"کیا قبائلی لڑکیاں اس لیے ہیں کہ کم عمری میں انہیں کسی کے نام کر دیا جائے، لڑکا بڑا ہو کر جرائم پیشہ اور اشتہاری بن جائے تب بھی قبیلہ زبردستی شادی کر دے اور لڑکیوں کی زندگی کے فیصلے پنچایت میں کیے جائیں؟"
یہ باتیں ضلع ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے فاضلہ کَچھ سے تعلق رکھنے والی چند برقعہ پوش خواتین کی ہیں جن میں رخسانہ ناز بھی شامل ہیں۔
رخسانہ کا تعلق فاضلہ کَچھ میں آباد بزدار قبیلے کی شاخ جونگلانی سے ہے۔ یہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ سردار عثمان احمد خان بزدار کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔
سات ماہ کی عمر میں رخسانہ کا رشتہ اپنے قبیلے کے ایک بچے زبیر صدیق سے طے کر دیا گیا۔ جوان ہونے پر زبیر کا چال چلن دیکھتے ہوئے رخسانہ نے بچپن میں کیے گئے اس رشتے کی مخالفت شروع کر دی۔ معاملہ قبائلی پنچایت تک پہنچا جس نے رخسانہ کی شادی ہر صورت زبیر سے کرنے کا حکم دے دیا۔ آخری چارے کے طور پر رخسانه نے ڈیرہ غازی خان میں دارالامان میں پناہ لے لی ہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق رخسانہ ناز نے تھانہ بارڈر ملڑی پولیس (بی ایم پی) فاضلہ کَچھ میں 14 جولائی 2022ء کو ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ اس میں انہوں نے اپنے والد امیر حسن اور زبیر صدیق سے تحفظ فراہم کرنے استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کا دباؤ ہے کہ اگر انہوں نے کسی اور جگہ شادی کی تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ رخسانہ کے مطابق وہ سخت ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔
ان کی مرضی کے بغیر زبیر سے شادی کا حکم دینے والی پنچایت میں سابق ناظم وڈیرا محمد رمضان، جوانسال جونگلانی اور سردار رشید خان مٹھوانی شامل تھے۔درخواست میں فرسودہ قبائلی رسوم و رواج کے تحت فیصلے کرنے والوں کے خلاف فی الفور اور مؤثر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں انسانی حقوق کمیشن کے رکن ذوالفقار بلوچ کے مطابق رخسانہ ناز نے انسانی حقوق کمیشن جنوبی پنجاب کے کوارڈینیٹر فیصل تنگوانی کو وٹس ایپ کے ذریعے ایک درخواست بھیجی تھی جس میں کہا گیا کہ وہ زبیر سے شادی نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ وہ جرائم پیشہ ہے لیکن "میرے والد مجھے اس کے ہاتھ 'فروخت' کرنا چاہتے ہیں۔"
کمیشن نے ذوالفقار بلوچ کے ذریعے اور تونسہ پولیس کی مدد سے رخسانه کو گھر سے برآمد کرایا اور ان کی منشا کے مطابق ڈیرہ غازی خان دارالامان میں داخل کرا دیا۔
رخسانہ کہتی ہیں کہ زبیر سے شادی نہ ہونے کی ضمانت دی جائے تو وہ اپنے والدین کے گھر منتقل ہو سکتی ہیں۔ تاہم اس کے خاندان کے لیے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ قبائلی خواتین کے مطابق خاندان پر شادی کے لیے شدید دباؤ ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن آمنہ زہرہ کا کہنا ہے کہ رخسانہ کا خاندان خوف و ہراس کا شکار ہے اور زبیر کے خاندان اور قبائلی شاخ کی طرف سے شادی سے انکار پر سارے خاندان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ انہیں اپنی آبائی زمین سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق رخسانہ کے والد زبیر کے مقروض بھی ہیں۔
تھانہ بی ایم پی فاضلہ کَچھ کے پولیس افسروں کے مطابق زبیر بلوچستان کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات میں اشتہاری ہے۔
بارڈر ملٹری پولیس تھانہ فاضلہ کَچھ کے جمعدار حاجی مقبول نے بتایا کہ بی ایم پی نے ملزم زبیر صدیق کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اس نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی۔ ان کے مطابق وہ ملزم کی عبوری ضمانت منسوخ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے جلد ہی کسی پیش رفت کا امکان ہے۔
زبیر صدیق اور اس کی حمایت کرنے والے قبائلیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ علاقائی رسم و رواج کے مطابق خاندان یا تو رشتہ دے یا بطور ہرجانہ 15 لاکھ روپے ادا کرے۔ نیز شادی نہ ہونے کی صورت میں اس خاندان کو اپنی آبائی زمینیں چھوڑ کر علاقہ بدر ہونا ہو گا۔
فاضلہ کَچھ کی متعدد قبائلی خواتین بی ایم پی کے کردار سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بارڈر ملٹری پولیس والوں کو خواتین پر تشدد کے خلاف قانون سازی ازبر کرائی جائے اور قبائلی علاقے میں انسانی حقوق کا ادراک رکھنے والے اور ان کی خلاف ورزیوں کے خلاف نوٹس لینے والے افسر تعینات کیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں
راجن پور: تین سال میں غیرت کے نام پر 50 افراد قتل، 44 واقعات میں ملزم سزا سے بچ نکلے
انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں مشاہدے میں آئی ہیں۔ بالخصوص ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائلی علاقوں میں خواتین کے خلاف قبیح رسوم جیسا کہ کاروکاری (کالا کالی) اور ونی ابھی تک رائج ہیں۔ بارڈر ملڑی پولیس ایسے واقعات میں خواتین کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ ان قبائلی علاقوں میں عورتوں کی مناسب ڈاکومینٹیشن نہ ہونے سے ان کی سیاسی آواز نہیں بن پاتی۔
ذوالفقار بلوچ اور آمنہ زہرہ کے مطابق عورتوں کے خلاف بہت سے جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے لیکن مختلف افراد سے جو اطلاعات ان تک پہنچتی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کالا کالی، ونی، لڑکیوں کی فروخت اور جائیداد سے محرومی کے واقعات تواتر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چند ہفتوں تین چار ایسے واقعات کے کوائف اکھٹے کیے گئے ہیں۔
متعدد کوششوں کے باوجود اس معاملے میں زبیر صدیق اور ان کے خاندان سے مؤقف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
تاریخ اشاعت 28 اگست 2023