لاہور کی ایک مشہور شاہراہ پر ایک ایسے وکیل کا دفتر ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک ریکوڈک کیس سے منسلک رہے ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی عدالتوں میں بطور وکیل پیش ہونے کے علاوہ اس موضوع پر اخبارات میں لکھتے بھی رہے ہیں۔
اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ پہلی دفعہ ریکوڈک کے مقدمے میں پیش ہوئے تو انھیں یہ زمین اور معدنیات کی ملکیت کا اسی طرح کا تنازعہ دکھائی دیتا تھا جس طرح کے تنازعات سے وکلا اکثر نبٹتے رہتے ہیں۔
لیکن جب 2011 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس مقدمے پر کارروائی شروع کی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت کے افسران کو اس سے متعلق تمام دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تو معاملے کی پیچیدگی پہلی بار کھل کر سامنے آئی۔ وہ کہتے ہیں: 'جیسے ہی ہم نے دستاویزات دیکھیں تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔'
ان کے بقول ہر سماعت پر ایک نئی دستاویز سامنے آ جاتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ 1993 سے لے کر 2011 تک بلوچستان حکومت اور کان کنی کی غیر ملکی کمپنیوں کے کنسورشیم کے مابین ہونے والے تمام معاہدے اور مذاکرات عوام کے سامنے کبھی آئے ہی نہیں تھے۔
بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ اور اکاؤنٹنٹ جنرل محفوظ علی خان کہتے ہیں کہ بلوچستان کے چیف سیکرٹری نے بھی ریکوڈک سے متعلقہ دستاویزات پہلی دفعہ 2008 میں ہی دیکھیں۔ 'اس سے پہلے اگر کوئی ریکوڈک پر بات کرتا تھا تو اس کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس پر ہونے والے معاہدے میں کیا درج ہے۔'
عدالتی کارروائی کا آغاز
ریکوڈک کو ملکی سطح پر پہلی بار 2006 میں توجہ ملی جب بلوچستان اسمبلی کے ایک سابق رکن عبد الحق بلوچ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ چاغی ہِلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر اگریمنٹ (چیجوا) – وہ معاہدہ جو صوبائی حکومت اور کان کنی کی غیر ملکی کمپنیوں نے 1993 میں کیا- بلوچستان مائننگ کنسیشن روُلز 1970 سے متصادم ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پچھلے 13 سال میں کان کنی کی کمپنیوں نے ریکوڈک کے علاقے میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ اس پٹیشن کی بنیاد انگریزی اخبارات دی نیوز اور بزنس ریکارڈر میں بالترتیب 2004 اور 2006 میں شائع ہونے والی دو رپورٹیں تھیں۔
لیکن 26 جون 2007 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امان اللہ خان نے یہ پٹیشن خارج کر دی۔ ان کے مطابق درخواست گزار اس معاملے میں قانونی طور پر 'متاثرہ فریق' کی تعریف پر پورا نہیں اترتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار 13 سال سے زیادہ پرانے معاہدوں پر عدالتی کارروائی کی درخواست نہیں کر سکتے اور اگر انھیں ان معاہدوں پر تشویش ہے تو ان کو منظرِ عام پر لانے کے دوسرے طریقے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں سب سے اہم بات یہ کہی کہ اس پٹیشن میں متنازعہ حقائق شامل ہیں مگر عدالت ان کی حقیقت کو پرکھنے کا دائرہ اختیار استعمال نہیں کرے گی کیونکہ وہ 'اپنی تحقیق سے حقیقت کا فیصلہ نہیں کر سکتی'.
