سیما حیدر جکھرانی کے تبدیلیء مذہب اور انڈیا میں شادی کا معاملہ سوشل میڈیا پر عام ہونے کے بعد سندھ میں رہنے والے ہندو چند غیر معمولی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کا سبب ڈاکوؤں اور جکھرانی برادری کے بعض ہتھیار بند افراد کی جانب سے دی گئی دھمکیاں ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سیما کی واپسی نہ ہونے کی صورت میں ہندو کمیونٹی کے مندروں پر حملے کیے جائیں گے اور ان کی خواتین اور بچوں کو اغوا کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر دی جانے والی ان دھمکیوں میں گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور اور جیکب آباد کے کچے میں رہنے والے ڈاکو منیر مصرانی، فقیر ثنا اللہ شر، رانو شر اور عمر شر وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے بعد سکھر، میرپور ماتھیلو، کندھ کوٹ، کشمور، غوث پور، گھوٹکی اور سنگرار کی ہندو پنچائتوں کے مکھی ایشور لعل، مکھی ڈاکٹر سریش کمار تلریجہ، مکھی نند لال، مکھی ککہ رام، مکھی وسو مل اور مکھی راجیش کمار کے درمیاں رابطوں کے بعد ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں چند غیر معمولی فیصلے کیے گئے۔
ان فیصلوں کے مطابق خواتین کو مذہبی رسومات میں شرکت کرنے سے روکا گیا ہے۔ ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو شہر سے باہر یا شہر کے اندر غیر ضروری تقریبات، سیر و تفریح اور ہوٹلوں میں قیام سے منع کیا گیا ہے۔ رات کو دیر تک دکانیں کھولے رکھنے پر روک لگائی گئی ہے اور بچوں پر خصوصی نظر رکھنے اور انہیں تنہا گھر سے باہر بھیجنے سے گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔
بچوں اور بچیوں کے سکول، کالج اور اکیڈمی وغیرہ جانے آنے کو محدود کرنے، تعلیمی یا دیگر مقاصد کے لیے آمدورفت کے دوران خاندان کے کسی مرد کو ساتھ رکھنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو اکیلے رکشہ میں بھیجنے سے اجتناب کا مشورہ دیا گیا ہے۔ مذہبی رسومات و دیگر تقریبات میں خواتین کےجانے اور رات گئے سفر سے پرہیز کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
سیما کا معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد غوث پور میں باگڑی کمیونٹی کے مرشد سانول شاہ کے آستانے پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی رپورٹ غوث پور تھانے میں درج تو کی گئی مگر ابھی تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
مکھی ایشور لعل نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا "سندھ کی ہندو برادری میں شدید خوف و ہراس ہے۔ گھر سے نکلنے کے بعد ڈر ہوتا ہے کہ پتا نہیں واپس صحیح سلامت پہنچیں گے یا نہیں؟"
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہندو کمیونٹی کے افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا تھا مگر اب ان کے گھر، کاروبار، خواتین، بچے اور عبادت گاہیں بھی نشانے پر ہیں۔
ان کے بقول ضلع سکھر کی کجھور مارکیٹ میں 90 فیصد کاروبار ہندو کمیونٹی کا ہے جہاں سے بیرون ملک کجھور برآمد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اشیا خورونوش کے بڑے ڈیلر، ادویات کے سپلائر اور ڈاکٹروں کی بڑی تعداد بھی ہندو کمیونٹی سے ہے۔ انہیں غیرمحفوظ کرنا یا تحفظ فراہم نہ کرنا ملک سے دشمنی ہے۔
پوج ہندو پنچائت سکھر کے صدر مکھی ایشور لعل ماکھیجا کا کہنا تھا کہ 16 جولائی 2023ء کو کندھ کوٹ کشمور میں چند شر پسند عناصر کی جانب سے ہندوؤں کی عبادت گاہ کو جلایا گیا۔ اس کی ایف آئی آر درج ہوئی مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
