انتخابات قریب آتے ہی شیخوپورہ میں انتخابی سرگرمیاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں اور حلقوں میں مقامی جوڑ توڑ کا سلسلہ آخر تک چلے گا۔
آٹھ فروری کو اس ضلعے کی چار قومی اور نو صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے جن میں کچھ ہائی وولٹیج حلقوں میں صورت حال انتہائی دلچسپ ہو چکی ہے۔
این اے 114 شیخوپورہ ٹو سے سابق وفاقی وزیر رانا تنویر حسین تین مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جو اس بار اپنی انتخابی مہم میں مخالفین پر تنقید کے ساتھ حلقے میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو اجاگر کر کے ووٹ مانگ رہے ہیں۔
رانا تنویر حسین جلسوں میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے پی ڈی ایم کے ڈیرھ سالہ دور حکومت میں شرقپور کے لیے 70 ارب کے میگا پروجیکٹس منظور کرائے ہیں عوام انہیں ووٹ دیں تاکہ وہ ان منصوبوں کو مکمل کرا سکیں۔
رانا تنویر حسین کے سیاسی حریف علی اصغر منڈا بیرون ملک اور فی الحال سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں۔ اب ان کی جگہ ان کے بھائی ارشد محمود منڈا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سردار علی آصف بھی پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یعنی سیاسی میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی کے سامنے دو نئے لوگ آئے ہیں۔
رانا تنویر حسین قومی نشست کے ساتھ صوبائی حلقہ پی پی 139 سے بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جہاں سے منتخب ہونے والے سابق ایم پی اے میاں عبدالراوف کو اب پی پی 140 شرقپور کا پارٹی ٹکٹ ملا ہے اور ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے اویس عمر ورک سے ہو گا۔
پی پی 140 میں سابق ایم پی اے افتخار بھنگو کو نظر انداز کرنا ن لیگ کو مہنگا پڑ گیا ہے کیونکہ انہوں نے رانا تنویر حسین کو چھوڑ کر ارشد منڈا اور اویس عمر ورک کی حمایت کر دی ہے۔ بھنگو کی محنت سے یہاں کی جٹ برادری کا اتحاد بھی تقیسم ہو گیا ہے جن میں سے ایک دھڑا منڈا گروپ اور دوسرا رانا تنویر کی حمایت کر رہا ہے۔
شرقپور سے ن لیگ کے سابق ایم پی اے میاں جلیل شرقپوری نے پی ٹی آئی کے امیدوار اویس عمر ورک کے حق میں الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔ ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مقامی سماجی شخصیت رانا عباس علی خان بھی موجود تھے جن کا شمار رانا تنویر حسین کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
میاں جلیل شرقپوری کے دست راست قربان شرقپوری بتاتے ہیں کہ میاں جلیل کے فیصلے کی وجہ اویس ورک کے والد سابق ڈی ایس پی عمر ورک کے ساتھ تعلقات اور میاں عبدالروف کا ماضی میں میاں جلیل کے ساتھ ہتک آمیز رویہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کہ گزشتہ الیکشن میں میاں جلیل ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے مگر وہ پارٹی سے کئی معاملات پر اختلاف رکھتے ہوئے بیان بازی کرتے تھے جن کو جواز بنا کر میاں عبدالراوف نے پنجاب اسمبلی کے باہر میاں جلیل کے سر پر لوٹا رکھا تھا اور ہتک آمیز جملے استعمال کیے تھے۔
ان کا ماننا ہے کہ افتخار بھنگو کو نظر انداز کرکے میاں عبدالروف کو پارٹی ٹکٹ دلوانا رانا تنویر حسین کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے کیونکہ افتخار بھنگو کے ساتھ دو دیگر امیدوار افضل ورک اور سابق ایم پی فیضان خالد بھی رانا تنویر کے مخالفین کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔
مسلم لیگ ن لاہور ڈویژن کے جنرل سیکرٹری اور رانا تنویر حسین کے قریبی ساتھی حکیم سلیم اللہ کا دعویٰ ہے کہ افتخار بھنگو اور دیگر کی پی ٹی آئی امیدواروں کی حمایت سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ علاقہ ن لیگ کا گڑھ ہے اور رانا تنویر کو لوگ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔
"ہم ڈور ٹو ڈور جا کر نواز شریف کی ملکی خدمات اور رانا تنویر حسین کے ترقیاتی کاموں کا بتا رہے ہیں۔ جن میں شرقپور سے لاہور ملتان روڈ لنک کے لیے موہلنوال پل، قائد اعظم یونیورسٹی کیمپس، کیڈٹ کالج اور عیسن موٹروے انٹرچینج کی منظوری، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا شیخوپورہ آفس اور درجنوں دیہات میں سوئی گیس کی فراہمی شامل ہیں۔"
مقامی سماجی ورکر اور صحافی فاروق چوہدری بتاتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ رانا تنویر حسین نے یقیناً ترقیاتی کام کرائے ہیں لیکن افتخار بھنگو کو نظر انداز کرنے اور میاں عبدالراوف کو یہاں لا کر الیکشن لڑانے کا رانا تنویر حسین کو نقصان ہوا ہے جس کا فائدہ مخالف امیدواروں کو ہو گا۔
سکھاں والا سٹاپ کے رہائشی حاجی سعید اپنے علاقے میں تحریک لبیک کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب لوگ برادری کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارکردگی اور نظریات کو ووٹ دے رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں روزانہ ان سے کئی ووٹر سوال اور بحث کرتے ہیں جبکہ انہیں ماضی میں کبھی ایسے سوالوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
بڑی برادریوں میں راجپوت، جٹ، ارائیں اور شیخ شامل ہیں۔
صوبائی نشست پی پی 139 میں رانا تنویر کا مقابلہ پی ٹی آئی کے اعجاز حسین بھٹی کر رہے ہیں جو پچھلے انتخابات میں ن لیگ کے عبدالراوف سے ہارے تھے۔ پی پی 138 میں ن لیگ کے سابق ایم پی اے پیر اشرف رسول کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ابوزر مقصود چدھڑ سے ہے جو گزشتہ الیکشن میں ان سے شکست کھا چکے ہیں۔
رانا تنویر حسین این اے 113 میں اپنے بھتیجے سابق چیرمین ضلع کونسل احمد عتیق انور کی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں جن کے مقابل پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے بریگیڈیئر ریٹائرڈ راحت امان اللہ امیدوار ہیں۔
راحت امان اللہ کے پرسنل اسسٹنٹ ملک عباس نے الزام عائد کیا ہے کہ تھانہ نارنگ منڈی کے ایس ایچ او نے انہیں بلوا کر وارننگ دی ہے کہ راحت امان اللہ کا کوئی بینر یا جھنڈا نہیں لگانا ہے ورنہ ایکشن لیا جائے گا۔
"یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار بلا روک ٹوک انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ہمیں کھل کر ووٹ مانگنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حالانکہ راحت امان اللہ عمر رسیدگی اور بیماری کے باعث انتخابی مہم خود نہیں چلا رہے۔ "
یہاں کے رہائشی سماجی کارکن رانا جعفر کا خیال ہے کہ رانا احمد عتیق انور آسانی سے الیکشن جیت جائیں گے کیونکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ راحت امان اللہ پچھلا الیکشن جیتنے کے بعد کبھی حلقے میں نظر ہی نہیں آئے جبکہ انکے مدمقابل امیدوار ہارنے کے باوجود لوگوں کے مسائل حل کرواتے تھے۔
این اے 115 میں ن لیگ کے میاں جاوید لطیف اور پی ٹی آئی کے خرم شہزاد ورک میں مقابلہ ہے جہاں خرم شہزاد نے صوبائی نشست پر 2022ء کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے میاں خالد محمود کو 18 ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا۔
میاں جاوید لطیف مسلسل تین بار اس قومی حلقے سے منتخب ہو چکے ہیں مگر اس بار دن رات کمپین میں مصروف ہیں۔ شیخوپورہ شہر کی نشست پی پی 141 سے جاوید لطیف نے پارٹی ٹکٹ اپنے بھائی میاں امجد لطیف کو دلوایا ہے جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر طیاب سندھو اور آئی پی پی کے میاں خالد محمود سے ہو گا۔
ن لیگ کے سابق ایم پی اے عارف خان سندھیلہ بتاتے ہیں کہ کارکنوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو مخاطب کر کے اخبار میں اشتہار شائع کرایا ہے جس میں میاں امجد کو ٹکٹ دینے پر سیٹ ہارنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
