انگریزی میں پڑھیں

اس سال مارچ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں واحد قومی نصاب نافذ کرنا شروع کیا تو افضل رضا کو لگا کہ ان کے نِجی تعلیمی ادارے کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

انہوں نے فاطمہ جناح پبلک سکول کے نام سے یہ ادارہ 1996 میں جنوبی لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو میں چند رائے روڈ پر قائم کیا تھا۔ اِس علاقے میں زیادہ تر مزدور، ریڑھی بان اور چھوٹی موٹی سرکاری اور نِجی نوکریاں کرنے والے لوگ رہتے ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے افضل رضا نے سکول کی فیس کم ہی رکھی تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس میں داخلہ دے سکیں۔ پچھلے سال کے شروع میں ان کے ہاں کنڈرگارٹن سے لے کر میٹرک تک 450 سے زیادہ بچے زیرِ تعلیم تھے۔

انہیں خدشہ ہے کہ واحد قومی نصاب کے نفاذ سے یہ تعداد کم ہو جائے گی۔

ان کے مطابق نصاب کی تبدیلی سے پیدا ہونے والا سب سے پہلا مسئلہ نئی درسی کتابوں کی قیمت ہے۔ چونکہ حکومت نے ان کتابوں کی اشاعت پر دی جانے والی مالی امداد ختم کر دی ہے اس لیے افضل رضا کا خیال ہے کہ نئے نصاب کی کتابیں پرانی کتابوں کی نسبت مہنگی ہوں گی جس کے باعث بہت سے کم آمدنی والے خاندان اپنے بچوں کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ ان کے مطابق ان کے سکول کے 40 سے زیادہ طلبا اسی خدشے کے پیشِ نظر پہلے ہی تعلیم کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے نصاب میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تعلیمی مواد شامل کر دیا گیا ہے لیکن کم آمدنی والے سکولوں میں اس پر عمل درآمد کے لیے درکار انسانی وسائل ہی دستیاب نہیں۔ جبکہ، ان کے مطابق، حکومت نے نہ تو اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام کیا ہے اور نہ ہی والدین اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو نئے نصاب کے اغراض و مقاصد کے بارے میں تفصیلی آگاہی فراہم کی ہے۔

ان مسائل کی وجہ سے انہوں نے اپنے سکول میں واحد قومی نصاب پڑھانا شروع نہیں کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چونگی امر سدھو میں واقع تقریباً 20 دیگر نِجی سکول بھی اس پر عمل درآمد نہیں کر رہے حالانکہ صوبائی محکمہِ تعلیم نے انہیں خبردار کر رکھا ہے کہ نیا نصاب نہ پڑھانے کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی اور انتظامی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ایک قوم ایک نصاب

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے 2018 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے ایک قوم ایک نصاب کے انتخابی نعرے کو عملی شکل دینے کے لیے قومی نصاب کونسل تشکیل دی جس میں ایسے 400 افراد شامل تھے جو مختلف تعلیمی شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ واحد قومی نصاب اسی کمیٹی نے تشکیل دیا ہے۔

یہ نصاب تین سال میں نافذ کیا جائے گا۔ پہلے سال (22-2021) میں اس کا نفاذ پہلی جماعت سے لے کر پانچویں جماعت تک کیا جائے گا۔ 23-2022 میں اس کا اطلاق چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک ہوگا اور اس سے اگلے سال اس کا دائرہِ عمل نویں اور دسویں جماعت تک پھیلا دیا جائے گا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس نصاب کا بنیادی مقصد پاکستان بھر میں یکساں نظامِ تعلیم متعارف کرانا ہے تا کہ مذہبی مدرسوں سے لے کر انگریزی میں تعلیم دینے والے مہنگے نِجی سکولوں تک وہی درسی کتابیں پڑھائی جائیں جو سرکاری سکولوں میں رائج ہیں۔ اس کا دوسرا مقصد قومی یک جہتی، پاکستانیت اور اسلام کو فروغ دینا ہے۔

حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ آخری بار قومی سطح پر تعلیمی نصاب کی تشکیل 2006 میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت کی گئی اختیارات کی منتقلی کے نتیجے میں صوبوں نے اپنا علیحدہ علیحدہ نصاب تشکیل دینا شروع کیا جو، حکومتی عہدے داروں کے مطابق، ایک دوسرے سے اتنا مختلف ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعلیمی صلاحیتیں ہی یکساں نہیں رہیں۔

پنجاب کے صوبائی وزیر تعلیم مراد راس کے بقول یہ صوبائی نصاب نہ تو جدید تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ تھا اور نہ ہی اس میں شامل مواد تحقیق اور تصدیق کے مصدقہ معیار پر پورا اترتا تھا۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئے نصاب میں صوبائی تفریق ختم کر کے اسے پورے ملک کے لیے یکساں بنا دیا گیا ہے جبکہ اس کے تحت بنائی گئی کتابوں میں دی گئی معلومات کا مصدقہ ہونا یقینی بنایا گیا ہے۔

یکساں تعلیمی نصاب بنانے کی اس طرح کی پہلی کوشش جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت میں کی گئی تھی۔ انہوں نے 1959 میں ایس ایم شریف کی سربراہی میں ایک قومی تعلیمی کمیشن بنایا تھا جس کا بدیہی مقصد تعلیمی نظام کو معاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں بنانا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دینے اور اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی پرزور سفارش کی تا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں میں مذہبی اتحاد اور پاکستانی قومیت کا احساس پیدا کیا جا سکے۔

لیکن عملی طور پر اس کی سفارشات نہ صرف مشرقی اور مغربی پاکستان میں لسانی، سیاسی اور معاشی تقسیم کو بڑھاوا دینے کا سبب بنیں بلکہ ان کی وجہ سے تعلیمی نظام کے اندر طبقاتی تقسیم میں بھی اضافہ ہو گیا کیونکہ صاحبِ حیثیت لوگوں نے اپنے بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا جہاں ذریعہ تعلیم اُردو نہیں انگریزی تھا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے تیار کردہ واحد قومی نصاب کو بھی انہی بنیادوں پر مخالفت کا سامنا ہے۔

مثال کے طور پر سندھ حکومت نے اس نصاب کو اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو دیے گئے اختیارات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اسے اپنے صوبے میں نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح حکومتِ بلوچستان نے اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وفاقی حکومت کی ہدایات کے باوجود نئے نصاب کو نافذ کرنے کی تا حال کوئی کوشش نہیں کی۔ نتیجتاً یہ نصاب صرف اسلام آباد،  پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیا جا رہا ہے کیونکہ ان تینوں علاقوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔

 لیکن ان علاقوں میں بھی افضل رضا کے سکول کی طرح ہزاروں نِجی سکولوں نے واحد قومی نصاب کا اطلاق کیے بغیر ہی اپنا نیا تعلیمی سال شروع کر دیا ہے۔ کچھ نِجی تعلیمی ادراوں نے تو حکومت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اس کے نفاذ کا ارادہ نہیں رکھتے۔

ایسے اداروں میں سرِفہرست لاہور کا ایچی سن کالج ہے جہاں وزیر اعظم عمران خان سمیت پاکستان کے حکمران طبقے کے کئی افراد تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ جب اس سال کے آغاز میں واحد قومی نصاب کے نفاذ کے بارے میں خبریں آنا شروع ہوئیں تو اس کالج کے پرنسپل مائیکل تھامسن نے اپنے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کو 2 فروری 2021 کو ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ "میں واحد قومی نصاب کے مبینہ اثرات کے بارے میں کچھ والدین کی بے چینی سے آگاہ ہوں" لیکن ان کا کہنا تھا کہ "ایچی سن نے اس مسئلے پر اپنا موقف واضح کر دیا ہے" جو یہ ہے کہ اس کے طالب علم اس کا اپنا پرانا نصاب ہی پڑھتے رہیں گے۔

