سندھ کے بلدیاتی ایوانوں میں خواجہ سرا افراد کا داخلہ: کیا منفی رویوں میں بدلاؤ آئے گا؟

postImg

اشفاق لغاری

postImg

سندھ کے بلدیاتی ایوانوں میں خواجہ سرا افراد کا داخلہ: کیا منفی رویوں میں بدلاؤ آئے گا؟

اشفاق لغاری

7 جون 2023ء پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی کے حوالے سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ اس روز سندھ کے بلدیاتی ایوانوں میں مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے 90 خواجہ سرا افراد نے حلف اٹھایا۔

سندھ کے نئے بلدیاتی نظام میں ٹائون کمیٹی سے لیکر میٹروپولیٹن کارپوریشن تک خواجہ سرا افراد کے لیے نشستیں مخصوص کی گئی ہیں جن پر ممبر کا چنائو براہِ راست منتخب ہونے والے ممبران کے تعداد کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ دیگر تینوں صوبوں نے اپنے بلدیاتی نظاموں میں خواجہ سرا افراد کو نمائندگی نہیں دی۔

سندھ کے تمام بلدیاتی ایوانوں میں خواجہ سرا سیٹوں کی مجموعی تعداد 253 ہے لیکن ان میں سے صرف 90 ہی پُر ہو سکیں گویا پہلی بار خواجہ سرا افراد کی 163 مخصوص سیٹیں خالی رہیں۔

اس بظاہر غیر تسلی بخش کارکردگی کے باوجود یہ سیٹیں خواجہ سرا افراد کو انتخابی میدان میں اہمیت دلوانے میں کامیاب رہیں۔ کئی جگہوں پر تو خواجہ سرا امیدواروں نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی سماجی رویے دونوں کھل کر سامنے آ گئے۔

سانگھڑ اور جیکب آباد کی سیٹیں: ٹوٹی جا کر کمند کہاں

اس کی سب سے اہم مثال سانگھڑ میں سامنے آئی جہاں پاکستان پیپلز پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے درمیان میونسپل کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے کانٹے کا مقابلہ تھا۔

یہاں براہ راست انتخاب سے دونوں روایتی حریفوں کے چھ، چھ کونسلر کامیاب ہوئے۔ نو مخصوص نشستوں میں سے چار عورتوں کے لیے ہیں جبکہ نوجوان، اقلیت، مزدور، معذور اور خواجہ سرا کے لیے ایک ایک تھی۔

پیپلز پارٹی اور جی ڈی اے کے مابین مخصوص نشستوں پر اتفاق نہ ہو سکا لہٰذا قواعد کے مطابق ان کے نامزد امیدواروں میں سے ہر ایک کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی ہونا تھا۔

جی ڈی اے کی کوشش تھی کہ پیپلز پارٹی کے خواجہ سرا (خواجہ سرا) امیدوار کو نااہل قرار دلوا کر ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کر لے اور اس طرح اپنا چیئرمین منتخب کروا لے۔

اس نے پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد رفیق پر اپنے امیدوار ببلی فقیر  کے ذریعے عدالت میں اعتراضات داخل کرائے۔ بڑا اعتراض اس کی صنفی شناخت پر تھا یعنی یہ کہ رفیق خواجہ سرا ہے ہی نہیں اور وہ بمشکل بولتے اور سنتے ہیں ببلی فقیر کے وکیل نے رفیق کی ذہنی صحت پر بھی سوالات اٹھائے۔

پیپلز پارٹی نے سول سرجن سانگھڑ  سے اپنے امیدوار کی صنفی شناخت کروانے کے بعد نادرا سے شناختی کارڈ جاری کروایا تھا، الیکشن ٹربیونل نے لہذا اعتراضات کو رد کرتے ہوئے محمد رفیق کو اہل قرار دے دیا۔

جی ڈی ای کے خواجہ سرا امیدوار ببلی پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔

اب چیئرمین کے انتخاب میں خواجہ سرا ممبر کے ووٹ نے فیصلہ کن (کاسٹنگ ووٹ) حیثیت حاصل کر لی کیونکہ جس بھی پارٹی کا خواجہ سرا امیدوار کامیاب ہوتا اسی پارٹی کا چیئرمین بھی منتخب ہو جاتا۔

انتخاب کی وقت امیدواروں کی موجودگی قانوناً ضروری ہے۔ اسے یقینی بنانے کے لیے پہلے تو دونوں جماعتوں نے اپنے خواجہ سرا امیدواروں کو دنیا کی نظروں سے چھپائے رکھا۔ لیکن آخر میں دونوں جماعتوں نے اپنے خواجہ سرا امیدواروں کو دست بردار کرانے پر اتفاق کر لیا۔

دو جون مخصوص نشستوں کے امیدواروں کے لیے دست بردار ہونے کی آخری تاریخ تھی۔ اسی دن رفیق اور ببلی نے اپنے فارم واپس لے لیے، جی ڈی ای اور پیپلز پارٹی نے چیئرمین کے عہدے کی ٹرم آپس میں بانٹ لی یعنی دو سال ایک کا امیدوار چیئرمین رہے گا اور اگلے دو سال دوسری پارٹی کا۔

یوں دونوں پارٹیوں نے اپنے چیئرمینوں کو اس 'سبکی' سے بچا لیا کہ وہ 'خواجہ سرا کے ووٹ سے منتخب' ہوئے ہیں۔

