ڈیرہ نور ایک غیر روایتی زرعی فارم ہے۔ اس کے بیچوں بیچ اس کے مالک سلیمان سجاد وڑائچ کا گھر ہے۔ جس کے ایک طرف آم کا باغ ہے اور دوسری طرف لیچی کا۔ ان باغات کے ارد گرد دور دور تک گندم، مکئی اور برسیم کے کھیت پھیلے ہوئے ہیں جنہیں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل سیراب کرتے ہیں۔
سلیمان سجاد وڑائچ کینیڈین پاکستانی ہیں اور لگ بھگ پانچ سال سے مستقل طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان کا خاندان ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا میں کئی سو ایکڑ اراضی کا مالک ہے۔ ڈیرہ نور اس تحصیل کے گاؤں فتح ریحان کے قریب ایک نہر کے پاس واقع ہے۔
سلیمان سجاد وڑائچ کے گھر کے باہر ایک اونچے درخت پر پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا ہے جبکہ گھر کے اندر ایک درخت پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا پرانا سا پرچم لگا ہوا ہے۔
تین سال قبل سلیمان سجاد وڑائچ نے اپنے جواں سال بیٹے فقیر محمد وڑائچ کو بھی پاکستان بلا لیا تا کہ وہ زمینداری میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ حالانکہ فقیر محمد وڑائچ نے سکول سے لے کر کالج تک تمام تعلیم کینیڈا سے حاصل کی ہے اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو مقامی ماحول میں ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں تین سو پودوں پر مشتمل امردود کا باغ بھی لگایا ہے۔
لیکن اب سلیمان سجاد وڑائچ اپنے بیٹے کو پاکستان بلانے کے فیصلے پر خوش نہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ جلد ہی وہ اپنی پانچ سو ایکڑ زمین سے محروم ہو جائیں گے۔
اس خدشے کی بنیاد پنجاب حکومت کا راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ نامی منصوبہ ہے جس کے تحت لاہور کے شمال اور مغرب میں دریائے راوی کے بہاؤ کے ارد گرد ایک جدید شہر بسایا جائے گا۔ اس منصوبے کے لئے کل ایک لاکھ دو ہزار ایکڑ زمین درکار ہے جس میں 89 ہزار ایکڑ زرعی اراضی شامل ہے جو سلیمان سجاد وڑائچ سمیت لاہور اور فیروز والا کے مختلف دیہات میں رہنے والے زمین داروں کی ملکیت ہے۔
فیروز والا کے مقامی لوگوں کے مطابق حصولِ اراضی کے قانون کی شق 5 کے تحت سرکاری گزٹ میں اور ان کے علاقے میں یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ یہ زمین کس مقصد کے لئے حاصل کی جا رہی ہے اور یہ مقصد کس طرح عوامی مفاد پر پورا اترتا ہے۔ اسی قانون کی شق 4 کے تحت ضلعی انتظامیہ نے منصوبے کے لئے درکار کل اراضی میں سے 40 ہزار کنال کی نشان دہی اور پیمائش بھی مکمل کر لی ہے۔
(منصوبے کے لئے درکار اراضی میں )اس زمین پر 23 دیہات واقع ہیں جن میں سے سات ضلع لاہور میں جبکہ 16 ضلع شیخوپورہ میں واقع ہیں۔اس زمین میں 1500 ایکڑ ایسے بھی شامل ہیں جن پر دریائے راوی بہتا ہے۔ )ویڈیو یا چارٹ) منصوبے کا انتظام چلانے کے لئے اگست 2020 میں قائم کیے گئے سرکاری ادارے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق ان ایکڑوں کے حصول کا مقصد دریا کے بہاؤ کو قابو میں لا کر اسے ایک معین راستے سے گزارنا ہے۔
رواں مہینے کے شروع میں صوبائی حکومت نے پیمائش شدہ زمین کی قیمت بھی متیعن کر دی جس کے مطابق دریا کے اندر واقع زمین دو لاکھ روپے فی ایکڑ اور دریا کے ساتھ واقع زمین دو لاکھ 35 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے حاصل کی جائے گی۔ اس حساب سے ڈیرہ نور کے قریب واقع موضع ایا نگر کلاں میں منصوبے کے لئے چنی گئی زمین کی قیمت 62 کروڑ 65 لاکھ 83 ہزار نو سو چار روپے رکھی گئی ہے۔
