ادھیڑ عمر محمد ولی گلگت شہر میں لکڑی کے ایک کارخانے میں کاریگر ہیں۔ وہ گذشتہ 20 سال سے عمارتی لکڑی پر برقی مشینوں کے ذریعہ نقش و نگار بناتے ہیں جس سے ان کا اچھا گزر بسر ہو جاتا ہے۔
لیکن ہر سال کی طرح سے پچھلے سال نومبر میں سردیوں کے آغاز سے ہی ان کا کاروبار ٹھپ ہے جس کی بنیادی وجہ بجلی کی عدم فراہمی ہے۔
محمد ولی کا کہنا ہے کہ سردیوں میں 24 گھنٹے میں بمشکل تین گھنٹے تک بجلی دستیاب ہوتی ہے۔ ان کے مطابق گلگت بلتستان میں مارچ کے آخر میں جاڑے کی شدت میں کمی کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
محمد ولی کہتے ہیں کہ گرمیوں میں جب بجلی کا مسئلہ نہیں ہوتا تو کارخانے دن رات چلتے ہیں اور وہ ڈبل شفٹ میں کام کر کے روزانہ آٹھ ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔
"لیکن سردیوں میں پورے ہفتے میں بس تین ہزار روپے تک ہی بن پاتے ہیں"۔
گلگت شہر میں ان کارخانوں کی تعداد 100 سے زائد ہے اور ہر کارخانہ میں اوسطاً 10 افراد کام کرتے ہیں۔
محمد ولی بتاتے ہیں کہ سردیوں میں ان کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ کھانا پکانے، پانی گرم کرنے اور دیگر گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں بازار سے جلانے کی لکڑی لانا پڑتی ہے۔
اس سال گلگت شہر میں جلانے کی لکڑی کی قیمت ایک ہزار روپے فی من رہی اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے کو سردیوں کے موسم میں ہر ماہ 20 من لکڑی درکار ہوتی ہے۔یعنی ایک ماہ میں صرف ایندھن پر 20ہزار روپے کا خرچ۔
گلگت بلتستان میں سردیوں کے مہینوں میں بجلی سے متاثر ہونے والوں میں محمد ولی اکیلے نہیں بلکہ بجلی سے جڑے ہر کاروبار اور اس سے منسلک ہر شخص پر اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔
سلمان احمد گلگت شہر میں ایک نجی کلینک میں بطور لیبارٹری اسسٹنٹ کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب سے سردیاں شروع ہوئی ہیں تو بجلی کی ترسیل کا دورانیہ بھی کم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے کاروباری معمولات بھی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
"بجلی صرف رات کو فراہم کی جاتی ہے اور اُس وقت تک تمام کلینک اور لیبارٹریاں بند ہو چکی ہوتی ہیں"۔
بجلی کے متبادل کے طور پر وہ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر سے کام چلاتے ہیں لیکن سلمان کہتے ہیں کہ ایک طرف تو یہ بہت مہنگا پڑتا ہے جس کا بوجھ مریضوں پر ہی پڑتا ہے تو دوسری طرف یہ ماحولیاتی اور صوتی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے۔
"لیکن اس کے سوا کوئی دوسرا چارا ہی نہیں کیونکہ سردی میں سینے اور وبائی امراض بڑھ جاتے ہیں اور ہمیں لیبارٹری چلانے کے لیے چار و نا چار جنریٹر پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے"۔
شمسی توانائی اس کا ایک بہتر نعم البدل ہو سکتا ہے لیکن گلگت بلتستان میں فی الوقت لوگوں کا رجحان اس جانب نہیں ہے۔
بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے گلگت میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں
گلگت بلتستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر گلگت بلتستان کے ہر ضلع میں منعقد کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ان مظاہروں اور مطالبات پر عوامی ایکشن کمیٹی کے ترجمان آفاق احمد کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہ کرنا حکمران طبقے کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کا ایک ثبوت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ بجلی کے بلوں میں نومبر اور دسمبر کے مہینے سے شامل کی گئی لائن رینٹ اور میٹر کی تنصیب کی چار ہزار روپے فِیس کو بھی ’’مہنگائی میں پسے ہوئے‘‘ صارفین پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔
یہ مظاہرے کم از کم اس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوئے کہ حکومت نے 200 روپے ماہانہ لائن رینٹ معطل کر دیا۔
گلگت بلتستان میں پانی اور بجلی کے محکمہ (واٹر اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان) کے مطابق گلگت بلتستان کے 10 اضلاع میں 202 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت ہے۔ لیکن اس وقت صرف 91 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ نالوں میں سردی کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بہت کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
اس 91 میگاواٹ میں سے 13.7 میگاواٹ سے زائد بجلی تھرمل جنریٹرز کی مدد سے جبکہ 77.3 میگاواٹ بجلی پانی کے ذریعہ پیدا کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف اس خطے میں بجلی کی طلب 264 میگاواٹ ہے۔
اس طرح گلگت بلتستان کو 173 میگاواٹ کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے سردیوں میں 20 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔
گلگت بلتستان کے محکمہ پانی اور بجلی کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع گلگت میں بجلی کی طلب 90 میگاواٹ جبکہ پیداوار 32 میگاواٹ ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کے محکمہ واٹر اینڈ پاور کے ٹرانسفر ہونے والے سیکرٹری ظفر وقار تاج کہتے ہیں کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بہتر کرنے کے علاوہ طویل اور قلیل مدتی منصوبوں پر بھی غور و خوص کیا جا رہا ہے’’تاہم سردیوں میں بجلی کی قلت اور پیداواری صلاحیت کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔‘‘
چھ سال قبل تک گلگت بلتستان حکومت کو صرف 25 کروڑ روپے تک کے منصوبوں کی منظوری کے اختیارات حاصل تھے جس کی وجہ سے دریا کے چلتے پانی پر بجلی گھر بنانا ممکن نہ تھا۔
ظفر تاج کے مطابق یہی وجہ ہے ’’اب تک صرف قدرتی نالوں پر کم لاگت کے بجلی گھر بنائے گئے جہاں سردیوں میں پانی کم ترین سطح پر آ جاتا ہے جس کا اثر لامحالہ بجلی کی پیداوار پر ہوتا ہے۔‘‘
ظفر وقار کا کہنا ہے کہ 2016ء میں اس حد کو ایک ارب روپے کر دیا گیا جس کی وجہ سے موجودہ وقت میں بہتے پانی سے بجلی حاصل کرنے کے کچھ منصوبوں پر کام جاری ہے۔
اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں سیزن کے دوران سرمیک سکردو اور شگر میں دو دو میگاواٹ کے منصوبوں کو منظوری کے لیے ایگزیکٹو کمیٹی آف دی اکنامک کونسل (ایکنک) میں پیش کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گلگت بلتستان میں بجلی گھروں کی تعمیر: اپنے حقوق تسلیم کرانے کے لیے دیہاتیوں کا کامیاب احتجاج۔
"چپورسن ہنزہ میں ایک میگاواٹ کے علاوہ 20 منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے جس سے سستی اور صاف بجلی عوام کو دستیاب ہو گی۔ گلگت میں ہینزل پاور پراجیکٹ پر بھی کام جاری ہے"۔
ظفر وقار کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں بجلی کے بِلوں کی بر وقت ادائیگی ایک چیلنج ہے جس وجہ سے بجلی کی فراہمی کے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ان کے مطابق 2022ء کے آخر تک 34 کروڑ روپے نادہندگان پر واجب الادا ہیں۔ اب باقاعدہ طریقہ کار وضع ہو رہا ہے جس کے تحت نہ صرف بجلی کی چوری روکی جائے گی بلکہ بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی جس میں بجلی کا کنکشن کاٹنا، جرمانہ لگانا اور جیل بھیجنا بھی شامل ہے۔
تاریخ اشاعت 21 مارچ 2023