صحت سہولت پروگرام: 'کم قیمت علاج کے باعث ہسپتال اور ڈاکٹر اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے لوگوں کو ناقص سہولیات دے رہے ہیں'۔

postImg

فریال احمد ندیم

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

صحت سہولت پروگرام: 'کم قیمت علاج کے باعث ہسپتال اور ڈاکٹر اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے لوگوں کو ناقص سہولیات دے رہے ہیں'۔

فریال احمد ندیم

loop

انگریزی میں پڑھیں

اگست 2020 کے ایک مرطوب دن محمد رشید اپنے گھر میں سو رہے تھے جب ان کے دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے بیدار ہو کر دروازہ کھولا تو باہر پاکستان تحریک انصاف کے چند کارکن کھڑے تھے جو انہیں حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے صحت سہولت پروگرام اور اس سے وابستہ مالی اور طبی فوائد کے بارے میں بتانے آئے تھے۔ 

ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد رشید کو ان کارکنوں سے مل کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ انہیں دل کی بیماری لاحق تھی جس کے علاج پر انہیں اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے تھے۔ ان لوگوں کی باتیں سن کر انہوں اس حکومتی پروگرام سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر اس میں اپنا نام رجسٹرڈ کرا لیا۔ 

چند روز بعد انہیں سینے میں تکلیف محسوس ہوئی تو ان کے اہلخانہ انہیں اوکاڑہ کے ایک ہسپتال میں لے گئے جہاں صحت سہولت پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو علاج کرانے کی سہولت دی گئی ہے۔ ڈاکٹروں نے ان کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ انہیں دل کا آپریشن کرانا ہو گا۔

محمد رشید دو ہفتے سے زیادہ عرصہ اس ہسپتال میں رہے لیکن ان کا آپریشن نہ ہو سکا۔ اس دوران انہیں ہسپتال میں قیام اور ادویات پر کافی خرچہ کرنا پڑا۔ چنانچہ آپریشن کا انتظار ان کے لیے اور بھی تکلیف دہ ہو گیا تھا۔ اگرچہ انہیں بتایا گیا کہ ان کے تمام طبی اخراجات صحت سہولت پروگرام کی جانب سے ادا کیے جائیں گے تاہم اُس وقت انہیں یہ سب خرچ اپنی جیب سے ہی کرنا پڑ رہا تھا۔ اگلے دو مہینوں میں یہ رقم نو ہزار چھ سو روپے تک پہنچ گئی۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنے طبی معائنوں کے لیے مزید دو ہزار چار سو روپے بھی ادا کیے۔ (اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ ہسپتال نے انہیں اس مد میں صرف آٹھ سو روپے کی رسید دی تھی) 
یہ تمام عرصہ گزرنے کے بعد بالآخر محمد رشید کو بتایا گیا کہ انہیں آپریشن کرانے کی ضرورت نہیں حالانکہ ان کے صحت کارڈ کے کوٹے سے آپریشن کے اخراجات منہا کر لیے گئے تھے۔ 

صحت سہولت پروگرام کیسے کام کرتا ہے

صحت سہولت پروگرام ابتداً 2015 میں خیبرپختونخوا میں جاری کیا گیا تھا جہاں پاکستان تحریک انصاف 2013 سے حکومت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں یا ایسے لوگوں کو مفت علاج معالجہ مہیا کرنا تھا جن کی روزانہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے عام انتخابات جیتنے اور وفاقی حکومت حاصل کرنے کے بعد اس پروگرام کا دائرہ ملک بھر میں پھیلا دیا اور اعلان کیا کہ جنوری 2019 تک اس سے دوکروڑ پچاس لاکھ لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔

اس پروگرام سے مستفید ہونے والے ہر خاندان کو سالانہ سات لاکھ 20 ہزار روپے مالیت کے مفت علاج کی سہولت میسر ہے۔ ایسے لوگ ہر سال گھر سے ہسپتال تک آنے جانے کے اخراجات کی مد میں تین ہزار روپے کے حصول کے اہل بھی ہیں۔ اگر ایسے خاندان کا کوئی رکن وفات پا جائے تو اس کے وارثوں کو کفن دفن کی مد میں بھی 10 ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ 

