بھکر کی بستی خان محمد کے ضمیر حسین مقامی زمیندار کے ہاں مزدوری کرتے ہیں۔ مگر ان کی اجرت روپے پیسے میں نہیں بلکہ جنس میں ہوتی ہے۔
زمیندار انہیں ان کی خدمات (نوکری) کے عوض سالانہ 35 بوری گندم دیتا ہے۔ ایک بوری میں 100 کلو گرام گندم ہوتی ہے۔
سارا سال تک کھیتوں میں کام کرنے کے بدلے ضمیر حسین کو مالک کی طرف سے یہ اجرت ایک ہی بار گندم کی کٹائی کے وقت ملتی ہے، جسے فروخت کر کے وہ سال بھر چار افراد پر مشتمل کنبے کی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
ضمیر حسین اور ان کا خاندان زمیندار کی طرف سے فراہم کردہ ایک کمرے کے مکان میں رہائش پذیر ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سالانہ ملنے والی 35 بوری گندم میں سے وہ ہرسال پانچ بوری گھر میں کھانے کے لیے رکھ کر باقی 30 بوری گندم فروخت کر دیتے ہیں۔ اس رقم سے وہ سال بھر کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
پچھلے سال انھوں نے 30 بوری گندم (75 من) فروخت کی تھی۔ تین ہزار 900 روپے فی من کے حساب سے انہیں تقریباً 3 لاکھ روپے ملے تھے۔
اس بار انہیں امید تھی کہ حکومت گندم کا ریٹ بڑھائے گی۔ مگر حکومت گندم کا ریٹ تو کیا بڑھاتی اس نے خریداری سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اب گیم آڑھتی حضرات کے ہاتھ میں ہے۔
" اگر حکومت نے گندم نہ خریدی تو مجھے 2800 روپے من کے حساب سے گندم آڑھتی کو فروخت کرنا پڑے گی۔ یہ رقم پچھلے سال سے کم از کم 90 ہزار روپے کم ہے۔"
بھکر کے اس علاقے میں بیشتر لوگ اسی طرح سالانہ گندم کی اجرت پر زمینداروں کے ہاں کام کرتے ہیں اور وہ سب کے سب پریشانی میں مبتلا ہیں۔
ضمیر حسین کے گاؤں سے تھوڑے ہی فاصلے پر جگڑاں نامی بستی میں رہنے والے 55 سالہ اللہ وسایا بھی ایسے ہی 32 بوری سالانہ اجرت پر ایک بڑے مقامی زمیندار کے ہاں ملازم ہیں۔ اللہ وسایا کے بڑے بیٹے جن کی شادی ہو چکی ہے وہ مقامی غلہ منڈی میں مزدوری کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان 32 بوری میں سے 12 بوری گھر میں کھانے کے لیے رکھ لیتے ہیں کیوں کا خاندان 11 افراد پر مشتمل ہے۔ باقی 20 بوری گندم فروخت کرتے ہیں پچھلے بار آڑھتی نے انہیں فی من کے چار ہزار روپے دیے تھے لیکن اس سال 20 بوری گندم سے پانچ کلو گرام نمی کے نام پر کٹوتی کر کے صافی 19 بوری کی کل قیمت ایک لاکھ 33 ہزار روپے ملے ہیں جن سے پورا سال گھر چلانا ہے۔
اللہ وسایا کہتے ہیں کہ وہ اپنی اجرت کے بدلے گندم اس لیے بھی لیتے ہیں کہ گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کا امکان موجود ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ تو مزدوری کم ہو گئی ہے۔
ملک امجد علی کہاوڑ کوٹلہ جام کے بڑے زمیندار اور کسانوں کی ایک مقامی تنظیم کے عہدے دار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ضلع بھکر سمیت پنجاب کے بیشتر دیہات میں زراعت کے شعبے سے منسلک مزدوروں کی اکثریت اسی طرح سالانہ گندم لے کر زمینداروں کے ہاں مزدوری کرتی ہے جنہیں گندم کی قیمت کم ہونے سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے کاشت کار بڑے زمینداروں سے ٹھیکے پر زمین لیتے ہیں جو عام طور پر 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے ایکڑ ملتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ مہنگی کھاد، بیج اور ڈیزل استعمال کرکے فصل تیار کرنے والا اب کیا کرے گا؟ اس کے ملازم بھی پریشان ہیں۔
