50 ہزار آبادی کا شہر ایک ہیڈ کلرک کے حوالے کیوں کر دیا گیا ہے؟

postImg

عریج فاطمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

50 ہزار آبادی کا شہر ایک ہیڈ کلرک کے حوالے کیوں کر دیا گیا ہے؟

عریج فاطمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

استاد لطیف، پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں اور پچھلے دس سال سے  محلہ  چاہ میر خان سنبلہ والا میں رہائش پذیر ہیں لیکن اب وہ اس آبادی سے تنگ آ چکے ہیں۔

چاہ میر خان سنبلہ والا محلہ کندیاں ٹاؤن کمیٹی کے عقب میں کندیاں موڑ سے تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر  دور واقع ہے۔ اس کی جس گلی میں داخل ہوں وہاں آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اندر کیسے جائیں؟

اس محلے میں  پچھلے کافی عرصے سے  گٹروں کا پانی کھڑا ہے۔ استاد لطیف نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گھر سے باہر نکلتے ہی بدبو، مچھر اور مکھیوں کا سامنا تو کرنا پڑتا ہی ہے، کھڑے پانی کی چھینٹیں  کپڑے خراب کر دیتی ہیں۔

" قریب ہی سول ہسپتال ہے، مریضوں کو ہسپتال جانے کے لیے اس جوہڑ کو پار کرنا پڑتا ہے۔ علاقہ مکین ٹاؤن کمیٹی اور میونسپل کمیٹی کے سیکڑوں چکر لگا چکے ہیں لیکن ان کی وہاں کوئی سنوائی نہیں ہوتی"۔

کندیاں، ضلع میانوالی، تحصیل پیپلاں کا گنجان آباد شہر ہے، اس کی آبادی  50 ہزار  کے قریب  ہے۔ تحصیل پپلاں کی چار لاکھ کے لگ بھگ آبادی میں سے صرف 96 ہزار  شہری آبادی ہے۔

 کندیاں شہر میں مونسپل کمیٹی بھی موجو د ہے، لیکن نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے اس کی گلیاں اور بازار گندے پانی کے جوہڑ بن چکے ہیں۔

کندیاں میونسپل کمیٹی کے ایک انتظامی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا  کہ چاہ میر سنبلہ والا محلہ سے کچھ عرصہ پہلے درخواست موصول ہوئی تو اس پر انتظامیہ نے از خود نوٹس لیا لیکن یہاں جو پانی کھڑا تھا اسے مشین سے نکالنا ممکن نہیں تھا، اس لئے ضلع کونسل میانوالی محتسب میں اس کا باقاعدہ کیس چلا اور یہ طے پایا کہ اس علاقے میں سیوریج لائن بچھا کر پانی نکالا جائے گا۔

"سیوریج لائن کو بچھا نے پر تین لاکھ روپے کا تخمینہ بھی لگایا گیا، لیکن جب انجینئرز  نے سائٹ کا دورہ کیا تو معلوم  ہوا کہ علاقے کو  صاف کرنے کے لیے سیوریج لائن کو چرچ سے گزارنا پڑے گا۔ ایسا ہو نہیں سکا تو یہ سکیم ادھوری رہ گئی"۔

تاہم کندیاں مسیحی کمیونٹی کے سربراہ اور چرچ کے ممبر حمید گل اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہا کہ میونسپل کمیٹی کے ملازمین اپنی نااہلی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں، اگر وہ  روزانہ کی بنیادوں پر مشین کے ذریعے پانی نکالتے رہتے تو اتنا پانی جمع  ہی نہیں ہوتا۔

"شہر کے دیگر علاقے بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں، کندیاں کا پرانا قبرستان جو میونسپل کمیٹی سے محض ایک کلو میٹر دور ہے، اس کے چاروں اطراف بھی کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ قریبی رہائشی علاقوں میں رہنے والے لوگ کچرے اور سیوریج کے پانی سے اٹھنے والے تعفن سے پریشان ہیں"۔

تیس سالہ مسز فوزیہ اسی علاقے میں رہتی ہیں اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں جاب کے سلسلے میں روزانہ گھر سے باہر نکل کر اس گندے پانی سے گزرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن جلدی امراض کا شکار رہتی ہیں۔

ڈاکٹر کاشف حیات ایک نجی ہسپتال میں سکن سپیشلسٹ ہیں۔  انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ گندے پانی سے جلدی بیماریاں جیسے  خارش، ایگزیما اور پھوڑے پھنسیاں وغیرہ یہاں عام ہیں۔

"سول ہسپتال میں چونکہ ماہر امراض جلد موجود نہیں اس لیے جلدی امراض میں مبتلا مریضوں کی درست تعداد بتانا ممکن نہیں"۔

کندیاں شہر، ضلع میانوالی کے وسط میں ہونے کے باوجود بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ چشمہ جھیل، سیاحوں کے لئے ایک پر کشش مقام ہے، یہ کندیاں شہر سے محض 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس شہر کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ پنجاب کا آخری گاؤں ہے لیکن انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث اس شہر کی رونق مانند پڑ چکی ہے۔ جگہ جگہ پر گندگی کے ڈھیر، گندے پانی کے جوہڑ  اور ان سے اٹھنے والےتعفن نے علاقے کی خوبصورتی کو تبا ہ کر دیا ہے۔

