خیبر پختونخوا حکومت نے 2011ء میں صوبے میں پانچ مادری زبانوں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا جن میں پشتو، ہندکو، سرائیکی، کھوار اور کوہستانی شامل ہیں۔ چار زبانوں کی تعلیم تو سکولوں میں 2016ء ہی سے شروع کر دی گئی مگر کوہستانی زبان کی تدریس کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
ایسا نہیں کہ حکومت کوہستانی زبان پڑھانے میں مخلص نہیں یا اس کے لیےکوشش نہیں کی گئی بلکہ خرابی کہیں اور ہے۔
جب کوہستانی نصاب کی تیاری شروع ہوئی تو شینا کوہستانی اور انڈس کوہستانی بولنے والوں کے درمیان تنازع کھڑا ہو گیا۔ دونوں کا اصرار تھا کہ ان کی زبان ہی اصل کوہستانی ہے۔ نتیجتاً اس زبان کا نصاب ہی نہیں بن پایا۔
تو آخر ان میں سے کوہستانی زبان ہے کون سی؟
ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں اور وادیوں (بشمول کوہستان ریجن) میں رہنے والی مختلف کمیونیٹیز (قبائل، گروہ یا برادریاں) صدیوں سے اپنی اپنی الگ زبانیں بولتی چلی آ رہی ہیں۔ جن میں شینا، شینا کوہستانی (شینا کا لہجہ)، انڈس کوہستانی (مایو زبان)، کھوار، گاؤری، توروالی، کلاشا، پلولہ، دمیلی، گوارباتی، کلکوٹی، چھیلیسو، گاؤرو، بروکسکت، بروشسکی وغیرہ شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہنزہ کی زبان بروشسکی کے سوا یہ زبانیں ایک ہی لسانی گروپ داردی سے تعلق رکھتی ہیں جو خود ہند آریائی مہا گروپ کی ایک شاخ ہے لیکن ان میں سے ہر ایک زبان کا ذخیرہ الفاظ، صوتیات، گرائمر اور جملے کی ساخت علیحدہ ہے۔
ان برادریوں یا قبائل میں سے کوئی کسی دوسرے کی زبان کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی بول سکتا ہے۔ شینا کوہستانی اور انڈس کوہستانی بولنے والے بھی آپس میں بات چیت کے لیے اردو کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ تو پھر ان دو علیحدہ زبانوں کو ایک 'کوہستانی زبان' گرداننے کی غلط فہمی پیدا ہی کیوں ہوئی؟
کوہستانی کسی زبان یا کمیونیٹی کا نام نہیں، یہ وسیع جغرافیائی نسبت ہے
لفظ کوہستانی کا مطلب 'پہاڑی لوگ یا ان کا طرز زندگی' ہے یہ نہ تو کسی زبان یا کمیونٹی کا مخصوص نام ہے اور نہ ہی کسی ثقافت یا نسل کا۔ یہ جغرافیائی نسبت یہاں کے مقامی باشندوں اور ان سے منسوب ہر شے کو بیرونی حملہ آوروں اور حکمرانوں نے دی، جو
انہیں ان کی اصل شناخت سے محروم کر کے انہیں ایک ذیلی یا اضافی اکائی بنانا چاہتے تھے۔ تاہم مسلسل استعمال کے باعث یہ عام ہو گیا اور مقامی لوگوں کی نئی نسلوں نےلفظ کوہستانی کو اپنی شناخت میں شامل کر لیا۔
کوہستان ریجن ایک وسیع خطہ ہے جس کے علاقے ہزارہ کوہستان، انڈس کوہستان، سوات کوہستان(کالام) اور دیر کوہستان(کمراٹ وغیرہ) کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں جہاں الگ الگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔

شینا کوہستانی جو اصل میں شینا زبان ہی کا لہجہ ہے، ہزارہ کوہستان کے علاقوں بٹیرہ (لوئر کوہستان)، پالس، کولئی (ضلع کولئی پالس)، داسو، جلکوٹ، سازین، ہربن اور بھاشا (اپر کوہستان) میں بولی جاتی ہے۔ جبکہ مایو یا انڈس کوہستانی زبان، لوئر کوہستان میں بن کھڈ، رانولیا، دوبیر، جیجال اور پٹن، ضلع اپر کوہستان میں کمیلہ، سیو اور کندھیا وادی کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
آن لائن لینگویج ڈیٹا بیس کی ویب سائٹس ایتھنالاگ،گلاٹ لاگ اور یونیسکو بھی کوہستانی زبانوں کے نام شینا کوہستانی اور انڈس کوہستانی لکھتے ہیں۔
لیکن حکومت اور پالیسی ساز ادارے ان مختلف ثقافتوں کو ایک ہی – کوہستانی – سمجھنے اور کہنے کی سہولت سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں۔
مردم شماری نے ابہام کو حل کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیا
2023ء کی مردم شماری میں مادری زبانوں کے خانے میں ملک کی 14 زبانوں کو شامل کیا گیا تو اس میں کوہستانی کو ایک ہی زبان کے طور پر شامل کیا گیا۔ اس مبہم اصطلاح کے ساتھ خیبرپختونخوا کے لگ بھگ 10 لاکھ لوگوں کی مادری زبان کوہستانی لکھی گئی۔ یہاں بھی کیونکہ شینا اور انڈس کوہستانی میں تخصیص نہیں کی گئی اس لئے ان کے ایک ہی زبان ہونے کے بارے میں ابہام مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ لوگ شینا کوہستانی بولتے ہیں جبکہ تقریباً تین لاکھ انڈس کوہستانی بولتے ہیں۔ تاہم دونوں لسانی گروہوں کی بڑی تعداد خود کو کوہستانی ہی کہتی ہے۔

لفظ کوہستانی کے اصلاً نام کی بجائے ایک جغرافیائی نسبت ہونے کے باعث صرف مایو اور شینا والے ہی نہیں وادی کمراٹ میں بعض گاؤری بولنے والے اور بحرین (سوات) میں توروالی بولنے والے کچھ لوگ بھی اپنی زبانوں اور خود کو کوہستانی کہتے ہیں۔ یہ دونوں بھی ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ پاتے اور آپس میں بات چیت کے لیے اردو یا پشتو کا سہارا لیتے ہیں۔
تاہم 2023ء کی مردم شماری میں بحرین کے زیادہ لوگوں نے اپنی مادری زبان کوہستانی نہیں بتائی۔ پوری تحصیل میں ایک لاکھ 41 ہزار سے زائد افراد نے اپنی زبان دیگر کے خانے میں لکھوائی جبکہ لگ بھگ 30 ہزار نے اسے کوہستانی زبان بتایا جن میں توروالی، گاؤری اور گوجر بھی شامل ہیں۔
ان زبانوں کے لیے مبہم اور غیر مقامی اصطلاحات کا استعمال ترک ہونا چاہیے
غیر سرکاری اندازوں کے مطابق تحصیل بحرین میں اب توروالی زبان بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد، گاؤری کمیونٹی لگ بھگ 60 ہزار اور گوجر برادری کی آبادی تقریباً 40 ہزار بنتی ہے۔
لیکن کہا جا رہا ہے کہ حالیہ مردم شماری میں ان تین برادریوں کی کچھ آبادی کی مادری زبان پشتو لکھی گئی۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس تحصیل کی پشتو آبادی 60 ہزار کے قریب تھی جو 2023ء میں 96 ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے جبکہ اسی عرصے میں اس تحصیل کی مجموعی آبادی میں صرف 20 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔
توروالی، گاؤری اور گوجری زبانوں کی طرح چترال کی گوار باتی ، کھوار اور پلولہ زبانوں کا بھی خانہ موجود نہیں تھا۔ وہاں بھی کچھ لوگوں کو کوہستانی کے خانے میں ڈال دیا گیا۔

توروالی ہوں یا اس خطے کی دیگر داردی زبانیں بولنے والے لسانی گروہ، ان سب کا اباسین اور سوات کی قدیم گندھارا تہذیب سے قریبی تعلق ہے۔ یہ دھرتی جائے ہیں۔ ان کے لیے کوہستانی کی اصطلاح کا استعمال انہیں حاشیوں پر دھکیل کر انہیں ان کی تہذیب اور تاریخ سے جدا کرنے کے مترادف ہے۔
یہ زبانیں یہاں کے قدیم باشندوں کی الگ الگ ثقافت، سماجی روایات اور شناخت ہیں۔ ان زبانوں کے لیے مبہم اور غیر مقامی اصطلاحات کی بجائے وہ نام استعمال کیے جانے چاہیئں جو زیادہ مقامی اور علمی و تحقیقی حلقوں میں معروف ہیں۔
تاریخ اشاعت 7 مارچ 2025