پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

postImg

فرقان علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

فرقان علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

سولر کے نتیجے میں پاکستان کا توانائی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ انقلاب کسی دور اندیش پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ مجبوری کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے۔ 2022ء سے اب تک بجلی کے نرخوں میں 155 فیصد اضافے  اور بعض علاقوں میں روزانہ 18 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ نے ہر طبقے کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی چھتوں پر سولر پینلز لگائیں۔

عالمی توانائی تھنک ٹینک ایمبر کے مطابق پاکستان میں 2020ء میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں سولر کا حصہ دو فیصد سے بھی کم تھا جو رواں سال مئی کے اختتام پر بڑھ کر 24 فیصد  ہو گیا۔ سولر نے توانائی کی دوڑ میں گیس، کوئلے، ایٹمی اور ہائیڈرو پاور کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 

قومی گرڈ کی مایوس کن کارکردگی سے شروع ہونے والی سولر کی دوڑ بجلی کی پیداوار اور اس کے استعمال کے طریقوں کو بدل رہی ہے۔ اگرچہ گرین انرجی کا حصول بڑی کامیابی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ بوجھ معاشی ناہموری کا شکار متوسط طبقہ اٹھا رہا ہے۔

بجلی کے بل بعض اوقات مکان کے کرائے سے بھی بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ گرڈ (سرکاری بجلی) سے جان چھڑانے کے لیے سولر کا سہارا لے رہے ہیں۔ پاور سیکٹر مارچ 2025ء تک ناصرف دو ہزار 400 ارب روپے کا مقروض تھا بلکہ درآمدی گیس کی نقصان پر فروخت اور آئی پی پیز سے مہنگے معاہدوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن  میں 18 فیصد لاسز (ہدف 11.4 فیصد تھا) اور پلانٹس کے کم استعمال (انڈر یوٹلائزیشن) کے باعث بجلی کی فی یونٹ لاگت ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ کمرشل نقصانات اور لائن لاسز سے کپیسٹی پیمنٹس 12 سے 15 روپے یونٹ  تک پہنچ گئی ہیں جس سے گرڈ کی بجلی ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں87 سے 140 فیصد زیادہ  مہنگی ہے۔

اس صورت میں سولر توانائی لوگوں کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوئی جس کی قیمت اب محض 10 سینٹ فی واٹ رہ گئی ہے جو پچھلے سال 24 سینٹ فی واٹ تھی۔
شمسی توانائی کو 2023ء میں پینلز کی قیمتیں 42 فیصد کم ہونے اور سستے چینی آلات کے ساتھ سٹیٹ بینک کے چھ فیصد ری فنانسنگ پروگرام (اس سے ایک ہزار 726 میگاواٹ سولر کی فنانسنگ ہوئی) نے بھی پرکشش بنایا۔

طبقاتی فرق اور بوسیدہ گرڈ

سولر توانائی کوئی ایسی لہر نہیں جو ہر کشتی کو کنارے لگا دے بلکہ غریب گھرانوں کے لیے اس کی ابتدائی لاگت ہی ناقابلِ برداشت ہے۔ پینلز، انورٹر وغیرہ سمیت ایک عام سولر سسٹم تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار روپے (630 ڈالر) میں پڑتا ہے۔

مہنگائی اور غیر یقینی آمدنی کے باعث کمزور گھرانے سولر خریدنے کے لیے قیمتی سامان بیچنے، سود پر قرض لینے یا کھانے پینے اور تعلیم جیسے بنیادی اخراجات کی قربانی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حکومتی اقدامات خاص طور پر حالیہ بجٹ میں سولر کے درآمدی سامان پر عائد 10 فیصد ٹیکس نے اس فرق کو مزید بڑھا دیا ہے۔

امیر گھرانے تو اضافی خرچ برداشت کر سکتے ہیں مگر کم آمدنی والے گھرانے مخمصے میں پھنس گئے ہیں جن کے لیے گرڈ بجلی ناقابلِ برداشت ہے۔ جتنے لوگ سولر پر منتقل ہو رہے ہیں گرڈ کی فروخت اتنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً باقی رہ جانے والے صارفین (جو زیادہ تر کم آمدنی والے ہیں) کے لیے فی یونٹ نرخ مزید بڑھا دیے جاتے ہیں تاکہ کپیسٹی چارجز اور لائن لاسز کے نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔

گرڈ کا پرانا اور کمزور ڈھانچہ جو بجلی کی مرکزی تقسیم کے لیے بنا تھا اب بکھرے ہوئے سولر بوم کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہا۔ سولر نے دن کو (صبح سات سے شام چار بجے تک) گرڈ کی طلب  میں کمی کر دی ہے جبکہ شام کو بجلی کی مانگ بڑھ جاتی ہے کیونکہ بیشتر سولر صارفین بھی گرڈ سے بجلی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں دوپہر کے وقت 2.5 گیگاواٹ کی طلب کا خلا  پیدا ہو گیا ہے جسے 'ڈک کَرو' کہا جاتا ہے۔