اس خط کے کچھ عرصے بعد تعلیمی نصاب اور درسی کتابوں سے متعلق حکومتِ پنجاب کے محکمے نے 25 اگست کو ایچی سن کو ایک خط بھیجا جس میں مائیکل تھامسن سے بڑی مودبانہ گزارش کی گئی کہ وہ اپنے ادارے میں ایسی کتابیں نہ پڑھائیں جنہیں سرکاری طور پر منظور نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں مراد راس نے 7 ستمبر کو اس خط کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ واحد قومی نصاب کے اطلاق سے کسی سکول کو چھوٹ نہیں ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ "وہ حکومت کے اختیار کو چیلنج کرے"۔

جواباً ایچی سن کے پرنسپل نے اسی دن والدین کے نام لکھے گئے ایک خط میں مراد راس کی ٹویٹ کو ایک "غیر معمولی" عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ "وہ والدین جو مجھے جانتے ہیں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ایچی سن اپنے تعلیمی پروگرام پر اس کی درست روح کے مطابق عمل درآمد کر رہا ہے"۔

اگلے ہی دن مراد راس نے اس معاملے پر دوبارہ ٹویٹ کی اور لکھا: "واحد قومی نصاب کے نفاذ کے خلاف سرگرم مافیا والے ان پر ذاتی حملے کر کے ان کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کیونکہ واحد قومی نصاب کا نفاذ مکمل طور پر اور اس کی اصلی روح کے مطابق کیا جائے گا۔ ان مافیا والوں کے مفادات ذاتی اور ذہنیت غلامانہ ہے"۔

تاہم اس تنازعے کے بعد حکومت نے اپنا موقف نرم کر لیا اور قومی نصاب کونسل کے اراکین نے کہنا شروع کر دیا کہ یکساں قومی نصاب پر مشاورت فی الحال جاری ہے جس کا سادہ زبان میں مطلب یہ تھا کہ ایچی سن جیسے ادارے جو اس پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

سرکاری اور نِجی تعلیم میں فرق

پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس 2016-17 کے مطابق پرائمری سکولوں کی کل تعداد ایک لاکھ 50  ہزار ایک سو 29 ہے جن میں سے 1 لاکھ 19 ہزار ایک سو 49 کا تعلق سرکاری اور 18 ہزار 7 سو 53 کا تعلق نجی شعبے سے ہے (جو ایچی سن کی طرح شاید ہی واحد قومی نصاب کا اطلاق کریں)۔

ڈان اخبار سے وابستہ سینئر صحافی اور قومی نصاب کونسل کی رکن زبیدہ مصطفیٰ کہتی ہیں کہ واحد قومی نصاب آخر میں انہی سرکاری سکولوں کے لیے ہی رہ جائے گا "جس کی وجہ سے سرکاری اور نِجی تعلیم میں موجود فرق مزید بڑھ جائے گا"۔

ماہر تعلیم اور وفاقی وزارتِ تعلیم کی تکنیکی مشیر ڈاکٹر عائشہ رزاق بھی کہتی ہیں کہ واحد قومی نصاب کے نفاذ کے لیے بنائی گئی پالیسی ملک کے تعلیمی معیار میں یکسانیت لانے کے بجائے طبقاتی تقسیم کو مزید پختہ کر رہی ہے کیونکہ اس کے تحت نِجی شعبے کے اشاعتی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ حکام سے منظوری لینے کے بعد کسی بھی مضمون اور کسی بھی جماعت کی کتاب چھاپ لیں اور اس کی قیمت بھی اپنی مرضی سے طے کر لیں۔ نتیجتاً مختلف اشاعتی اداروں کی چھاپی ہوئی ایک ہی کتاب کا معیار اور قیمت دونوں مختلف ہو سکتے ہیں۔

عائشہ رزاق کے بقول اس کا نتیجہ یہ نکلے گا "بیشتر سرکاری سکول اعلیٰ معیار کی چھپی ہوئی کتابیں لاگو کرنے کے متحمل نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے طلبا ان کی قیمت ادا نہیں کر پائیں گے اور یوں وہ غیر معیاری کتابیں استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے"۔

تاریخ اشاعت 8 اکتوبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.