اس زمین پر لگی ہوئی فصلوں اور باغات اور اس پر کی گئی تعمیرات کے لئے زرِ تلافی کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ اس زرِ تلافی میں فصلوں اور باغات کے لئے چار کروڑ 70 لاکھ 82 ہزار تین سو 78 روپے، تعمیرات کے لئے دو کروڑ 17 لاکھ 52 ہزار 95 روپے، ٹیوب ویلوں کے لئے 18 لاکھ 87 ہزار آٹھ سو روپے اور درختوں کے لئے 11 لاکھ 50 ہزار تین سو چار روپے رکھے گئے ہیں۔
مگر مقامی زمین دار اس حساب کتاب سے مطمئن نہیں۔ ایا نگر کلاں کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں زمین کی جو قیمت دے رہی ہے اس سے وہ شہر میں ایک جھونپڑی بھی نہیں بنا سکتے۔
سلیمان سجاد وڑائچ بھی اپنی زمین کی راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ میں شمولیت پر سراپا احتجاج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر پر "پاکستان تحریکِ انصاف کا جھنڈا اس امید پر لگایا تھا کہ اس ملک میں انصاف ہو گا لیکن شاید یہ انصاف نئے شہر بنانے والوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ انہیں کئی ہزار کنال زمین اپنے قبضے میں لینے کا اجازت نامہ دے دیا گیا ہے"۔
اپنے احتجاج کو موثر بنانے کے لئے وہ عالمی بنک کو ایک خط بھی لکھنا چاہتے ہیں تاکہ اسے بتا سکیں کہ اس نے انہیں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگانے کے لئے جو مالی امداد دی ہے اس کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ وہ لکھنا چاہتے ہیں کہ "حکومتِ پاکستان شمسی ٹیوب ویل لگانے میں تو زمین داروں کی مدد کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی ان سے ان کی زمین بھی چھین رہی ہے"۔
کسانوں کی شکایات
مقامی زمین داروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ حکومت نے ان سے زمین حاصل کرنے کے لئے کوئی واضح طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ کون سی زمین راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ میں کس لئے شامل کی گئی اور کون سی زمین اس میں سے کن وجوہات کی بنا پر نکال دی گئی ہے۔ ایک مقامی سیاست دان، میاں مصطفیٰ رشید، کے بقول حکومت جب چاہتی ہے زمین کا کوئی ٹکڑا منصوبے میں شامل کر دیتی ہے اور جب چاہتی ہے کسی دوسرے ٹکڑے کو اس سے نکال دیتی ہے۔
راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ کے لئے حاصل کی جانے والی زمین کا ایک بڑا حصہ پاکستان اور انڈیا کی سرحد سے جڑی پانچ میل چوڑی پٹی میں واقع ہے جس میں زمین کی خرید و فروخت کرنے کے لئے فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز کی طرف سے قائم کی گئی بارڈر ایریا کمیٹی سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ اس علاقے میں زمین کی خرید و فروخت کے لئے ایک دیگر ضروری شرط یہ ہے کہ بارڈر ایریا کمیٹی کا سربراہ خود زمین کے مالک اور خریدار سے تمام متعلقہ کاغذات پر دستخط کرائے گا۔
سلیمان سجاد وڑائچ کہتے ہیں کہ مقامی زمین دار اس بات سے مکمل طور پر لا علم ہیں کہ آیا راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بارڈر ایریا کمیٹی سے زمین کی خرید و فروخت کی اجازت لے لی ہے یا نہیں۔ تاہم وہ جانتے ہیں کہ اس کمیٹی کے اہل کاروں نے ابھی تک مقامی زمین داروں سے رابطہ نہیں کیا۔اس کے باوجود سرحدی پٹی کے اندر واقع زمینوں پر بھی حصول اراضی کے قانون کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق "اس کا مطلب ہے کہ اتھارٹی ان زمینوں کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے"۔
