نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

postImg

منیش کمار

postImg

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

منیش کمار

وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن سندھ کے کسانوں کی جانب سے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ دریا سے مزید نہریں نکالنے سے اُن کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ حکومت کی جانب سے منصوبے کے متعلق رازداری برتنے کے اقدام نے شکوک کو ہوا دی ہے۔

ماہرین، سندھ کے کسانوں کے ان خدشات کو بے بنیاد قرار نہیں دیتے۔

وفاقی حکومت کے ادارے سنٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی( سی ڈی ڈبلیو پی) نے 12 اکتوبر کو 231 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری دی اور اسے آگے بڑھانے کے لیے معاملہ خاموشی سے نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی ( ایکنک) کو ارسال کر دیا۔

یہ منصوبہ 'چولستان کینال' کے پہلے مرحلے کی تعمیر کا ہے جس کی بین الصوبائی خدشات کے باوجود منظوری وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں دی گئی۔

اگرچہ اس اجلاس کے فیصلوں کا اب تک باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تاہم اگلے ہی روز یعنی 13 اکتوبر کو سندھ حکومت نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔

 ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے 'چولستان کینال اینڈ سسٹمز فیز ون' کی لاگت کا تخمینہ 211 ارب 34 کروڑ روپے لگایا ہے جبکہ منصوبے کے راستے سے دفاعی تنصیبات کی منتقلی کے اخراجات ساڑھے 19 ارب کروڑ روپے بتائے جا رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایکنک کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ کیا پانی کے اس منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظوری کے بغیر آگے بڑھایا جا سکتا ہے یا نہیں؟

اس رپورٹ کے مطابق مجوزہ کینال کا منصوبہ 'گرین پاکستان انیشیٹو'کا حصہ ہے جس کو وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی حمایت حاصل ہے۔

گرین پاکستان انیشیٹو

وفاقی حکومت 'گرین پاکستان انیشیٹو' کے تحت آئندہ چار پانچ سال کے دوران زرعی شعبے میں 30 سے 50 ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری لانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن سنٹر  (ایس آئی ایف سی) پہلے ہی خوراک و زراعت کے منصوبوں سمیت 28 پراجیکٹس کی منظوری دے چکا ہے۔

اس پروگرام کا مقصد پاکستان بھر میں نو کروڑ 10 لاکھ ایکڑ غیر آباد زمینوں کو زراعت، لائیو سٹاک اور فارمنگ کے لیے زیر استعمال لانا ہے جس میں سرمایہ کاری کے لیے سعودی عرب، قطر، بحرین اور عرب امارات سمیت خلیجی ممالک دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

چولستان کینال کا منصوبہ منظر عام پر آتے ہی مزید پانچ نہریں نکالنے کی اطلاعات گردش کرنے لگیں تو سندھ بھر میں سیاسی، سماجی اور کسان تنظیموں کا احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے۔

نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ کیا ہے

انجنیئر ابھایو خشک، آبی امور کے ماہر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملک میں بنجر زمینوں کی آباد کاری کے لیے چھ نہریں نکالنے کا منصوبہ تو بہت عرصے سے زیر بحث ہے مگر حالیہ دنوں میں اس میں پیشرفت نظر آئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے میں دو نہریں سندھ کی ہیں، ایک سکھر بیراج سے نکالی گئی رینی کینال کا فیز ٹو ہے جس میں سے اب تھر کینال بھی نکالی جائے گی۔

تیسری نہر تونسہ بیراج سے بلوچستان کے لیے نکالی گئی کچھی کینال کا فیز ٹو ہے اور چوتھی چشمہ رائٹ بینک کینال کا فیز ٹو ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت پنجاب کے لیے دو نہریں بنائی جانی ہیں جن میں گریٹر تھل کینال کا فیز ٹو اور چولستان کینال شامل ہے۔ ان دونوں نہروں کو بھی دریائے سندھ سے پانی فراہم کیا جائے گا۔

"اصل مسئلہ چولستان کینال ہے جس کے لیے پانی دریائے چناب کے ذریعے ستلج میں ڈالا جائے گا اور وہاں سے چولستان کو ملے گا۔ پہلے مرحلے میں اس مقصد کے لیے ارسا سے چھ لاکھ ایکڑ رقبے کے پانی کی منظوری لی گئی مگر اب مزید 20 لاکھ ایکڑ کے لیے پانی مانگا گیا ہے۔"

صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو بتاتے ہیں کہ ایسے متنازع منصوبے پر سندھ کو سخت اعتراضات ہیں جن کے باوجود چولستان کینال کا معاملہ سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھیج دیا۔ وہ اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے پر زور احتجاج کا اعلان کرتے ہیں۔

صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو بتاتے ہیں کہ ایسے متنازع منصوبے پر سندھ کو سخت اعتراضات ہیں جن کے باوجود چولستان کینال کا معاملہ سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھیج دیا۔ وہ اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے پر زور احتجاج کا اعلان کرتے ہیں۔

 وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی وزیر منصوبہ بندی اور نائب وزیر اعظم کو خط  لکھا ہے جس میں سی سی آئی کا اجلاس بلاکر نہروں سے متعلق فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

سندھ کو نئی نہروں پر اعتراضات کیوں ہیں؟

جام خان شورو کہتے ہیں کہ چولستان کے لیے پہلے صرف سیلابی پانی لینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، لیکن سی ڈی ڈبلیو پی نے اس کو مستقل (Perennial) کینال میں بدل دیا ہے۔ سندھ پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہےاس فیصلے سے صوبے کی زمین بنجر ہو جائے گی۔

سندھ، ملک کا نچلا علاقہ (Lower riparian) ہونے کے ناطے ہمیشہ کوٹری بیراج سے نیچے دریا میں پانی نہ ملنے کا شکوہ کرتا آرہا ہے  جبکہ عالمی سماجی و ماحولیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ سمندر میں پانی کی طے شدہ مقدار(10 ملین ایکڑ فٹ) نہ چھوڑی گئی تو انڈس ڈیلٹا برباد ہو جائے گا۔

انڈس ڈیلٹا کیا ہے؟

میدانوں سے گزرتے دریا جہاں جہاں رخ بدلتے ہیں یا سمندر میں گرتے ہیں تو وہاں ایک نئی دھرتی کو جنم دیتے ہیں جسے 'ڈیلٹا' (بیٹ یا کچا)کہا جاتا ہے۔

فرات و دجلہ کا ہمسر دریائے سندھ (شیر دریا) ہمالیہ، قراقرم کے پہاڑوں، وادیوں اور پنجاب و سندھ کے میدانوں سے ہوتا ہواجب کوٹری پہنچتا ہے تو پانی کے ساتھ لاکھوں ٹن زرخیز مٹی بھی لاتا ہے۔ یہ مٹی صدیوں جمع ہوتی رہی جس سے ایک وسیع علاقے نے جنم لیا جو 'انڈس ڈیلٹا' کہلاتا ہے۔

دریا میں آنےوالا یہ پانی اور مٹی نہ صرف سمندر کو پیچھے دھکیلتے ہیں بلکہ اپنی زرخیزی کی وجہ سے مینگروز یعنی تمر کے جنگلات، بلائنڈ ڈولفن، 'پلا' سمیت مختلف مچھلیوں ، کیکڑے، کریب وغیرہ کے لیے بھی نرسری کا کام کرتی ہے۔

تمر کے جنگلات سمندری طوفانوں، سونامی کو روکنے میں دیوار کا کام کرتے ہیں اور سمندر کو آگے بڑھنے سے بھی روکتے ہیں۔

پرویز مشرف دور میں ملک میں جب گریٹر تھل کینال، کچھی کینال وغیرہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت سیلابی پانی کے "ضیاع" پر بحث چھڑ گئی تھی۔

اسی دوران 'شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(زابسٹ) نے 10 جولائی 2003ء کو لاہور میں ایک تحقیقی سیمینار کا اہتمام کیا تھا۔

اس سیمینار کا عنوان تھا "کوٹری بیراج سے نیچے دریائے سندھ کا بہاؤ: ضرورت یا ضیاع؟" سیمینار میں اس وقت کے چیئرمین واپڈا، چیئرمین ارسا اور کئی ایوارڈ یافتہ ماہرین و انجنیئرز نے شرکت کی۔ اس سیمینار کی رپورٹ  بعد ازاں عوام کے لیے جاری کی گئی تھی۔

زابسٹ کی مرتب کردہ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دریائے سندھ کی کوٹری سے سمندر تک لمبائی تقریباً 280 کلومیٹر( 174 میل) ہےجو ایک محور یا قوس بناتا ہوا 17 کریکس(کھاڑیوں یا شاخوں) کی صورت میں بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔

یہ مثلث نما انڈس ڈیلٹا 14 لاکھ 86 ہزار 632 ایکڑ (چھ لاکھ ہیکٹر) رقبے پر محیط ہے جو کوٹری سے آگے 16 کلومیٹر چوڑی دریائی پٹی اور کراچی سے رن آف کچھ تک(220 کلومیٹر) پھیلا ہوا ہے۔

ڈیلٹا، ماحولیات اور قدرتی وسائل

اس رپورٹ کے مطابق ڈیلٹا میں انحطاط کے باوجود (2002ء کے اعدادوشمار) 88 ہزار 882 ایکڑ رقبے پر جنگلات(گھنی جھاڑیاں)، 95 ہزار ایکڑ سے زائد زرعی زمینیں اور چھ لاکھ 42 ہزار 474 ایکڑ رقبے پر مینگروو کے جنگلات ہیں۔

زرعی زمینوں، باغات، ندیوں، دریا کے متروک راستوں(ڈھورے) اور جھیلوں (ڈھنڈوں) پر مشتمل یہ کچے کا علاقہ ایک عشرہ پہلے تک بے پناہ حیاتیاتی تنوع، ماہی گیری اور قدرتی وسائل سے مالا مال تھا۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر  (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کہتا ہے کہ انڈس ڈیلٹا دنیا کا پانچواں بڑا ڈیلٹا ہے جس میں مینگروز کے ساتویں بڑے جنگلات واقع ہیں۔اس علاقے کو پانچ نومبر 2002ء کو 'رامسر ویٹ لینڈ' کا درجہ دیا گیا تھا۔

انڈس ڈیلٹا کی تباہی کب اور کیسے

زابسٹ کی رپورٹ(2003ء)کہتی ہے کہ ماضی میں(معاہدہ سندھ طاس سے قبل) دریا ڈیلٹا کے لیے سالانہ تقریباً 150 ملین ایکڑ فٹ پانی کے ساتھ لگ بھگ 400 ملین میٹرک ٹن زرخیز مٹی(گاد) ساتھ لاتا تھا۔

لیکن بیراجوں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے بعد پانی کا بہاؤ کم ہو کر اوسطاً 10 ملین ایکڑ فٹ رہ گیا جو تقریباً 100 میٹرک ٹن مٹی لانے لگا۔

 99-2000ء میں کوٹری بیراج سے نیچے(ڈاؤن سٹریم) پانی کا بہاؤ 8.83 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کیا گیا اور بعد کے سالوں میں بہاؤ مزید کم ہو گیا۔

دریائے سندھ میں پانی کی کمی کا آغاز انگریز دور کے منصوبوں سکھر بیراج، منگلا و تربیلا ڈیمز سے ہوا۔ لیکن 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں کوٹری و گدو بیراج بننے پر پانی مزید کم ہوا تو ڈیلٹا سکڑنا شروع ہو گیا۔

ماہرین نے زابسٹ سیمینار میں سفارش کی تھی کہ ڈاؤن سٹریم میں معاہدے کے مطابق پانی کا بہاؤ کم از کم 10 ملین ایکڑ فٹ ہر صورت برقرار رکھا جائے۔

لوگوں کی نقل مکانی، زمین سمندر نگل رہا ہے

محمد اسلم سموں، انڈس ڈیلٹا کے قدیمی مرکز 'کیٹی بندر ٹاؤن' کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق ایک عشرہ قبل کیٹی بندر کے نواح میں 10، 15 سال پہلے تک 48 گاؤں آباد تھے جہاں اب 10 باقی رہ گئے ہیں جبکہ کھاروچھان کے 38 گاؤں میں سے صرف تین ہی آباد ہیں دیگر تمام ویران ہو گئے۔

"ڈیلٹا سرخ چاول، دودھ، مکھن، شہد اور پلا مچھلی کی پیداوار کے لیے مشہور تھا، لوگ دور دور سے یہاں مزدوری کے لیے آتے تھے۔ لیکن اب ہم اسے اپنے سامنے دم توڑتے دیکھ رہے ہیں۔ ہزاروں خاندان یہ علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور باقی دیگر علاقوں میں مزدوری کے لیے در بدر پھر رہے ہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ 1991ء کے بین الصوبائی معاہدے(واٹر اکارڈ) میں طےکیا گیا تھا کہ ڈیلٹا کے ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) کو بچانے کے لیے سالانہ دس ملین ایکڑ فٹ پانی برقرار رکھا جائے گا مگر اس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔

پاک امریکا سنٹرز فار ایڈوانسڈ سٹڈیز ان واٹر  نے انحطاط پذیر انڈس ڈیلٹا کو بچانے کے لیے 2018ء میں ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں بتایا گیا کہ ڈیلٹا کے اچھے دنوں میں یہاں دریا کی 17 شاخیں  (کریک) ہوا کرتی تھیں جن میں سے اب صرف دو فعال رہ گئی ہیں۔

ڈیلٹا کے لیے 1935ء سے 2017ء تک دریا کے پانی میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ سے سمندر ڈیلٹا کا تقریباً 80 ایکڑ رقبہ روزانہ تباہ کر رہا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دو صدیوں میں ڈیلٹا کا 92 فیصد زرخیز رقبہ سمندر برد ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

چوبارہ برانچ پر سندھ کا اعتراض: 'تھل میں ایک نئی نہر بنانے سے ہمارے حصے کا پانی اور بھی کم ہو جائے گا'۔

سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سمندر اب تک ساحلی اضلاع کی 23 لاکھ ایکڑ  زمین نگل چکا ہے۔

یہاں تمر کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں جبکہ1951 میں یہاں دریائی مچھلی کی پیداوار پانچ ہزار ٹن تھی جو محض 300 ٹن رہ گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی سابق سینیٹر سسی پلیجو کا تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر دریا میں پانی کی یہی صورت حال رہی تو 2050ء تک ٹھٹہ، سجاول اور بدین کی زیادہ تر زمین سمندر کھا جائے گا۔

پاک امریکن سنٹرز کے ماہرین  نے بھی تجویز کیا تھا کہ ڈیلٹا میں ماحولیاتی استحکام، ماہی گیری، دریائی چینل کو برقرار رکھنے اور سمندر کو روکنے کے لیے کوٹری سے نیچے سال بھر پانچ ہزار کیوسک پانی کا اخراج یقینی بنانا ہو گا۔

ورلڈ بینک  کی رپورٹ کہتی ہے کہ انڈس ڈیلٹا کی تنزلی (degradation) سے ملک کو سالانہ تقریباً دو ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

 لیکن بد قسمتی سے ملک کے بیشتر شہریوں میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سمندر میں جانے والا پانی ضائع ہورہا ہے اور نہروں اور آبی ذخائر کے مخالف ملکی ترقی کے "مخالف" ہیں۔

انجنیئر اوبھایو خشک کو خدشہ ہے کہ اگر چولستان کینال بن گئی تو سکھر بیراج کے لاکھوں ایکڑ کمانڈ ایریا کے لیے پانی نہیں بچے گا اور سندھ ویران ہو جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ1991ءکے معاہدے کے تحت پنجاب کے حصے میں جو پانی آتا ہے وہ سارا وہی استعمال کرتا ہے۔ اب وہاں نئی زمینیں آباد کرنے کے لیے جتنا بھی مزید پانی جائے گا یہ سندھ کے ہی حصے سے لیا جائے گا۔

سندھ کی سیاسی و سماجی تنظیمیں نئے کینال منصوبوں کو رد کرتی ہیں۔بدین میں پاکستان فشر فوک فورم کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ مہران شاہ فشر فوک فورم کے چیئرمین ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چھ کینالیں بنانے کا منصوبہ سندھ کے لیے ایک نہیں، دو کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کے برابر ہے۔

کراچی میں 17 نومبر کو سندھیانی تحریک نے ریلی نکالی جس میں محمد اسلم سموں بھی شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیلٹا دھیرے دھیرے مر رہا ہے، ماہی گیری، زراعت اور لوگ سب تباہ ہورہے ہیں۔

"لیکن ہمارے حکمران ایک طرف تو انڈس ڈیلٹا کو درکار پانی نہیں دیتے، اوپر سے بارشوں اور سیلاب کاجو تھوڑا بہت پانی آتا ہے وہ بھی روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔"

تاریخ اشاعت 30 نومبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

منیش کمار ملٹی میڈیا صحافی ہیں، جن کا تعلق تھرپارکر سندھ سے ہے، وہ ماحولیات، ماحولیاتی تبدیلی، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.