اس پٹیشن کے خارج ہونے کے فوراً بعد ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) – جو متعدد تبدیلیوں کے بعد 2006 میں چیجوا کا مرکزی فریق بنی تھی - نے معدنیات کی کان کنی کا لائسنس حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ لائسنس کے لئے دائر کی گئی درخواست میں کمپنی نے حکومت کو دو فی صد رائلٹی دینے کی پیشکش کی حالانکہ واقفِ حال لوگوں کے مطابق عالمی طور پر ایسے معاہدوں میں رائلٹی کی شرح کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
حکومتی حکمتِ عملی
2008 کے عام انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آنے والی صوبائی حکومت کے سربراہ وزیرِ اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی شروع سے ہی ریکوڈک پر ہونے والے معاہدے کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے۔ اس لئے انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد فوری طور پر اس پر نظر ثانی شروع کر دی۔
دو سال کے غور و خوض کے بعد حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ ریکوڈک کا معاہدہ پاکستان اور بلوچستان کے مفاد میں نہیں لہٰذا 24 دسمبر 2009 کو اسلم رئیسانی نے چیجوا کو منسوخ کرنے کی منظوری دے دی۔ انھوں نے مزید اعلان کیا کہ صوبائی حکومت خود ریکوڈک کے علاقے میں کان کنی کا منصوبہ شروع کرے گی جس کے لئے قومی اقتصادی کونسل – جو وفاقی کابینہ کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی ہے - نے ریکوڈک سے ملحقہ تنجیل نامی علاقے میں بلوچستان کاپر اینڈ گولڈ نامی پراجیکٹ کی سرگرمیاں شروع کرنے کی منظوری دی۔ (اس پراجیکٹ کو جوہری سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سر پرستی میں دیا گیا لیکن 2015 میں غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر اسے بند کر دیا گیا۔)
ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کے فیصلے کے کچھ مہینے بعد جولائی 2010 میں ٹی سی سی نے ایک 'فیزیبیلیٹی رپورٹ' صوبائی حکومت کو جمع کروائی جس کی بنیاد پر 15 فروری 2011 کو کمپنی نے کان کنی کے لائسنس کی لئے ایک نئی درخواست بھی حکومت کو جمع کرا دی۔
اس رپورٹ میں ٹی سی سی نے تجویز پیش کی کہ ریکوڈک سے نکلنے والے تانبے کو پیسنے کے بعد مائع میں تبدیل کر کے ایک پائپ لائن کے ذریعے گوادر بھیجا جائے گا جہاں سے اسے غیر ملکی ریفائینریز میں منتقل کر دیا جائے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ پاکستان کی معدنی دولت لوٹنے کا ایک بہترین طریقہ تھا کیونکہ دونوں مقامات کو جوڑنے کے لئے درکار کئی سو میل طویل پائپ لائن کے ہر مقام پر نظر رکھنا حکومت کے لئے نا ممکن تھا چنانچہ اس بات کا پتہ لگانا کہ اس پائپ لائن کے ذریعے کتنا تانبا باہر بھیجا جا رہا ہے ابھی ایک نا ممکن امر تھا۔
ریکوڈک کیس سے وابستہ ایک وکیل یہ انکشاف کرتے ہیں کہ عالمی عدالت میں پاکستان کا مقدمہ لڑنے کی تیاری کے دوران جب حکومتی وکلا نے جغرافیائی ماہرین کی ایک ٹیم ریکوڈک بھیجی تو اس کے ارکان نے ریکوڈک اور گوادر کے درمیانی علاقے کو دیکھ کر کہا کہ ان دونوں مقامات کے درمیان ایک اتنی لمبی پائپ لائن بنانا ممکن ہی نہیں۔
بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی ٹی سی سی کی فیزیبیلیٹی رپورٹ پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'کمپنی کو چیجوا کے تحت ہزاروں مربع کلومیٹر زمین دی گئی تھی لیکن اس نے اس میں سے صرف پانچ کلومیٹر کی فیزیبیلیٹی رپورٹ پیش کی۔ ان پانچ کلومیٹر میں اس نے قیمتی دھاتوں کا پتہ لگانے کے لئے 15 سوراخ کئے تھے لیکن ان میں سے بھی صرف دو سوراخوں کی تفصیل اس رپورٹ میں درج تھی۔' ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب حکومت نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں تو وہ ٹی سی سی کی رپورٹ سے متصادم نکلیں۔
دوسرے لفظوں میں ان کا دعویٰ ہے کہ ٹی سی سی ریکوڈک میں پائی جانے والی دھاتوں کی اصل مقدار کو چھپا رہی تھی۔
اس صورتِ حال کے پیشِ نظر نومبر 2011 میں صوبائی حکومت نے ٹی سی سی کی کان کنی کے لائسنس کی درخواست مسترد کر دی کیونکہ 'وہ اخلاقی اور قانونی طور بلوچستان کے باسیوں کے مفاد اور ان کے وسائل کی حفاظت کرنے کی پابند ہے۔'