لاہور ہائی کورٹ میں کام کرنے والے وکیل محمد سعد وڑائچ بھی سمجھتے ہیں کہ سرحدی پٹی میں حصولِ اراضی کے قانون کا اطلاق "سرا سر غیر قانونی ہے"۔
وہ وکلا کی ایک ایسی ٹیم کے رکن ہیں جو ہائی کورٹ میں راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کے خلاف دائر کی گئی متعدد درخواستوں کی پیروی کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک رِٹ میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چئرمین عمران امین کی اہلیت کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
عمران امین نے حال ہی میں یہ عہدہ سنبھالا ہے- اس سے پہلے وہ پچھلے سال بنائی گئی پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبوری چئرمین رہ چکے ہیں۔ انہوں نے سنگاپور کی مائن ہارٹ نامی کمپنی میں بھی کام کیا ہے جو 2014 میں پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کے دورِ حکومت میں راوی پر شہر بنانے کے منصوبے کے بارے میں ایک تفصیلی فزیبلیٹی رپورٹ مرتب کر چکی ہے۔
عمران امین سے پہلے راشد عزیز راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین تھے۔ وہ تعلیم کے اعتبار سےالیکٹریکل انجینئر ہیں لیکن پیشے کے اعتبار سے تعمیراتی صنعت سے منسلک ہیں۔ ان کی تعیناتی کے خلاف بھی ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اتھارٹی کو چلانے کے لئے متعلقہ اہلیت نہیں رکھتے۔
لیکن انہوں نے مارچ 2021 کے تیسرے ہفتے میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ بعد ازاں انہوں نے ڈان اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کے استعفے کی وجہ عمران امین کو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر بنایا جانا تھا۔ راشد عزیز کا کہنا تھا کہ اس تعیناتی کے بعد چیئرمین کا عہدہ بے اختیار ہو کر رہ گیا تھا۔
اتھارٹی میں تعینات ایک اور اہم شخصیت اس کے ترجمان ایس ایم عمران منیر کی ہے جو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔ ان کے والد ایس ایم منیر دین گروپ نامی بزنس ہاؤس کے بانی ہیں جس کی ویب سائٹ کے مطابق ایس ایم عمران منیر اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔ اس گروپ کا ایک اہم منصوبہ ڈین گارڈنز نامی رہائشی سکیم ہے جو وسطی پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں بنائی جا رہی ہے۔
فیروزوالا کے زمین داروں کے مطابق ان کی میل ملاقات زیادہ تر ایس ایم عمران منیر سے ہی ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ اتھارٹی کے دوسرے اعلیٰ عہدے دار شاید ہی کبھی مقامی لوگوں سے ملے ہوں۔
زمین دار بمقابلہ اتھارٹی
2 مارچ 2021 کو فیروز والا ٹا ؤن میں محکمہ مال کے اہل کاروں کی طرف سے مقامی تھانے میں ایک پرچہ درج کرایا گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اس دن محمد شفیق نامی قانون گو راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ کے لئے حاصل کی جانے والی زمینوں کی قیمتیں طے کر رہا تھا کہ 80-90 افراد پر مشتمل ایک ہجوم اس کے پاس آیا اور ان میں سے ایک شخص نے اس سے کہنا شروع کر دیا کہ اس کی زمین کی قیمت کم لگائی گئی ہے۔ پرچے کی تفصیلات کے مطابق بعد ازاں اس ہجوم میں شامل لوگوں نے مبینہ طور پر محمد شفیق کو مارا پیٹا اور اس سے کچھ سرکاری کاغذات چھین کر فرار ہو گئے۔
لیکن زمین داروں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سراسر جھوٹے ہیں۔ ان کے مطابق جھگڑے کا آغاز ضلعی انتظامیہ نے کیا کیونکہ اس کے اہل کار کسانوں کے اعتراضات سننے کی بجائے ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