"شہروں میں سستی روٹی کا واویلا مچانے والے اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔"
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 12 سے 14 بوری (30 سے 35 من) کے لک بھگ ہے۔ اس بار ایک کاشت کار پہلے ہی فی ایکڑ 40 سے 45 ہزار روپے نقصان میں ہے۔
2010ء میں ہونے والی زرعی شماری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 46 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس ڈھائی ایکڑ یا اس سے کم ملکیتی زرعی رقبہ ہے۔
صوبے میں پانچ ایکڑ سے کم ملکیتی رقبے کے مالک کسانوں کی تعداد 68 فیصد ہے۔ یہ زرعی شماری 24 سال پرانی ہے۔ وراثتی زمینوں کی تقسیم کو دیکھا جائے چھوٹے کسانوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہے۔
تاہم دیہات میں رہنے والی نصف آبادی بے زمین خاندانوں کی ہے جن کی خوراک کا انحصار بھی زراعت سے جڑا ہوا ہے۔ وہ کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنی خوراک اور بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
بھکر کے محلہ ڈھالہ خیل سے تعلق رکھنے والی حمیدہ مائی ایسے ہی محنت کش خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو محنت مزدوری کے علاوہ گندم کی کٹائی کر کے اپنی خوراک اور بنیادی ضروریات پوری کرتا ہے۔
حمیداں مائی بتاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر، دو بیٹوں، تین بیٹیوں اور بہو کے ساتھ مل کر ہر سال تقریباً 15 ایکڑ گندم کی کٹائی کرتی ہیں لیکن اس مرتبہ انھوں نے بیٹی کی شادی کی وجہ سے ایک زمیندار سے 17 ایکڑ کی کٹائی کا معاہدہ کیا تھا۔ جس میں سے اب تک وہ 12 ایکڑ کی کٹائی کر چکے ہیں اور پانچ ایکڑ مزید کٹائی کرنی ہے۔
"ایک ماہ کی محنت مزدوری سے ہم نہ صرف اپنے لیے سال بھر کی گندم بچا لیتے تھے بلکہ دیگر ضرورتیں بھی پوری کر لیتے تھے مگر اس سال سب الٹ پلٹ ہو گیا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟
حمیدہ مائی کے خاندان کو فی ایکڑ چار من یعنی 17 ایکڑ کی کل 68 من گندم بطور مزدوری ملی ہے۔
پچھلے سال کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی قیمت دو لاکھ 65 ہزار 200 روپے بنتی تھی لیکن اب کے مارکیٹ ریٹ ( روپے من) 2800 کے مطابق ایک لاکھ 90 ہزار 400 روپے بنتے ہیں۔
اس کا مطلب یہی ہوا کہ حمیداں مائی کے خاندان نے محنت تو پچھلے سال جتنی کی لیکن اس کی آمدن میں 74 ہزار 800 روپے کی کمی آچکی ہے۔
نوتک میں زرعی اجناس کا کاروبار کرنے والے ناصر عُمریلی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ اور منڈی میں موجود تمام آڑھتی2800 روپے فی من گندم کی خرید کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گندم کا ریٹ آڑھتی مقرر نہیں کر رہے بلکہ انہیں جو ریٹ فلور ملز مالکان کی طرف سے دیا جاتا ہے وہ اسی کے مطابق خرید کر رہے ہیں۔
"ہمارے پاس فلور ملز مالکان کے علاوہ گندم کا کوئی اور خریدار موجود نہیں۔ ملز مالکان گندم میں نمی، مٹی اور بھوسہ وغیرہ کا بہانہ بنا کر مرضی کی کٹوتی کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی ہدایات پر چلنا پڑتا ہے تھوڑے سے فائدے کے لیے ہم اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے۔"
تاریخ اشاعت 14 مئی 2024