ضلع سرگودھا میں ہائی وولٹیج مقابلے مریم نواز کے مد مقابل کون الیکشن لڑے گا؟

postImg

مدثر بھٹی

postImg

ضلع سرگودھا میں ہائی وولٹیج مقابلے مریم نواز کے مد مقابل کون الیکشن لڑے گا؟

مدثر بھٹی

ضلع سرگودھا کے تمام حلقوں میں انتخابی مہم کا باقاعدہ طور پر آغاز ہو چکا ہے۔ یہاں قومی اسمبلی کی پانچ اور پنجاب اسمبلی کی دس نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔

یہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد 26 لاکھ 68 ہزار699 ہے جن میں سے 14 لاکھ 17 ہزار 494 مرد اور 12 لاکھ 51 ہزار 205 خواتین ووٹر ہیں۔

اس ضلعے کے قومی حلقوں میں سے بیشتر 'ہائی وولٹیج حلقے' ہیں جہاں سے کئی نامور سیاستدان الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ پچھلی بار اس ضلعے کی تمام قومی نشستیں ن لیگ نے جیتی تھیں۔

سرگودھا کا پہلا حلقہ این اے 82 دو تحصیلوں بھیرہ اور بھلوال پر مشتمل شامل ہے۔ یہ علاقہ کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔ یہاں سے 2002ء میں انعام الحق پراچہ اور پھر ندیم افضل چن جیتے تھے لیکن 2013ء میں ن لیگ کے پیر امیر الحسنات شاہ نے یہ نشست  چھین لی تھی۔

پچھلے عام انتخابات میں یہاں سے ندیم افضل چن تحریک انصاف کے امیدوار تھے۔ انہیں ن لیگ کے مختار احمد بھرتھ نے ہرا دیا تھا اور پیپلز پارٹی پیچھے رہ گئی تھی۔

اب کی بار سابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ندیم افضل چن پیپلز پارٹی میں واپس آ چکے ہیں اور اس حلقے سے امیدوار ہیں۔ ن لیگ سے بھی ان کے حریف مختار بھرتھ متوقع امیدوار ہوں گے۔ اگرچہ یہاں سے پی ٹی آئی امیدوار کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم ندیم چن اور مختار بھرت میں اچھا جوڑ پڑے گا۔


سرگودھا نئی حلقہ بندیاں 2023

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 88 سرگودھا 1 اب این اے 82 سرگودھا 1 ہے
یہ حلقہ بھیرہ اور کوٹ مومن تحصیلوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں تحصیل سرگودھا کے قصبے ماڑی کے بیشتر دیہات بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں معمولی تبدیلی آئی ہے، سرگودھا تحصیل کے پٹوار سرکل ماڑی اور چک نمبر 58 این بی کو اس حلقے  سے نکال دیا گیا ہے جبکہ اس کی جگہ قصبہ اجنالا پٹوار سرکل کو شامل کیا گیا ہے۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 89 سرگودھا 2 اب این اے 83 سرگودھا 2 ہے
اس حلقے میں مکمل  تحصیل کوٹ مومن شامل ہے جبکہ سرگودھا تحصیل کے بڑی آبادی والے قصبے بھاگٹانوالہ، قصبہ مٹھالک اور ان کے نواحی دیہات شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں تحصیل سرگودھا کے چک نمبر 90 ایس پی قانون گو، چک نمبر 53 ایس پی اور چک 54 ایس پی پٹوار سرکلز کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اسی تحصیل کے پٹوار سرکل اجنالا کو اس حلقے سے نکالا گیا ہے۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 90 سرگودھا 3 اب این اے 84 سرگودھا 3 ہے
یہ سرگودھا کا شہری حلقہ ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے ایک لاکھ 90 ہزار کی آبادی کے حامل سرگودھا کینٹ کو نکال دیا گیا ہے جبکہ اس کی جگہ تحصیل سرگودھا کے قصبہ دھریمہ ٹاؤن کمیٹی، چک 58 این بی، ماڑی اور چک نمبر 67 اے پٹوار سرکلز کو شامل کیا گیا ہے۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 91 سرگودھا 4 اب این اے 85 سرگودھا 4 ہے
یہ حلقہ سلانوالی تحصیل پر مشتمل ہے۔ اب سرگودھا کینٹ کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں جیسا کہ تحصیل سرگودھا کے سرگودھا کینٹ کے علاوہ سلانوالی تحصیل کے پٹوار سرکلز چک نمبر 119 این بی اور چک نمبر 116 این بی کو بھی اب اس حلقے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ سرگودھا تحصیل کے سرگودھا دو قانون گو حلقہ، چک نمبر 90 ایس پی قانون گو، چک نمبر 53 ایس پی، چک نمبر 54 ایس پی،  کولووال، سلار اور چک 67 اے  پٹوارسرکل کو نکال دیا گیا ہے۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 921 سرگودھا 5 اب این اے 86 سرگودھا 5 ہے
سرگودھا کا یہ حلقہ تحصیل ساہیوال اور تحصیل شاہ پور کی آبادی پر مشتمل ہے۔ 2023 کی حلقہ بندیوں میں اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، سوائے اس کے کہ تحصیل سرگودھا کے پٹوار سرکلز، سلار اور کولوال شامل ہوئے ہیں جبکہ سلانوالی تحصیل کے پٹوار سرکل 119 این بی اور116 این بی کو نکالا گیا ہے۔