کندیاں میونسپل کمیٹی کے ایڈمنسڑیٹر اسسٹنٹ کمشنر اعجاز عبد الکریم ہیں جو تحصیل آفس میں بیٹھتے ہیں۔

کمیٹی کے روز مرہ کے امور یونین کونسل ہیڈ کلرک جاوید اقبال چلا رہے ہیں۔

جاوید اقبال نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے پاس اس وقت 24 ملازمین پر مشتمل عملہ موجود ہے جبکہ یہاں ضرورت 50 سے زائد ملازمین کی ہے۔ چوبیس میں سے 17 ملازم ڈیلی ویجز پر ہیں۔

"ملازمین کو صفائی کے لئے بنیادی سامان ہی مہیا نہیں کیا جاتا تو وہ کیسے صفائی کریں گے؟"

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کو ہر ماہ سرکار کی جانب سے 34 لاکھ روپے ملتے ہیں جن میں پینش، تنخواہ، ڈیلی ویجیز پر کام کرنے والا افراد  کی ویجز شامل ہیں۔ بجلی کے بل، مشینری کی مرمت وغیرہ بھی اسی بجٹ میں کی جاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس مشینری میں دو لوڈر، تین ٹریکٹر، دو ٹریکٹر ٹرالی اور تین پیٹر انجن موجود ہیں۔ ان مشینوں کو چلانے کے لئے چھ ڈرائیور بھرتی کئے گئے ہیں اور سیوریج کے لئے چار ملاز م ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں، لیکن اتنی بڑی آبادی والے شہر میں نکاسی آب کے مسائل چند لوگ حل نہیں کر سکتے۔ 

"انتظامیہ کو ایک جانب عملے اور مشینری کی کمی کا سامنا ہے تو دوسری جانب مقامی افراد بھی مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔ میونسپل کمیٹی کے خلاف ضلعی محتسب کے دفتر میں شکایات درج کروا دی جاتی ہیں جن کی بنا پر کمیٹی میں کوئی سی ای او آج تک ٹک کر کام ہی نہیں کر پا یا۔ ان کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ خود ہی عاجز آکر مستعفی ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے سی ای او کی سیٹ خالی ہے اور اس حوالے سے مقامی حکومت  کو درخواست بھی بھیجی جا چکی ہے لیکن فی الحال کوئی تعیناتی نہیں کی گئی"۔

دفتر محتسب میانوالی کے ایک سینئر کلرک نے اپنی شناخت صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر  لوک سجاگ  کو بتایا کہ سی ای او کا تبادلہ انتظامی مسئلہ ہے۔ مقامی لوگوں نے اس حوالے سے کبھی شکایت درج نہیں کروائی، تاہم میونسپل کمیٹی کی کارکردگی کے حوالے سے جب بھی کوئی درخواست موصول ہوتی ہے تو فوراَ ایکشن لیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کبیر والا میں 'گنگا الٹی بہنے لگی'، ڈیزائن کی خرابی سے کروڑوں مالیت کا سیوریج نظام ناکام

ایک ڈیلی ویجر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی لوگ ذاتی رنجشوں کی بنا پر کھلے نالوں کو مٹی، پتھر یا رضائیاں ڈال کر بند کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ سیوریج کا پانی نکالنےکے لیے  ملازم جاتے ہیں تو انہیں با اثر افراد تنگ کرتے ہیں۔

سول ہسپتال کے اعدادو شمار کے مطابق پچھلے مہینے  ایک ماہ  سے لے 14 سال کے بچوں میں پیٹ کی بیماریوں سے متعلق  75 کیسسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں پیٹ کے کیڑوں کو چار،  ٹائیفائڈ  چار،  ہیپاٹئٹس کا ایک، پیچش کے پانچ ، پیٹ درد کے پانچ اور ملیریا کے پانچ کیسسز سمیت پیٹ کے دیگر امراض شامل ہیں۔

 بچوں کی وارڈ کی ڈاکٹر ثمینہ نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے درست عکاس نہیں کیونکہ  بیشتر صورتوں میں لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔

پرائیویٹ ہسپتال میں تعینات  ڈاکٹر آمنہ نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں خاص طور پر خواتین میں صفائی کے حوالے سے آگاہی موجود نہیں ہوتی۔ وہ پیٹ کی بیماریوں کا دیسی ٹوٹکوں سے علاج کرتی ہیں۔ ہسپتال پہنچنے کی نوبت اس وقت آتی ہے جب پانی سر سے اوپر گذرنے لگے۔  

تاریخ اشاعت 29 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عریج فاطمہ کا تعلق کندیاں، ضلع میانوالی سے ہے۔ عریج نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ تعلیم، خواتین اور دیہی ترقی ان کے دلچسپی کے شعبے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.