عدالتی کارروائی کا دوبارہ آغاز
بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے چیجوا کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن خارج کیے جانے کے فوراً بعد پاکستان بھر میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ۔ 2009 میں جب اس تحریک کے نتیجے میں اٖفتخار محمد چوہدری نے چیف جسٹس آف پاکستان کا قلمدان سنبھالا تو عبدالحق بلوچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ اس کے بعد ملک بھر سے کئی وکلا، سینیٹرز اور شہریوں نے بھی اس ضمن میں سپریم کورٹ میں پٹیشنز دائر کر دیں۔
8 فروری 2011 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریکوڈک کیس سے متعلق تمام دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ جب یہ دستاویز سامنے آئیں تو بلوچستان حکومت نے ان کے دفاع سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔
اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ بلوچستان مائننگ روُلز (بی ایم سی) 1970 میں چیجوا کی فریق کمپنی کو 1994 میں دی گئی خصوصی مراعات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ حکومتی دستاویزات کے مطابق صوبائی حکومت نے بی ایم سی 1970 میں موجود شق 98 کا استعمال کرتے ہوئے یہ مراعات دی تھیں لیکن عدالت بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ شق صرف غیر معمولی حالات اور خاص مشکلات کی صورت میں ہی حکومت کو کوئی رعایت دینے کا جواز دیتی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے کبھی وضاحت نہیں کی کہ ریکوڈک کے معاملے میں اسے خود یا کمپنی کو کیا غیر معمولی حالات یا خاص مشکلات در پیش ہوئیں۔ لہٰذا عدالت نے ان مراعات کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے جنوری 2013 میں یہ فیصلہ بھی دیا کہ 1993 میں ہونے والا چیجوا بھی آئین سے متصادم اصولوں کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے اور اس میں منرل ڈیولپمنٹ ایکٹ 1948، مائننگ کنسیشن روُلز 1970، کانٹریکٹ ایکٹ 1872، ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ 1882 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ چنانچہ عدالت نے چیجوا کو بھی غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا گیا۔
عالمی عدالت میں پاکستان کو جرمانہ
سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ عالمی عدالتوں میں اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں حالانکہ اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی ٹی سی سی نے انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (اِکسڈ) – جو کہ سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک ایسی عدالت ہے جو کاروباری تنازعات میں ثالثی کا کام کرتی ہے – میں کیس دائر کر دیا تھا کیونکہ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے خلاف آئے گا۔
اِکسڈ میں یہ مقدمہ 28 نومبر 2011 کو دائر کیا گیا۔ اس میں ٹی سی سی نے یہ نکتہ اٹھایا کہ معاہدے کی منسوخی کی وجہ سے اس کا وقت اور پیسہ ضائع ہوا ہے چنانچہ پاکستان کو اس ضیاع کا ہرجانہ ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔
عالمی عدالت میں پاکستان کی جانب سے پیش ہونے والے ایک وکیل کے مطابق پاکستان اس مقدمے میں مضبوط دلائل پیش نہیں کر سکا کیونکہ اس کی پیروی کے لئے حکومت نے وکلا کی ایک متحدہ ٹیم بنانے کے بجائے علیحدہ علیحدہ متعدد وکلا کی خدمات حاصل کیں۔ 'ہر وکیل کے پاس مقدمے کی پیروی کرنے کی ایک خاص حکمتِ عملی ہوتی ہے چنانچہ مختلف وکلا کی مختلف حکمتِ عملیوں کے باعث پاکستان اِکسڈ میں ایک واضح موقف پیش نہیں کر پایا۔ اس کے برعکس ٹی سی سی کے پاس وکلا کی ایک ہی ٹیم تھی جس نے سارے مقدمے میں اس کی نمائندگی کی۔'
اس وکیل کے بقول پاکستان کا موقف اس وجہ سے بھی کمزور رہا کہ پاکستانی وکلا چیجوا کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے غیر آئینی قرار دینے کے نکتے پر اصرار کرتے رہے حالانکہ 'عالمی عدالتیں پاکستان کی عدالتوں کے فیصلوں کی پابند نہیں ہیں چنانچہ یہ موقف کبھی ایک مضبوط دلیل نہیں بن سکتا تھا۔'