 این اے 83 بھی دلچسپ حلقہ ہے جہاں میلہ خاندان اور رانجھا خاندان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ یہاں سے چوہدری غیا ث میلہ دو مرتبہ ق لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور دو الیکشن رانجھا خاندان جیت چکا ہے۔ پچھلے انتخابات میں ن لیگ کے محسن شاہنواز رانجھا نے پی ٹی آئی کے امیدوار اسامہ غیاث میلہ کو شکست دی تھی۔

اگلے الیکشن میں محسن شاہنواز رانجھا ہی مسلم لیگ ن کے متوقع امیدوار ہیں تاہم اسامہ غیاث میلہ نے ابھی تک کسی پارٹی سے الحاق کا اعلان نہیں کیا۔ قوی امکان یہی ہے کہ اسامہ آزاد حیثت میں ن لیگ ن کے امیدوار کا مقابلہ کریں گے۔

این اے 84 میں سرگودھا شہر کا بیشتر حلقہ ہے۔ اس نشست سے پیپلز پارٹی کے تسنیم قریشی دو مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔ ن لیگ کے چوہدری حامد حمید مسلسل دو بار یہ حلقہ جیت چکے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں انہوں نے پی ٹی آئی کی نادیہ عزیز کو شکست دی تھی۔ پی پی کے تسنیم قریشی تیسرے نمبر پر تھے۔

اب اس حلقے میں ن لیگ کے متوقع امیدوار حامد حمید ہی ہوں گے، شفقت اعوان پی ٹی آئی کے ممکنہ امیدوار ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے امیدوار تسنیم قریشی اور آزاد امیدوار نادیہ عزیز کا اتحاد ہو گیا تو اس نشست پر زبر دست مقابلہ ہو سکتا ہے۔

این اے 85 میں تحصیل سلانوالی، شاہین آباد وغیرہ آتے ہیں۔ انور علی چیمہ یہاں سے سات مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں لیکن 2013ء میں اس حلقے سے ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی جیت گئے۔

پچھلے عام انتخابات میں ن لیگ کے ذوالفقار بھٹی نے 279 ووٹوں کی سبقت سے پی ٹی آئی کے عامر سلطان چیمہ کو ہرایا تھا۔ عامر چیمہ کی درخواست پر فروری 2019ء میں حلقے کے 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ ہوئی اور عامر چیمہ تقریباً نو ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔

ذوالفقار بھٹی نے دوبارہ پولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور دوبارہ ایم این اے بن گئے تھے۔

آئندہ الیکشن میں ذوالفقار بھٹی ن لیگ کے مضبوط امیدوار ہیں اور عامر چیمہ پی ٹی آئی سے دستبرداری کے بعد آزاد حیثت سے میدان میں اتریں گے۔ دونوں کا ذاتی ووٹ بینک موجود ہے تاہم ذوالفقار بھٹی کو پارٹی کا اضافی فائدہ حاصل ہے۔

این اے 86 تحصیل ساہی وال اور شاہ پور کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں سے 2013ء میں میاں نواز شریف نے الیکشن لڑا اور ریکارڈ ووٹ لیے تھے۔ پھر ضمنی الیکشن میں  ن کے شفقت بلوچ کامیاب ہوئے تھے۔

پچھلے جنرل الیکشن میں ن لیگ کے جاوید حسنین شاہ نے پی ٹی آئی کے امیدوار نعیم الدین سیالوی کو شکست دی تھی۔ 2024ء کے انتخابات میں ن لیگ سے سید جاوید حسنین شاہ ہی متوقع امیدوار ہیں جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا تاہم اس حلقے میں سیالوی خاندان کا کوئی امیدوار مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرے گا۔

صوبائی نشستیں

2018ء کے انتخابات میں ضلع سرگودھا کی صوبائی نشستوں پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملا تھا اور دونوں جماعتوں نے پانچ پانچ نشستیں حاصل کی تھیں۔

اس ضلعے کا حلقہ پی پی 71 زیادہ تر پراچہ خاندان کے زیر اثر رہا ہے لیکن 2013ء میں یہاں سے ن لیگ کے مختار احمد بھرتھ کامیاب ہو گئے تھے۔ پچھلے الیکشن میں بھی ن لیگ کے شعیب اعوان نے یہاں پر تحریک انصاف کے حسن انعام پراچہ کو ہرایا تھا۔

اب کی بار شعیب اعوان ہی مسلم لیگ ن کے متوقع امیدوار ہیں۔ حسن انعام پراچہ آزاد حیثیت سے قسمت آزمائی کریں گے۔ یوں ن لیگ کو اس حلقے میں سیاسی برتری حاصل ہے تاہم فیصلہ ووٹر کریں گے۔