مزید براں بیٹری سٹوریج  کا تیزی سے بڑھتا استعمال جو 2030ء تک 8.75 گیگاواٹ آور (پیک ڈیمانڈ کا 26 فیصد) تک پہنچنے کا امکان ہے، گرڈ کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔
واضح رہے 2024ء میں ہی پاکستان نے 1.25 گیگاواٹ آور مجموعی صلاحیت کی لیتھیم آئن بیٹریاں درآمد کی ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو گرڈ مزید غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔ جبکہ غریب جو بیٹری نہیں خرید سکتے، مزید مہنگے اور ناقابلِ بھروسا گرڈ پر انحصار کرنے پر مجبور رہیں گے۔

صنعتی اور زرعی شعبہ توانائی کے منظر نامے کو بدل رہا ہے

انرجی اور ماحولیات پر کام کرنے والے ادارے رینیوایبلز فرسٹ  کے مطابق صنعتی و زرعی شعبے بھی توانائی کے منظرنامے کو بدل رہے ہیں مگر یہ فوائد کم آمدنی والے طبقے کی محرومی کو مزید واضح کر رہے ہیں۔

صنعتوں نے 17 سینٹ فی یونٹ تک کی مہنگی بجلی سے بچنے کے لیے ایک گیگاواٹ سے زیادہ اپنی سولر پیداوار شروع کر لی جس سے بجلی کی طلب کم ہو گئی۔ 2022ء میں گرڈ کی مانگ 34 ٹیراواٹ آور تھی جو 2023ء میں 31 ٹیراواٹ آور پر آ گئی۔

زرعی شعبے میں پنجاب اور بلوچستان کے 15 سے 20 لاکھ ٹیوب ویل حکومتی اقدامات کے باعث تیزی کے ساتھ گرڈ سے سولر پر منتقل ہو رہے ہیں۔

یہ سیکٹرز مالیات اور فنانسنگ تک رسائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر ایسے فوائد کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ 
تاہم زرعی اور انڈسٹریل سیکٹر کو سولر سے میسر آنے والے فوائد کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ پاکستان سٹیٹ آئل کے مطابق پچھلے دو سال کے دوران ڈیزل کی فروخت میں 30

فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ زراعت میں سولر کا استعمال ہےجبکہ صنعتی شعبہ اپنی بجلی کی پیداوار کے لیے سستے کوئلے و تیل پر انحصار کرتا رہا ہے۔
پسماندہ طبقے کو اس طرح کی نظامی تبدیلیاں بہت کم ریلیف دیتی ہیں کیونکہ وہ سولر مارکیٹ کو ملنے والے فوائد (انیشیٹوز) سے محروم رہتے ہیں۔

کیا سلیب سسٹم بجلی کی قیمت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے؟

توانائی کی منتقلی کو منصفانہ بنانے کے لیے پاکستان کو موجودہ سلیب سسٹم کو بدلنا ہوگا جو رجعت پسندانہ ہے۔ یہ نظام زیادہ تر خوشحال لوگوں کو فائدہ دیتا ہے جو ہائبرڈ یا جزوی سولر کے ساتھ گرڈ کی صرف اتنی بجلی لیتے ہیں کہ سبسڈی کے اہل رہیں۔

دوسری جانب سلیب سسٹم زیادہ بجلی استعمال کرنے والے امیر صارفین کو سولر پر جانے کی ترغیب دیتا ہے جس سے 'مہنگی بجلی، کم طلب، اور پھر مزید زیادہ قیمت' کا ایک منحوس چکر شروع ہو جاتا ہے۔

سبسڈی کے موجودہ نظام کی جگہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے ذرائع کو استعمال کیا جانا چاہیے جس سے ضرورت مند صارفین تک (ٹارگٹڈ) سبسڈیز کی فراہمی یقینی ہو۔

اصلاحات کے طریقہ کار میں جدید ٹولز اور قیمتوں کا ایسا ڈھانچہ شامل ہونا چاہیے جو حقیقی لاگت کی عکاسی کرے اور مساوات کو فروغ دے۔

ٹیرف کو حقیقی استعمال کے مطابق بنانے کے لیے مارجنل پرائسنگ کو اپنانا ہو گا، نیٹ ورک لاگت کی منصفانہ وصولی کے لیے کیپیسٹی سبسکرپشن چارجز متعارف کرائے جائیں اور بجلی کے مؤثر استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹائم آف یوز ٹیرف نافذ ہونا چاہیے۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی اصلاحات میں سب سے پہلے لائن لاسز (ٹی اینڈ ڈی) کو کم کرنا، بلوں کی وصولی بہتر بنانا اور گورننس کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ مسلسل کمزور کارکردگی کی صورت میں نیپرا (نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی)کی نگرانی میں واضح سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ احتساب یقینی بنایا جا سکے۔