دوسری طرف ٹی سی سی نے عالمی عدالت کو بتایا کہ وہ ریکوڈک کے منصوبے پر 30 کروڑ ڈالر کے قریب رقم خرچ کر چکی ہے جو اب ضائع ہو گئی ہے۔ کمپنی نے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 1998 میں ہونے والے سرمایہ کاری کے مشترکہ معاہدے کو بھی اپنے دلائل کا حصہ بنایا جس کے تحت پاکستانی حکومت آسٹریلیا کی کمپنیوں کی طرف سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کی پابند ہے۔
2019 میں اِکسڈ نے بالآخر پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا اور حکومتِ پاکستان کو یہ حکم دیا کہ وہ ٹی سی سی کو تقریبا چھ ارب ڈالر بطور ہرجانہ دے۔ فی الوقت پاکستان نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر کارروائی ابھی شروع نہیں ہوئی۔
مقدمے سے منسلک قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ریکوڈک معاہدے سے جڑے افسران کے خلاف بدعنوانی کے قوانین کے تحت مقدمات چلائے ہوتے اور ان میں سے کم از کم کچھ کو سزا دی ہوتی تو عالمی عدالت میں پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہو جاتا کیونکہ، ان کے مطابق، 'کرپشن کی بنیاد پر کئے گئے معاہدوں کو عالمی عدالتیں قانونی تحفظ نہیں دیتیں۔'
ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو چاہیئے تھا کہ وہ اصل معاہدے کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ فریقین کو اس بات کا پابند بناتی کہ وہ قانونی اور آئینی اصولوں کی بنیاد پر ایک نیا معاہدہ کریں اور اس کے تحت کان کنی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں۔ ان کا خیال ہے کہ نئے معاہدے کی اجازت دینے سے ٹی سی سی کا عالمی عدالت میں جانے کا جواز ختم ہو جاتا۔
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
امان اللہ کنرانی، جو خود بھی عالمی عدالت میں بطور گواہ پیش ہو چکے ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف آنے والے فیصلے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ 'عالمی عدالتیں عمومی طور پر کمپنیوں کی ہی حامی ہوتی ہیں۔'
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اِکسڈ کی کارروائی میں عمومی طور پر تین جج ہوتے ہیں اور جن کی تقرری کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق ایک ایک جج منتخب کرتے ہیں اور پھر ایک غیر جانبدار جج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ 'پاکستان نے پہلے عزیز اے منشی اور پھر شاہد حامد کا نام دیا (جو دونوں پاکستان کے معروف قانون دانوں میں شمار ہوتے ہیں) مگر عدالت نے یہ نام منظور نہیں کئے۔ لہٰذا عملی طور پر تینوں جج ہی کمپنی کے نامزد کردہ تھے۔'
یہ بھی پڑھیں
سونے کے پہاڑ جو سراب ثابت ہوئے
امان اللہ کنرانی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسلم رئیسانی کی حکومت کی برطرفی کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہ کان کنی کی کمپنیوں کے مفادات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ 'رئیسانی حکومت کو کوئٹہ میں ہزارہ شہریوں کی بم دھماکوں میں ہلاکتوں کے بعد بر طرف کیا گیا مگر ان کی بر طرفی کے بعد بھی ہزارہ برادری کے قتلِ عام کا سلسلہ نہیں رکا۔ خود اسلم رئیسانی پر بھی دو حملے ہوئے۔ اس لئے مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ان کی برطرفی کا ریکو ڈک کیس سے گہرا تعلق ہے۔'
اسلم رئیسانی نے بھی 2013 میں اپنی حکومت کی برطرفی کے فوراً بعد انگریزی اخبار دی نیوز کو یہی بات کہی۔ 'مجھے اپنی برطرفی پر کوئی تعجب نہیں۔ میں تین سال سے اس دن کے لئے تیار تھا کیونکہ مجھ پر کان کنی کی غیر ملکی کمپنیوں سے مذاکرات کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ انھوں نے مجھے رشوت دے کر خریدنے کی بھی کوشش کی مگر میں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔'
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 15 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 12 جنوری 2022