چھوہارا مارکیٹ کے تاجر رجکمار وادھوانی نے بتایا کہ روہڑی میں آغا قادر داد زرعی مارکیٹ روہڑی کے تاجروں کو اب تک کوئی سکیورٹی نہیں دی گئی۔ خوف کے باعث مزدوری کرنے والے غریب لوگوں نے اپنا کام محدود کر دیا ہے۔ تاجر شام کے وقت ہی اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کجھور کا کاروبار عروج پر ہوتا ہے۔ مزدوروں کی کمی اور کاروبار جلدی بند کرنے سے تاجروں کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔
انجمن تاجران موبائل مارکیٹ سکھر کے تاجر جئہ رام کا کہنا ہے کہ سکھر، گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور اور شکارپور میں بہت سے ہندو ڈاکٹر، انجینئر اور کاروبار ی لوگ اپنے کاروبار بند کر کے نقل مکانی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ان کے مطابق ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کے اغوا، قتل، جبری تبدیلی مذہب کا سلسلہ گزشتہ 40 برس سے جاری ہے جس کے باعث وہ ملک سے جانا چاہتے ہیں۔
پوج ہندو پنچائت سکھر کے ایڈوائز چندر بھان نے بتایا کہ سکھر سمیت مختلف اضلاع کی ہندو کمیونٹی کو شدید خدشات ہیں۔ ضلع شکارپور کے شہر چک میں رہنے والے ہندو تاجروں کو بھتے کے لیے چٹھیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔حالات کو دیکھتے ہوئے اقلیتی برادری کے لوگ اپنی اولاد کو تعلیم اور کاروبار کے لیے دبئی، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا بھیجنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور بہت سے تعلیم یافتہ لوگ ملک سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
کندھ کوٹ اور کشمور کے مکھی ڈاکٹر سریش کمار تلریجا نے بتایا کہ غوث پور کے مندروں پر فائرنگ برادری کے لیے نہایت پریشان کن ہے۔ اگرچہ اب سندھ حکومت نے مندروں پر سکیورٹی فراہم کی ہے تاہم شرپسند عناصر ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت: نظروں سے اوجھل پاکستانی ہندوؤں کے شب و روز
حالات کے پیش نظر آئی جی سندھ کے حکم پر گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ، سکھر، جیکب آباد اور دیگر اضلاع میں ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر 400 ہندو پولیس اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے سانگھڑ، میرپور خاص، کراچی اور تھرپارکر اضلاع کے چار سو ہندو پولیس اہلکاروں کا چناؤ کیا گیا ہے۔
میرپور ماتھیلو کے مکھی نند لال کا کہنا ہے کہ شہر کے مندروں میں ابھی تک سکیورٹی نہیں بھیجی گئی۔ تاہم گھوٹکی کے مکھی ککہ رام نے بتایا کہ شہر میں پولیس اہلکار پہنچ گئے ہیں۔ ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کا کہنا ہے کہ وہ مُکھیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
ڈی آئی جی سکھر جاوید سونہارو جسکانی کا کہنا ہے کہ سیما کے انڈیا میں جا کر شادی کرنے کے واقعے کے بعد ڈاکوؤں نے سب سے پہلے رہڑکی دربار کو دھمکیاں دی تھیں۔ دربار کو پہلے ہی سیکورٹی فراہم کی جا رہی تھی لیکن دھمکیوں کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کی نفری تین گنا بڑھا دی گئی۔ رہڑکی شہر اور اس کی طرف جانے والے راستوں پر بھی پولیس الرٹ ہے۔ سکھر، خیرپور، گھوٹکی اور دیگر اضلاع میں ہندو عبادت گاہوں پر بھی سکیورٹی موجود ہے۔ اس سلسلے میں رابطہ کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں تاکہ کسی ناگہانی صورت حال میں کمیونٹی سے رابطہ رہے اور جلد سے جلد اقدامات کیے جا سکیں دیا جا سکے۔
تاریخ اشاعت 10 اگست 2023