چترال کی وادی کیلاش کے رہنے والے لوک رحمت 2012ء سے اپنے قبیلے کی سرکاری سطح پر الگ مذہبی شناخت تسلیم کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے دوران کوائف جمع کرنے والا عملہ ان کے گھر آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس بار بھی فارم میں ان کے مذہب کا خانہ شامل نہیں۔
''پہلی بار اس مردم شماری میں کیلاشہ کو زبانوں کے خانے میں شامل کیا گیا ہے لیکن اسے مذہب کے خانے میں بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اس سے ہماری شناخت جڑی ہوئی ہے اور کیلاش کا لفظ زبان و مذہب دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔''
پورے ملک میں ساتویں مردم شماری کی گھر گھر مہم یکم مارچ سے شروع ہوئی جس نے رواں ماہ مکمل ہونا ہے۔ یہ پاکستان میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے۔
مردم شماری کے ڈیجیٹل فارم میں مذہب کے خانے میں مسلمان، مسیحی، ہندو، قادیانی/ احمدی، شیڈولڈ کاسٹ، سکھ اور پارسی مذاہب کے نام لکھے ہیں جبکہ باقی مذاہب کی جگہ ''دیگر'' کا خانہ شامل کیا گیا ہے۔
حالیہ مردم شماری کے فارم میں سکھ مذہب کا خانہ شامل کرانے میں بابا جی گورپال سنگھ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ وہ سابقہ قبائلی اضلاع اور پشاور میں رہائش پذیر سکھ برادری کے رہنما ہیں۔
گورپال سنگھ کا کہنا ہے کہ چھٹی مردم شماری میں سکھ مذہب کا الگ خانہ نہیں تھا جس کی وجہ سے سکھوں کو ''دیگر'' کے خانے پر نشان لگانا پڑا اور اسی وجہ سے مردم شماری کے نتائج میں سکھوں کی مصدقہ تعداد بھی سامنے نہ آ سکی۔
''سکھ برادری کی درست تعداد معلوم نہ ہونے کے باعث نہ تو انہیں تعلیمی کوٹہ مل سکا اور نہ ہی وہ سالانہ ترقیاتی فنڈ میں اپنا حصہ پا سکے۔ اس کے علاوہ سرکاری عمارتوں اور ہوائی جہازوں میں سکھوں کی مذہبی علامت 'کرپان' لے جانے کی اجازت کے حوالے سے قانون سازی بھی معطل رہی۔''
گورپال سنگھ نے مردم شماری میں سکھوں کا الگ مذہبی خانہ شامل کرانے کے لیے مارچ 2017 میں پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے حکم جاری کیا کہ آئندہ مردم شماری میں سکھوں کو اپنی مذہبی شناخت کے اظہار کا موقع دیا جائے۔
اس عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو انہوں ںے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور 27 دسمبر 2018ء کو عدالت نے ادارہ شماریات کو حکم جاری کیا کہ آئندہ ہونے والی مردم شماری کے فارم میں سکھ مذہب کا خانہ لازمی شامل کیا جائے جس پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔
کئی مذہبی اقلیتوں کو مردم شماری میں الگ سے شناخت دینے کی بجائے 'دیگر' کے خانے میں شامل کر دیا جاتا ہے
غیر سرکاری تنظیم ادارہ برائے سماجی انصاف ملک کے 24 اضلاع میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی درست تعداد کے اندارج کے لیے آگاہی مہم چلا رہی ہے۔
اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ ملکی آبادی میں مذہبی اقلیتوں کے افراد کی درست تعداد شامل نہ ہونے کے پیچھے عوام میں آگاہی کی کمی، مردم شماری کے عملے سے عدم تعاون اور عملے کی تربیت میں کمی جیسی وجوہات کارفرما ہیں۔
''بعض علاقوں میں مردم شماری کرنے والا عملہ پرنٹ فارم پر معلومات درج کروا کے اپنے ساتھ لے گیا اور بعد ازاں ان سے حاصل شدہ کوائف کو ڈیجٹیل فارم میں درج کیا۔ اس سے غلط اندراج کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسیحی برادری کے نام مسلمانوں جیسے ہونے کی وجہ سے عملہ ان کے بارے میں اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق معلومات درج کر لیتا ہے۔''
خیبر پختونخوا میں ادارہ شماریات کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل شوکت علی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں ایسی شکایات موصول ہو ئی ہیں کہ عملے نے اپنے طرف سے ایک فارم بنا کر اسے لوگوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے بعد دوران تربیت عملے کو بتایا گیا کہ انہیں ہر گھر میں لوگوں سے ٹیبلٹ پر فارم کو پر کرنا ہو گا۔''