علاوہ ازیں ریگولیٹر کی اپنی ازسرنو تشکیل بھی ضروری ہے جس کے لیے اس کے گورننس سسٹم اور سست اقدامات کا مکمل تجزیہ کر کے نتائج کو عملی اصلاحات میں ڈھالا جانا چاہیے۔

ساختی تبدیلیاں اور حکمتِ عملی

سٹرکچرل لیول پر منصوبہ بندی کو پیداواری ماڈل کے بجائے طلب پر مبنی ماڈلز کی طرف لانا ضروری ہے۔ اس سے انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی)، انٹیگریٹڈ سسٹم پلان (آئی ایس پی) اور انٹیگریٹڈ انرجی پلان (آئی ای پی) کو قومی معاشی ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ کیا جا سکے گا۔

گرڈ کی جدید کاری میں تیزی لانا بھی اہم ہے جس میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال، پرانے انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن اور بڑے پیمانے پر سٹوریج میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔ مائیکرو گرڈز اور کمیونٹی سطح پر خصوصاً دیہی یا آف گرڈ علاقوں میں پیداوار کو پالیسی سپورٹ ملنی چاہیے تاکہ توانائی کے ڈھانچے کی قدرتی بڑھوتری ہو۔
بجلی کے بلوں سے ٹیکس وصولی کو الگ کرنا ضروری ہے جس سے ٹیرف کا ڈھانچہ آسان بن جائے گا، عوام کو فالتو مالی بوجھ سے چھٹکارا اور شفافیت کو فروغ ملے گا۔

گردشی قرضوں کے بحران کو بھی بروقت اور ٹارگٹڈ میکنزم کے ذریعے نمٹانا ہوگا۔ اس سلسلے میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے ذریعے ترتیب دیا جانے والا حکومتی منصوبہ 2025ء مثبت پیش رفت ہے جس میں 1.29 کھرب روپے کی فنانسنگ شامل ہے۔

مذکورہ رقم میں سے 683 ارب روپے پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے قرض کی ادائیگی کے لیے اور 612 ارب روپے نئے رعایتی شرح سود والے قرضوں کے طور پر لیے جائیں گے۔ باقی ماندہ گردشی قرض کو ختم کرنا اور دوبارہ بڑھنے سے روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا بھی ناگزیر ہے۔

سولرائزیشن نے متوسط طبقے کو مشکل میں ڈال دیا ہے

مزید براں مؤثر سبسڈی اصلاحات نہایت اہم ہیں۔ اس کے لیے کراس سبسڈی کو بتدریج ختم کر کے لاگت پر مبنی ٹیرف متعارف کرائے جائیں اور سبسڈی کو ڈسکوز کی آپریشنل کارکردگی سے براہِ راست منسلک کیا جائے۔

اس دوران کمپیٹیٹو ٹریڈنگ بائی لیٹرل کانٹریکٹس مارکیٹ (سی ٹی بی سی ایم) کا نفاذ بھی ضروری ہے جس میں مارکیٹ پر مبنی قابلِ تجدید توانائی کے انضمام کے لیے واضح امکانات ہیں۔ پالیسی سازی کو یقینی بنانا ہو گا کہ گرڈ انٹیگریشن کے فروغ اور تمام صارفین کے لیے برابری، رسائی و استطاعتِ ادائیگی کے درمیان توازن ہو۔

پاکستان میں سولر کا تیزی سے پھیلاؤ ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک نمونہ سمجھا جاتا ہے جو دراصل دو دھاری تلوار ہے۔ اس میں مارکیٹ پر مبنی تبدیلی کی طاقت نظر آتی ہے۔ یہاں پچھلے پانچ سال میں 39 گیگاواٹ کے سولر پینل درآمد کیے گئے جو 780 میگاواٹ کے بڑے بجلی منصوبوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

تاہم اس نظام نے کم آمدنی والے لوگ کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے جن کو ناصرف مالی مشکل کا سامنا نہیں بلکہ ان کی بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ وہ یا تو گرڈ کا بھاری بل ادا کریں یا مہنگے سولر سسٹم لگوائیں جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔

اگر محروم طبقات کے لیے سبسڈی اور آسان قرضوں کا انتظام نہ کیا گیا یا ان صارفین کو مضبوط تحفظ فراہم نہ ملا تو یہ توانائی کے اس انقلاب میں پیچھے رہ جائیں گے۔ سولر کی دوڑ اپنے سارے وعدوں کے باوجود یہ تلخ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ ترقی اگر بے قابو ہو تو امیر اور غریب کا فاصلہ مزید بڑھا دیتی ہے۔

تاریخ اشاعت 18 اگست 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فُرقان علی مالیاتی شعبے سے وابستہ محقق ہیں۔ وہ ایشیائی ترقیاتی بینک، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں کے ساتھ مختلف منصوبوں پر کام کر چکے ہیں۔ ان کے تحقیقی اور تحریری موضوعات میں طرزِ حکمرانی، ماحولیاتی تبدیلی، صنفی مساوات اور ادب شامل ہیں

thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.