اس پروگرام کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے حکومت نے طبی انشورنس کا ایک نظام بنایا ہے جس کے تحت اس سے فائدہ اٹھانے والے ہر خاندان کی خاطر ایک انشورنس کمپنی کو دو ہزار روپے کا سالانہ پریمیئم ادا کیا جاتا ہے۔ اس پریمیئم کے عوض بہترین خدمات کے حصول کے لیے حکومت نے متعدد انشورنس کمپنیوں کو بولی کے لیے بلایا تاکہ وہ بتائیں کہ وہ اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کے لیے کل کتنی مالیت کے طبی اخراجات کر سکتی ہیں۔ یہ بولی بالآخر سرکاری کمپنی سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن نے جیت لی۔ 

پنجاب میں اس پروگرام کی نگرانی اور اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی کو دی گئی ہے۔ یہ ایک سرکاری کاروباری ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر لاہور میں واقع ہے۔ اس کے ایک ڈائریکٹر نے اپنی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ حکومت، ہسپتالوں، سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن اور اس پروگرام سے مستفید ہونے والے لوگوں کے مابین رابطے کا کام کرتا ہے۔ 

تاہم وہ اس سوال کا واضح جواب دینے سے انکاری ہیں کہ حکومت اس پروگرام پر کتنی رقم خرچ کر رہی ہے۔ وہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ یہ ایک ''بھاری'' رقم ہے جو ''کم از کم'' 50 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ 

سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن بھی یہ بات نہیں بتاتی کہ اسے حکومت کی جانب سے پریمیئم کی مد میں کل کتنی رقم مل رہی ہے اور وہ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو اس میں سے کتنی رقم دے رہی ہے۔ اس کے ایک اہلکار اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ چونکہ یہ معاملات متعلقہ فریقوں کے مابین ایک رازدارانہ معاہدے کا حصہ ہیں اس لیے انہیں ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت غیر ادا شدہ پریمیئم کی مد میں سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی سات ارب روپے کی مقروض ہے۔ 

پاکستان بھر میں چار سو 58 سے زیادہ ہسپتال اس پروگرام سے منسلک ہیں۔ ان میں دو سو 67 پنجاب کے 36 اضلاع میں واقع ہیں۔ ان میں سے 29 اضلاع میں اس پروگرام سے صرف وہی لوگ مستفید ہو سکتے ہیں جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ساہیوال اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں میں واقع بقیہ سات اضلاع میں رہنے والا ہر شخص اس کے ذریعے علاج معالجہ کروا سکتا ہے یا کم از کم حکومت کی جانب سے یہی دعویٰ کیا جاتا ہے۔ 

لیکن زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو ایک اور ہی تصویر سامنے آتی ہے۔ ساہیوال، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع پر مشتمل ساہیوال ڈویژن کی آبادی 70 لاکھ سے زیادہ ہے لیکن یہاں نجی شعبے کے صرف چھ ہسپتال اس پروگرام سے منسلک ہیں۔ ان ہسپتالوں میں بستروں کی مجموعی تعداد ایک سو 79 ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اس ڈویژن میں صحت سہولت پروگرام سے منسلک طبی ہولتوں کی تعداد اس کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ 

غیرمعیاری علاج

4 جون 2021 کو ڈاکٹر سید کریم شاہ شیرازی ساہیوال میں قائم اپنے نجی ہسپتال الشیرازی پولی کلینک کے ایئرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھے ہیں۔ ان کے کمرے کے باہر بہت سے مریض اور ان کے لواحقین سخت گرمی میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاتھوں میں صحت سہولت پروگرام کے رجسٹریشن کارڈ ہیں اور وہ ہسپتال انتظامیہ کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ انہیں یہاں علاج کی سہولت دی جائے۔ تاہم ڈاکٹر سید کریم شاہ شیرازی اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ہسپتال کا اس پروگرام سے کوئی تعلق نہیں۔ 

وہ سرجری کے شعبے کے ریٹائرڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور کہتے ہیں کہ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے نمائندوں نے انہیں اس پروگرام کے تحت پانچ سو اقسام کے علاج معالجے اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کی بابت بتایا ہے لیکن انہوں نے اس پروگرام میں شمولیت سے اجتناب کیا ہے کیونکہ اس میں حکومت ہسپتالوں کو علاج معالجے کی جو قیمت ادا کر رہی ہے اس میں معیاری علاج کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ 