ان کا دعویٰ ہے کہ اب یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور ہندو رہنما ہارون سرب دیال کے مطابق مردم شماری کے حوالے سے ہندوؤں کے مسائل دیگر اقلیتی برادریوں کے مقابلے میں الگ اور زیادہ ہیں۔
''معاشرے میں ہندوؤں کے حوالے سے منفی سوچ پروان چڑھائی گئی ہے جس کے باعث اس برادری کے لوگ تعلیم، معاشی مواقع اور دیگر سہولیات حاصل کرنے کے لیے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہندو خود کو مسیحی بھی ظاہر کرتے ہیں تاکہ معاشرہ کسی حد تک انہیں قبول کرلے۔''
اپنی درست تعداد کے حوالے سے اقلیتی برادری کے شکوک شبہات کو چھٹی مردم شماری کے نتائج سے بھی تقویت ملی۔
2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری میں ملک کی کل آبادی 21 کروڑ 32 لاکھ 22 ہزار بتائی گئی تھی اور اس میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں مجموعی طور پر 0.21 فیصد کمی ظاہر کی گئی۔
پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ چھٹی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کے جانب سے شکایات سامنے آنے کے بعد مختلف سطح پر اُن کو دور کرنے کی کوشش کی گئیں۔ تاہم ان کوششوں کے خاطر خواہ مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ 1981ء، 1998ء اور 2017ء کی مردم شماری میں اقلیتی برادری کو کبھی کم اور کبھی زیادہ ظاہر کیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں درست طور پر نہیں گنا جاتا۔
لوک رحمت نے بتایاکہ کہ کیلاش قبیلے کے چار ہزار لوگوں نے اپنی درست تعداد نہ گنے جانے پر احتجاجاً 2013ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ تاہم تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کی شناخت کو محفوظ بنانے کے وعدے پر احتجاج ختم کر دیا گیا لیکن لیکن اس کے بعد عملاً کچھ نہ ہوا۔
''2017ء میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کیلاش وادی کے دورے پر آئے تھے اور اُن سے ملاقات میں اس حوالے سے بھی بات ہوئی۔ اُنہوں نے متعلقہ دستاویزات مہیا کرنے کو کہا لیکن اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔''
شوکت علی کا کہنا ہے کہ فارم کے تمام مواد کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے لی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں انہی مذاہب کو اس فارم میں رکھا گیا ہے جن کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ مستقبل میں اگر کسی اور مذہب کا خانہ شامل کرنے کا فیصلہ ہوا تو کر دیا جائے گا۔
اقلیتوں کے لیے مردم شماری کیوں اہم ہے
ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور جب تک مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد کے بارے میں مکمل اعداد و شمار سامنے نہیں آتے تب تک اُنہیں زندگی کی بنیادی سہولیات جیسا کہ تعلیم، صحت اور ملازمتوں وغیرہ کی منصفانہ فراہمی ممکن نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں
2017 کی مردم شماری کے نتائج: پنجاب میں سرائیکی بولنے والوں کے تناسب میں اضافہ۔
لوک رحمت کے مطابق کیلاش قبیلہ پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بہت سی کوششوں کے بعد نادرا کے ڈیٹا بیس میں کیلاش کو الگ مذہب کے طور پر شامل کیا گیا ہے تاہم پاسپورٹ، پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں ان لوگوں کا مذہب 'بدھ مت' لکھا جاتا ہے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس سے کیلاش لوگوں کو تحفظ کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
گورپال سنگھ کا کہنا ہے انہوں نے وزارت قانون اور صوبائی و وفاقی ادارہ شماریات کو خط لکھا کہ وہ ملک بھر میں سکھ برادری کی درست تعداد کے حوالے سے معلومات فراہم کریں تاہم کئی مہینے گزر جانے کے باوجود بھی جواب نہیں ملا۔
''سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اصل تعداد معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے نوکری اور تعلیم کا کوٹہ دو فیصد سے بڑھ نہیں سکا۔ صوبے میں میڈیکل کالجوں میں اقلیتوں کے لیے صرف ایک مخصوص سیٹ کا ہونا افسوسناک ہے۔''
تاریخ اشاعت 13 اپریل 2023