حلقہ پی پی 72 سے ن لیگ، پچھلے تین الیکشن مسلسل جیت چکی ہے۔ 2018ء میں یہاں سے منصور احمد سدھو منتخب ہوئے تھے۔ اب اس حلقے میں ن لیگ کے منصور احمد سدھو، پیپلز پارٹی کے امیدوار اعجاز شیرازی اور تحریک انصاف چھوڑنے والے خالق داد کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔

خالق داد اس بار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔

 پی پی 73 میں مسلم لیگ ن تقسیم ہے۔ پچھلے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار مناظر علی رانجھا اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے لیکن اس دفعہ ٹکٹ کے حصول کے لیے دھڑے بندی نظر آ رہی ہے۔

 مناظر رانجھا اور منصور سندھو دونوں اس حلقے سے ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے اپنے اپنے کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے سابق ضلعی صدر انصر ہرل بھی میدان میں اتریں گے۔ حتمی ریس کا اندازہ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ہو گا۔

حلقہ پی پی 74 میں پچھلی بار ن لیگ ہار گئی تھی اور تحریک انصاف کے منیب سلطان چیمہ یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ اب منیب سلطان چیمہ پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں اور آزاد حیثیت الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ن لیگ کے سابقہ ٹکٹ ہولڈر عمیر کلیار دوبارہ پارٹی ٹکٹ کے لیے کوشاں ہیں جبکہ جاوید چیمہ، میاں اکرام الحق اور شہباز نٹھر بھی میدان میں ہیں۔

 حلقہ پی پی 75 میں ن لیگ کے سابق ایم پی اے ڈاکٹر لیاقت ہی پارٹی ٹکٹ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں اور پیپلز پارٹی سے متین قریشی میدان میں اتریں گے ۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے سابق ٹکٹ ہولڈر محمد اقبال اور نادیہ عزیز آزاد ہیں۔ یہاں سخت مقابلے کی توقع ہے۔

 پی پی 76 سے گزشتہ الیکش میں پی ٹی آئی کے عنصر مجید نے ن لیگ کی امید وار عمارہ گل کو شکست دی تھی۔ عنصر مجید اب بھی پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں لیکن منظر عام پر نہیں آ رہے۔

اس بار اس نشست پر رضوان گل مسلم لیگ ن کے متوقع امیدوار ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار ابھی تک عنصر مجید ہی ہیں۔ تاہم مہر محسن نے بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی امید لگا رکھی ہے۔ اس لیے حلقے کی صورتحال ابھی تک غیر واضح ہے۔

 پی پی 77 سے فیصل چیمہ تین بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ پچھلی بار انہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ن لیگ کے کامل شمائل گجر کو شکست دی تھی۔ فیصل چیمہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور اب کی بار آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ننکانہ صاحب میں روایتی حریفوں میں مقابلے، بڑی برادریاں کس امیدوار کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟

اس حلقے سے ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے سابقہ ٹکٹ ہولڈر کامل شمائل گجر، ایم این اے ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی کے صاحبزادے نجف بھٹی اور صفدر ساہی کوششں کر رہے ہیں۔ اس حلقے میں سخت مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

حلقہ پی پی 78 سے ن لیگ کے رانا منور غوث تین بار مسسل کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس دفعہ بھی رانا منور غوث اس حلقے میں مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل گھمن سے متوقع ہے۔

 پی پی 79 سے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے غلام اصغر لاہری جیتے تھے لیکن اب وہ آزاد امیدوار ہیں۔

اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے تیمور امیر خان جبکہ مسلم لیگ ن کے تیمور علی خان متوقع امیدوار ہیں۔ بظاہر اس حلقے میں ن لیگ مضبوط پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے۔

حلقہ پی پی 80 کا الیکشن پچھلی بار تحریک انصاف کے چوہدری افتخار حسین جیتے تھے تاہم اب کی بار یہاں سے مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف امیدوار ہیں جن کو یہاں سابق ایم این اے جاوید حسنین شاہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پارٹی کے علاوہ ان کا اس حلقے میں ذاتی ووٹ بینک بھی ہے۔

 یہاں مریم نواز کے مقابلے میں آزاد امیدوار سردار شہزاد میکن اور عاصم میکن الیکش لڑیں گے۔اس حلقے میں بھی مسلم لیگ ن آگے دکھائی دیتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ساجد بھٹی بتاتے ہیں کہ سرگودھا میں پی ٹی آئی کو ن لیگ کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن پچھلے چند ماہ میں صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے بیشتر امیدوار پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے اور غیرمعروف لوگ آ رہے ہیں جس کا فائدہ ن لیگ کو پہنچے گا۔

تاریخ اشاعت 11 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مدثر بھٹی کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی، شعبہ انگریزی سے ایم فل ہیں اور چار سال سے مقامی کالج میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.