تاہم انہیں شکایت ہے کہ اس حکومتی پروگرام سے منسلک نہ ہونے کے باوجود ان کے کلینک کا نام ایسے شفاخانوں کی سرکاری فہرست میں ڈال دیا گیا ہے جو اس کے تحت لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دفتر کے باہر مریضوں اور ان کے لواحقین کا ہجوم رہتا ہے۔ 

سید کریم شاہ شیرازی صحت سہولت پروگرام کے سخت ناقد ہیں۔ ان کی رائے میں یہ پروگرام اس قدر ناقص ہے کہ اس سے مریضوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں اس قدر کم اخراجات میں طبی خدمات کی پیشکش کی گئی ہے کہ عزت نفس رکھنے والا کوئی ڈاکٹر اور ہسپتال اس قیمت پر طبی خدمات مہیا ہی نہیں کر سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ''کم قیمت علاج کے باعث ہسپتال اور ڈاکٹر اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے لوگوں کو ناقص سہولیات دے رہے ہیں اور ان کا غیرمعیاری علاج کر رہے ہیں''۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے ہسپتال نے ایسے بہت سے مریضوں کا علاج کیا ہے جو اس پروگرام سے منسلک طبی مراکز میں ناقص علاج کے باعث جنم لینے والے طبی مسائل سے دوچار تھے۔  

سید کریم شاہ شیرازی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ پروگرام بہت سے ایسے طبی معیارات کی خلاف ورزی کا سبب بن رہا ہے جو صحت کے شعبے کی نگرانی کرنے والے صوبائی ادارے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے وضع کر رکھے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے تحت عام میڈیکل گریجوایٹ کو پیچیدہ طبی علاج کی اجازت دے دی گئی ہے حالانکہ ایسے ڈاکٹروں کے پاس ایسا علاج کرنے کی مہارت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر شیرازی اسے اتائیت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ 

تاہم ڈاکٹر عبدالرحمان ثانی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ 

ساہیوال کے نجی ہسپتال جناح میڈیکل کمپلیکس میں اپنے دفتر میں چمڑے کی کرسی پر ٹیک لگائے وہ فخریہ طور سے بتاتے ہیں کہ انہوں ںے اپنے طویل کیریئر میں پنجاب کے بہت سے ہسپتالوں میں آرتھوپیڈک سرجن کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اکتوبر 2020 میں جناح میڈیکل کمپلیکس میں آنے کے بعد صحت سہولت پروگرام کے تحت ہڈیوں کے ایک سو 80 بڑے آپریشن کر چکے ہیں۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس پروگرام کے تحت مختلف ہسپتالوں میں علاج اور خدمات کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے کئی طرح کے پیکیج دیے گئے ہیں۔ ان میں بعض پیکیج ایسے ہیں جن کے تحت ہسپتالوں کو معقول معاوضہ ادا کیا جاتا ہے جبکہ بعض کے تحت انہیں بہت زیادہ رقم نہیں ملتی۔  

پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی کے ایک ڈائریکٹر کسی حد تک اس دعوے کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''ہم ہسپتالوں میں دی جانے والی طبی سہولیات اور وہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی اہلیت اور تجربے کی بنیاد پر انہیں ادائیگی کرتے ہیں''۔ تاہم اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے مریضوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کون سے ہسپتال میں بہتر سہولیات اور بہتر ڈاکٹر دستیاب ہو سکتے ہیں۔ 

ڈائریکٹر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کی کمپنی مریضوں کی جانب سے ہسپتالوں یا ڈاکٹروں کے خلاف کی گئی شکایات کا ہر شام جائزہ لیتی ہے تاکہ پروگرام کی افادیت اور اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔ ان کے مطابق ہر دو ماہ کے بعد پروگرام سے منسلک ہسپتالوں کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے اور انہیں اپنی خامیاں دور کرنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ 

'مِری تعمیر میں مضمر تھی اک صورت خرابی کی'

پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ صرف پنجاب میں 80 لاکھ 59 ہزار خاندان اس پروگرام سے استفادہ کر چکے ہں۔ دوسری جانب صحت سہولت پروگرام کی ویب سائٹ پر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پورے پاکستان میں اس پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ خاندانوں کی کل تعداد 70 لاکھ 83 ہزار ہے۔

کمپنی کے ڈائریکٹر اس فرق کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ صحت سہولت پروگرام کی ویب سائٹ پر تازہ ترین اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ تاہم وہ خود اس حوالے سے بہت لمبے چوڑے اعدادوشمار پیش کرتے ہیں جن پر اعتبار کیا جائے تو پنجاب میں اب تک ایک کروڑ 71 لاکھ خاندان اس پروگرام سے استفادہ کر چکے ہیں۔ 

زمینی حقائق نہ صرف ان اعدادوشمار کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ ان میں خامیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ 

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صحت سہولت پروگرام سے مستفید ہونے والے خاندانوں کا انتخاب خوشحالی سے متعلق کیے گئے قومی سروے کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 70 لاکھ گھرانے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ سرکاری منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ صحت سہولت پروگرام کا مقصد ان میں سے ڈیڑھ کروڑ گھرانوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت دینا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم ایک کروڑ بیس لاکھ غریب خاندان اس پروگرام سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ 

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اعدادوشمار ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے 2010 میں کیے گئے قومی سروے کے نتائج پر مبنی ہیں۔ اسی لیے یہ فرض کرنا غیرمناسب نہ ہو گا کہ تب سے اب تک ملک کی آبادی میں اضافے کے ساتھ غریب خاندانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی بنیاد پر لگتا ہے کہ صحت سہولت پروگرام سے استفادہ نہ کر پانے والے خاندانوں کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ 

جاوید احمد کو پیش آنے والے حالات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس پروگرام سے استفادے کے لیے خاندانوں کا انتخاب کتنے غیرمربوط طریقے سے کیا جاتا ہے۔  

نحیف و نزار جاوید احمد کی عمر 64 سال ہے اور ان کے لیے چلنا پھرنا آسان نہیں ہے۔ مئی 2021 کی ایک گرم دوپہر کو وہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں علاج کے لیے آئے ہیں جہاں انہیں انجیوگرافی کرانا ہے۔ ایک سال پہلے وہ لاہور کی جیل روڈ پر گاڑیوں کی ورکشاپ چلاتے تھے لیکن بیمار ہو جانے کے باعث انہیں اپنا کام چھوڑنا پڑا۔ 

وہ دل کے پرانے مریض ہیں۔ سات سال پہلے ان کے دل کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا لیکن باقاعدگی سے معائنہ کروانے کے باوجود 2020 میں ان کی صحت دوبارہ بگڑنے لگی اور فروری 2021 میں ان کے سینے میں ایک مرتبہ پھر درد شروع ہو گیا۔ 

چونکہ وہ اپنی ورکشاپ چھوڑ چکے تھے اس لیے گھر کا تمام مالی بوجھ ان کے دو بیٹوں کے کندھوں پر آ پڑا تھا۔ ان میں ایک کسی گھر میں ملازم کی حیثیت سے کام کرتا ہے جبکہ دوسرا لاہور کے باغبانپورہ نامی علاقے میں کپڑے سینے کا کام کرتا ہے۔ جاوید احمد بھی اپنی بیوی اور دونوں بیٹوں کے ساتھ اسی علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میرے خاندان کی ماہانہ آمدنی تقریباً 25 ہزار روپے ہے جس میں ہم بمشکل گزارا کرتے ہیں''۔

چند ماہ پہلے باغبانپورہ میں انہوں ںے سڑک کنارے ایک کیبن کے باہر اپنے کئی ہمسایوں کو جمع دیکھا تو وہ بھی ان کے پاس چلے گئے۔ کیبن کی دیوار پر ایک پوسٹر چسپاں تھا جس پر جلی حروف میں 'صحت انصاف کارڈ' لکھا تھا جس کے ساتھ ہدایات درج تھیں کہ عام لوگ صحت سہولت پروگرام میں خود کو کیسے رجسٹرڈ کرا سکتے ہیں۔ 