میاں جاوید لطیف انتخابی جلسوں میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ نواز شریف وزیر اعظم بن کر سی پیک مکمل کرائیں گے اور ملکی ترقی کا سفر شروع ہو گا۔ جبکہ وہ شیخوپورہ شہر میں ن لیگ کے ترقیاتی کاموں کو بھی اجاگر کر رہے ہیں۔
انجمن تاجران کے صدر امجد نذیر بٹ بتاتے ہیں کہ جاوید لطیف کو ترقیاتی کاموں کی وجہ سے تاجر برادری سپورٹ کر رہی ہے۔ جنہوں نے یہاں ڈی ایچ کیو میں سی ٹی سکین مشین ، انڈر پاسز، گرین بیلٹ، سٹیڈیم چوک، سپورٹس کمپلیکس، فٹ بال سٹیڈیم اور جناح پارک جیسے بڑے منصوبے مکمل کرائے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس حلقے میں ورک کے بعد ارائیں سب سے بڑی برادری ہے اور جاوید لطیف بھی ارائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں برادری کی حمایت ساتھ جوڑ توڑ میں بھی مہارت حاصل ہے اور وہ بڑا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سابق ایم این سے سعید ورک کا دعویٰ ہے کہ اس حلقے میں 'وِرک' سب سے بڑی برادری ہے اور سب نے الیکشن میں اتحاد کیا ہے جس کا مقصد جاوید لطیف کو شکست دے کر شہر سے ان کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہے۔
این اے 116 سے مسلم لیگ ن کے سردار عرفان ڈوگر مسلسل تین بار الیکشن جیت چکے ہیں اور اثر و رسوخ والے بڑے زمیندار ہیں۔ لیکن اس بار ان کا پالا اپنی ٹکر کے امیدوار سابق ایم این اے پی ٹی آئی کے خرم منور منج سے پڑا ہے جو چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی ساتھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ننکانہ صاحب میں روایتی حریفوں میں مقابلے، بڑی برادریاں کس امیدوار کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟
خرم منور منج حلقے میں اب تک سردار عرفان ڈوگر کے حامی متعدد دھڑوں کو اپنے ساتھ ملانے میں مصروف ہیں جن میں گاؤں ایسر کے گجر اور مانانوالہ کی ارائیں برادری کے لوگ شامل ہیں۔
مخالفین کا الزام ہے کہ سردار عرفان ڈوگر نے حلقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرائے جبکہ عرفان ڈوگر کے حامی اکبر چوہان کا دعویٰ ہے کہ سردار عرفان نے دیہات میں سوئی گیس فراہم کی اور سڑکیں بنوائی ہیں۔
اس قومی نشست کے نیچے صوبائی حلقے پی پی 143 میں اشتیاق ڈوگر ن لیگ کے امیدوار ہیں جبکہ یہاں سے ن لیگ کی ٹکٹ کے خواہشمند جہانزیب خان اور شہباز چھینہ جو چند روز قبل تک حلقے میں جلسے اور کارنر میٹنگز کررہے تھے اب کہیں نظر نہیں آ رہے۔
ن لیگ کے سرگرم کارکن ملک ارباز بتاتے ہیں کہ رانا تنویر سابق وائس چیرمین ضلع کونسل جہانزیب خان ٹکٹ کے لیے پرامید تھے۔ کیونکہ ان کے والد اورنگزیب خان اس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہو چکے تھے اور وہ نواز شریف سے لندن میں ملاقات بھی کر چکے تھے جنہیں رانا تنویر نے ٹکٹ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ شہباز چھینہ کو بھی اسی طرح تسلی دی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جہانزیب خان اور شہباز چھینہ دونوں ہی اب رانا تنویر اور عرفان ڈوگر سے ناراض ہیں کیونکہ رانا تنویر نے دونوں کو نظر انداز کردیا اور ٹکٹ اپنی برادری کے شہزاد خالد عرف مون خان کو دلوا دیا۔ جس کا فائدہ میاں جاوید لطیف نے اٹھایا اور یہ ٹکٹ ختم کرا کے اس نشست پر اپنے گروپ کے اشتیاق ڈوگر کو نامزد کرا دیا جو گزشتہ الیکشن میں اس حلقے سے ہار چکے ہیں۔
الیکشن جیتنے کے لیے تمام امیدوار ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ووٹرز کو قائل کرنے کے لیے بھی ہر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں مگر جیت کس کا مقدر ہو گی اس کا فیصلہ ووٹر پولنگ ڈے پر کریں گے۔
تاریخ اشاعت 1 فروری 2024