سانگھڑ سے ملتی جلتی مثال جیکب آباد میونسپل کمیٹی کی ہے۔ وہاں خواجہ سرا کی مخصوص نشست کے لیے پیپلز پارٹی سے فیض محمد نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے پاس درخواست جمع کروائی تھی۔

اس پر ان کے مد مقابل خواجہ سرا شاہ نواز خان عرف شانی فقیر نے اعتراضات جمع کروائے۔ بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فیض محمد لڑکا ہے اور اس کے تین بچے ہیں لہٰذا وہ خواجہ سرا نہیں ہو سکتے۔

شانی فقیر کے اعتراضات کے بعد فیض محمد نے اپنا فارم واپس لے لیا۔

شانی کو امید ہو چلی تھی کہ اب وہ بلا مقابلہ ممبر میونسپل کمیٹی ہوں گے لیکن بعدازاں انہیں معلوم ہوا کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وعدہ کرنے والوں نے اسے نبھایا نہیں۔ اب یہ مخصوص نشست خالی ہے۔

شناخت مشکل، شناختی کارڈ اور بھی مشکل

صوبہ سندھ میں ٹاؤن کمیٹیوں، میونسپل کمیٹیوں، میونسپل کارپوریشنوں اور کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں ٹرانس جینڈز کی 253 مخصوص نشستیں ہیں۔ ان پر تقریبن 105 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے جن میں سے زیادہ تر صنفی شناخت کے اعتراضات کی زد میں رہے اور کامیاب ہو کر حلف اٹھانے والوں کی تعداد 90 رہی۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں خواجہ سرا افراد کی تعداد 5 ہزار 954 تھی جبکہ ملک بھر میں یہ 21 ہزار 774 ریکارڈ کی گئی تھی۔ ماہرین مردم شماری میں خواجہ سرا افراد کی گنتی کے طریقہ کار سے مطمعن نہیں اور زیادہ تر سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی اصل تعداد سے بہت کم ہے۔

شناختی کارڈ کے اجرا کی صورت حال اس سے بھی ابتر ہے۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق پورے ملک میں کل تین ہزار 200 کے قریب خواجہ سرا کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں اور صوبہ سندھ میں یہ تعداد محض 580 ہے۔

نادرا ترجمان فائق چاچڑ، خواجہ سرا کے شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ خواجہ سرا کی اکثریت کے والدین انہیں اپنانے اور انہیں اپنی خاندانی پہچان دینے سے انکاری ہوتے ہیں۔

"وہ والدین کا گھر چھوڑ کر گُرو کے پاس رہتے ہیں۔ قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے انہیں ایسے گرو کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نام نادرا کے ریکارڈ میں ہو۔"

ترجمان کے مطابق ان کے ڈیٹا بیس میں ایسے خواجہ سرا کی فیملی ٹری یا شجرعہ اس گرو سے جوڑ کر شناختی کارڈ تیار کیا جاتا ہے۔ "چونکہ ایسا کرنے والا خود کو والدین سے نہیں جوڑتا اس لیے نادرا کا نظام والد اور والدہ کو فرضی نام دے دیتا ہے۔"

فائق چاچڑ  نے بتایا کہ ایسے خواجہ سرا بہت کم ہوتے ہیں جن کے والدین، بھائی یا بہن تصدیق کے لیے نادرا دفتر  آتے ہیں یا کاغذات کی تصدیق کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر نادرا نے یہ پالیسی وضع کی تھی جس کے مطابق خواجہ سرا کو ان کی مرضی سے خواجہ سرا مرد، خواجہ سرا عورت یا خنسہ مشکل لکھا جاتا ہے۔ خنسہ مشکل سے مراد وہ افراد ہیں جو خود کو نہ مرد کہلاتے ہیں اور نہ عورت۔ نادرا کو یہ ہدایات سپریم کورٹ نے 2013ء میں جاری کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

قانون بن گیا، اسے مانتا کوئی نہیں: وراثتی جائیداد میں حصہ لینے کے خواہش مند ٹرانس جینڈر افراد کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں

فائق چاچڑ کہتے ہیں: "سپریم کورٹ کی ہدایات سے پہلے والی نادرا پالیسی کے مطابق صنف کے تعین کے لیے میڈیکل سرٹیفکیٹ ضروری تھا جس پر خواجہ سراوں نے اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں کورٹ نے ہدایات جاری کیں کہ نادرا خواجہ سرا کو میڈیکل سرٹیفکیٹ کے بغیر ان کی مرضی کے مطابق رجسٹر کرے۔"

2018ء میں منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کو ان افراد کی پہچان اور حقوق کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت سمجھا جاتا ہے۔

مئی 2023ء میں وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018ء کی کچھ دفعات کو خلاف شریعت قرار دے دیا۔ ان دفعات میں خواجہ سرا افراد کو اپنے داخلی اور انفرادی احساس کی بنیاد پر اپنی صنفی شناخت طے اور تبدیل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انہیں وراثت کا حقدار بھی قرار دیا گیا تھا۔

اس فیصلے نے خواجہ سرا افراد کی پہچان اور حقوق کی جدوجہد کو ایک نئے چیلنج کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔

تاریخ اشاعت 13 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.