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دو کارکن بھی کیبن میں بیٹھے تھے۔ وہ مقامی لوگوں کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی تفصیلات کچھ کاغذوں پر لکھ رہے تھے اور وہاں موجود ہر شخص سے وعدہ کر رہے تھے کہ اگر وہ اس پروگرام سے استفادے کا اہل ہوا تو اسے پندرہ سے بیس روز میں اپنی رجسٹریشن کا ثبوت مل جائے گا۔ 

جاوید احمد نے بھی اپنی شناختی معلومات ان لوگوں کو دیں اور رجسٹریشن کا انتظار شروع کر دیا۔

ایک ہفتے کے بعد وہ کیبن وہاں سے غائب ہو گیا چنانچہ احمد نے رجسٹریشن کرنے والے حکام سے ٹیلی فون پر رابطے کی کوشش کی۔ شروع میں انہیں کوئی جواب موصول نہ ہوا لیکن کئی دن کے بعد انہیں بتایا گیا کہ وہ اس پروگرام سے استفادے کے اہل نہیں ہیں۔ 

دوسری طرف ان کے مالی وسائل ختم ہونے لگے تو ان پر ناامیدی طاری ہونے لگی اور انہوں نے سرے سے علاج کرانا ہی چھوڑ دیا۔ جب ان کے اہلخانہ نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنا علاج جاری رکھیں تو وہ طبی معائنے کے لیے دوبارہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جانے لگے۔

ایسے ہی ایک معائنے کے دوران ایک نرس نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ دوبارہ صحت سہولت پروگرام کے لیے اپنی رجسٹریشن کرائیں۔ اگرچہ انہوں نے نرس کو بتایا کہ وہ اس پروگرام سے استفادے کے اہل نہیں ہیں تاہم اس کے اصرار پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر رجسٹریشن کے لیے درخواست دے دی۔ انہیں پندرہ روز انتظار کرنے کو کہا گیا ہے اور یوں اب وہ حکومت سے طبی مدد کے حصول کی امید میں اپنا علاج ایک مرتبہ پھر موخر کیے بیٹھے ہیں۔ 

46 سالہ کلثوم بی بی کو بھی اسی آزمائش سے گزرنا پڑا ہے۔

ان کے 43 سالہ شوہر لاہور کے انارکلی بازار کے قریب چائے خانہ چلاتے ہیں۔ چند روز پہلے وہ بیمار ہوئے تو انہیں اندرون شہر کے قریب سرکاری شعبے کے داتا دربار ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے جسم میں گلٹی بن گئی ہے جسے نکالنے کے لیے انہیں فوری آپریشن کرانا ہو گا۔ 

کلثوم بی بی یہ سوچ کر پریشان تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے علاج کے لیے مالی وسائل کہاں سے لائیں گی۔ اسی دوران انہیں ہسپتال کے باہر ایک درخت پر صحت سہولت پروگرام کا پوسٹر دکھائی دیا۔ انہوں نے اس پر لکھا ہوا فون نمبر نوٹ کر کے اس پر کال کی تاہم انہیں کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ 

جب متعدد مرتبہ رابطہ کرنے پر بھی انہیں کوئی جواب نہ ملا تو وہ لاہور کے ایک اور حصے میں واقع صحت سہولت پروگرام کے دفتر میں ہی چلی گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ''میں نے اپنے شوہر کے طبی معائنوں کے لیے کچھ رقم پس انداز کر رکھی تھی جو اس دفتر جانے آنے پر خرچ ہو گئی ہے''۔  

جب کئی مرتبہ اس دفتر کا چکر لگانے پر بھی ان کی رجسٹریشن نہ ہوئی تو انہوں ںے پوسٹر پر لکھے فون نمبر پر دوبارہ کال کی لیکن انہیں اس وقت بہت زیادہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں بتایا گیا کہ ان کا خاندان اس پروگرام سے استفادے کا اہل نہیں ہے۔ 

چونکہ اس وقت تک ان کے پاس اپنے شوہر کا علاج کرانے کے لیے اب کوئی مالی وسائل نہیں رہے تھے اس لیے انہوں نے ہمسایوں اور رشتہ داروں سے رجوع کیا جن کی مالی مدد کے ذریعے ہی وہ ان کا علاج کرا رہی ہیں۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 25 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 4 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.