جھگڑے کی تفصیلات بتاتے ہوئے میاں مصطفیٰ رشید کہتے ہیں کہ زمین کی قیمت کے تعین کے وقت ایسے بہت سے زمین دار موجود تھے جنہیں شکایت تھی کہ انہیں اس عمل کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے 26 فروری 2021 کو اخبار میں ایک اشتہار دینے کے علاوہ انہیں آگاہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اختیار نہیں کیا تھا حالانکہ قانون کی رو سے ہر متاثرہ زمین دار کو اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے ایک انفرادی نوٹس بھیجا جانا ضروری تھا۔
میاں مصطفیٰ رشید کے مطابق، انتظامیہ کے ساتھ تکرار کے دوران ایک زمین دار نے زمین کی قیمت کم رکھے جانے کی شکایت کی جس پر ایک سرکاری اہل کا نے ہتک آمیز لہجے میں کہا کہ "یہی پیسے لینے ہیں تو لے لو ورنہ تمہاری زمین کی اصل قیمت اتنی بھی نہیں ہے"۔ اس پر دونوں فریقوں میں جھگڑا پھوٹ پڑا۔
کچھ روز بعد زمین داروں نے حصولِ اراضی کا عمل روکنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رِٹ دائر کر دی جس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شاہد کریم نے 11 مارچ 2021 کو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حکم دیا کہ وہ اس وقت تک زمین داروں سے زمین نہ لے جب تک راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں محکمہ تحفظِ ماحول کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی جاتی۔
یہ بھی پڑھیں
دریائے راوی پر نیا شہر بنانے کا منصوبہ: 'عوام سے زمین لے کر خواص کو دی جا رہی ہے'۔
لیکن زمین داروں کا دعویٰ ہے کہ اس حکم کے باوجود سرکاری اہل کار اور پراپرٹی ڈیلر دونوں ہی فیروزوالا کے دیہات میں سر گرم ہیں اور دھونس دھاندلی اور ترغیب و تحریص کے ذریعے لوگوں کو زمینیں بیچنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ میاں مصطفیٰ رشید کہتے ہیں کہ مقامی زمین کی قیمت کا تعین بھی حکومت اور کچھ بڑے زمین داروں کے درمیان گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا جس میں انہیں لالچ دیا گیا کہ اگر وہ حصولِ اراضی کے عمل میں مدد کریں گے تو انہیں منصوبے کی تکمیل کے دوران خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
زمین مالکان کے احتجاج سے بچنے کے لئے حکومت مجوزہ منصوبے میں شامل مختلف آبادیوں میں مختلف حکمتِ عملی بھی اپنائے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر جب دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر موجود گھروں اور صنعتوں کے مالکان نے زمین کے حصول کے عمل کی شدید مخالفت کی تو حکومت نے نہ تو اس علاقے میں زمین کی نشان دہی اور پیمائش کا عمل مکمل کیا اور نہ ہی وہاں زمین کی قیمت کا تعین کیا۔وہاں کی صنعتوں کے مالکان نے در حقیقت اس قدر شدید احتجاج کیا کہ دسمبر 2020 میں ایس ایم عمران منیر کو بیان دینا پڑا کہ کسی چالو فیکٹری کی زمین راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ کے لئے نہیں لی جائے گی۔ لیکن دوسری طرف راوی کے شمال میں واقع زرعی زمینوں کے حصول کا عمل تیز کر دیا گیا۔
تاہم میاں مصطفیٰ رشید کا دعویٰ ہے کہ یہ حکمت عملی اب کامیاب نہ ہو سکے گی کیونکہ، ان کے بقول، تمام زمینوں کے مالک "اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں" اور اگر ان کی بات نہ سنی گئی "تو وہ اپنی زمینوں کے بچاؤ کے لئے ہر فورم پر احتجاج کرنے کو تیار ہیں"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفع 30 مارچ 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 8 اکتوبر 2021